طلبا کے سر پرستوں نے رپورٹ کی تصدیق کی اور مزید انکشافات کیے، بیشتر ممبران نے کہا کہ نہ تو میٹنگ ہوتی ہے اور نہ ہی آمد و خرچ نیزنتائج کی تفصیل ممبران کو بتائی جاتی ہے، حاجی عارف رحمانی نے بھی میٹنگ نہ ہونے کی توثیق کی، رپورٹ شائع نہ کرنے کی فہد رحمانی کی درخواست نے بھی کئی شبہات کو جنم دیا
27اپریل کو ہمارا سماج نےرحمانی تھرٹی کے حوالے سے ملت اسلامیہ کے غریب طلبا کے مفاد میں ایک اسٹوری شائع کی تھی جس میں رحمانی تھرٹی کو غریب مسلمانوں کے استحصال کا سینٹر بتایا گیا تھا۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد پورے ملک و بیرون ملک میں ہلچل مچ گئی۔ رپورٹ پر طلبا کے کئی سر پرستوں نے از خود رد عمل دیا، جس کی تفصیلات اگلی سطور میں درج ہیں۔ رحمانی تھرٹی میں داخلہ لینے والے طلبا کے سر پرستوں سے ملی معلومات پرجب ادارہ کے ذمہ داروں سے ہمارا سماج نے رابطہ کیا تو ادارہ کے ذمہ داروں نے ہماراسماج کو مفصل معلومات نہیں دیں اور بہت کچھ چھپانے کی کوشش کی مگر ممبران کی مجموعی گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رحمانی تھرٹی کی کمیٹی کی میٹنگ کانہ ہونا ،لی گئی فیس کی رسید سر پرستوں کو نہ دینا، طلبہ وطالبات کو کھانے ، رہنے اور پڑھنے میںدشواریوں کی شکایت معقول ہے اور گارجین کو دھمکی دینا ، ان کی رقم واپس نہ کرنا بالکل عام سی بات ہے۔ ادارہ کے ذمہ دار یہ بھی بتانے کے لئے تیار نہیں کہ ان بچوں کی مجموعی تعداد کیا ہے جن کو مفت کوچنگ دی جاتی ہے ۔اس اہم رپورٹ کی اشاعت کے بعد اب تک ان سوالوں کا جواب نہیں دیا گیا ہے جو سوالات مفاد عامہ میں اٹھائے گئے ہیں، تاہم سازش ، بدلہ جیسے روایتی جواب دیے جا رہے ہیں ۔لیکن جو بنیادی سوالات ہیں وہ اب تک قائم ہیں ۔ ہم نے ادارہ کے اہم ذمہ دار جناب فہد رحمانی سے براہ راست سوال کیے، انھوں نے جواب دینے کی بجائے ویب سائٹ دیکھنے کا مشورہ دیا اور کچھ چیزیں بھیجیں لیکن نہ تو ویب سائٹ سےاورنہ ہی ان کی بھیجی ہوئی تفصیل سے اور نہ اب شیئر کیے جارہے ڈاٹا سے کوئی جواب حاصل ہو سکا۔ سوال یہی تھا کہ طلبا کے سر پرستوں سے کتنی فیس لی جاتی ہے؟ کتنے طلبا و طالبات کو فری تعلیم دی جاتی ہے؟ فیس کی رسید کیوں نہیں دی جاتی ؟ یہ رقم کیش میں ہی کیوں لی جاتی ہے؟ جب فیس لی جاتی ہے تو چندہ کیوں؟ 8,500 صرف کھانے کے کیوں لیے جاتے ہیں؟ سیکوریٹی کی رقم جو لی جاتی ہے وہ واپس کیوں نہیں کی جاتی ، یہ پیسے بعد میں طلبا سے زبر دستی یا تو ڈونیٹ کرا دیئے جاتے ہیں یا پھر اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ لوگ عاجز ہو کر رقم چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر دس ہزار ( بلکہ 40 ہزار تک کی شکایتیں ہیں ) کی اس سیکوریٹی منی کو ہزار سے گنا کریں تو صرف سیکوریٹی منی کی رقم ایک کروڑ پہنچتی ہے۔ اس کے علاوہ جولوگ بد انتظامی یا بدسلوکی اور تعلیم کی بدحالی کی بنیاد پر وہاں سے جلدی نکل جاتے ہیں ان کی رقم کیوں واپس نہیں کی جاتی؟چندہ دہندگان سے ملازمین اور مکان مالکان کے اکاؤنٹ میںپیسے کیوں منگائے جاتے ہیں؟ فہد رحمانی کے سسرالی رشتہ داروں کی تنخو اہ کتنی ہے ۔ہرسال ، داخل ہونے والے طلبا و طالبات کی کل تعداد کتنی ہے؟ مثلا 2023-2022 کے سیشن میں ، صرف پٹنہ سینٹر میںمیڈیکل اور آئی آئی ٹی کے الگ الگ زمروں میں کتنے طلبا مقیم تھے۔ ان میں سے کتنوں نے کامیابی حاصل کی؟ میڈیکل کا اب تک کیا رزلٹ ہے؟ یعنی صرف تعداد نہ بتا ئیں بلکہ یہ بھی واضح کریں کہ سی اے، میڈیکل اور آئی ئی ٹی میں کتنے میں سے کتنے طلباء کامیاب ہوئے تاکہ تناسب اور فیصد معلوم ہوسکے، آپ نے ہزار بچوں کو رکھ لیا اور سو پچاس رزلٹ د ے دیئے یہ کوئی تناسب نہیں ہے، اور ڈاٹا شیئر کر کے گمراہ کیا جا رہا ہے، اس میں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ ان میں گزشتہ تین برسوں میں کامیابی کا فیصد کیا رہا ہے؟(یاد رہے کہ اب پرسنٹائل ،پرسنٹائل کہہ کر دھوکہ دیا جارہا ہے ، لیکن یہ لوگ نہیں بتاتے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں کتنے بچوں میں سے کتنوںنے نیٹ اور جے ای ای مینس اچھے نمبر سے کوالیفائی کئے ہیں۔ ) لوگوں کی یہ بھی شکایت ہے کہ پرانے طلبا یا جو طلبا دوسرے اداروں میں جاچکے ہیں، ان کے رزلٹ کو بھی اپنا بتا کر جوڑ دیا جاتا ہے، یعنی مالی خرد برد سے لےکر رزلٹ تک میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی شکایتیں ہیں۔ فہد رحمانی نے ہمارا سماج سے وائس میسج بھیج کر اپیل کی تھی کہ رپورٹ شائع نہ کی جائے۔ یہ اپیل بہت سارے شبہات کو جنم دیتی ہے۔ ایسا کیا ہے جسے وہ چھپانا چاہتے ہیں ؟ آخرر پورٹ کیوں روکنا چاہتے ہیں؟ اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ بہت کچھ گڑ بڑ ہے۔ ایسا کیا چھپانے کی کوشش ہے کہ رحمانی تھرٹی کی کمیٹی کی میٹنگ کبھی نہیں بلائی گئی چنانچہ ہم نے خود کئی اراکین ٹرسٹ وارکان رحمانی تھرٹی کمیٹی سے تصدیق کی جن میں حاجی عارف رحمانی، مولانا صالحین ندوی، حاجی محمد شفیع، مولانا ظفر عبدالرؤف رحمانی شامل ہیں، ان اراکین نے توثیق کی ہے کہ اب تک کوئی میٹنگ نہیں بلائی گئی ہے۔ حاجی عارف رحمانی رکن رحمانی فاؤنڈ یشن ورکن رحمانی تھرٹی کمیٹی ، جنرل سکریٹری جامعہ رحمانی نے یہاں تک کہا کہ کیا کچھ ہورہا ہے، مجھے علم نہیں ہے، کبھی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ ہاںرحمانی فاؤنڈیشن کی میٹنگ میں ( رحمانی تھرٹی نہیں) کبھی جاتا ہوں تو کچھ یاد نہیں ہے کہ کیا ہوتا ہے۔ کئی بار رابطہ کرنے کے باوجود رحمانی فاؤنڈیشن کے صدر نے فون ریسیو نہیں کیا ( کیا انہیں ہدایت دے دی گئی تھی کہ ایسا فون آئے گا ؟ ) اسی طرح مولا نا صالحین ندوی سکریٹری رحمانی فاؤنڈیشن کو بھی کچھ علم نہیں ہے۔ جب فاؤنڈیشن کے سکریٹری کو کوئی علم نہیں اور رحمانی 30 کی کمیٹی کی کبھی میٹنگ نہیں بلائی گئی تو سمجھا جا سکتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ جب رپورٹ منظر عام پر آئی تو ہمارا سماج کے انکشاف کی تصدیق طلبا کے مختلف سر پرستوں نے کی اور از خود کئی انکشافات کیے جن میں طلبا کو بھو کے دن بھر باہر رکھنے کی بھی غیر انسانی شکایت شامل ہے، سر پرستوں کی ان شکایات کی چند مثالیں درج ہیں: پٹنہ کے رہنے والے خواجہ محمد عرفان نے اپنا تجربہ شیئر کیا ہے کہ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہے،ہماری بیٹی سے چھ ماہ کےلئے تقریباً سوالاکھ فیس لی گئی لیکن ہاسٹل کی بدانتظامی اور اساتذہ کے نہ رہنے کی بنیاد پر دو ماہ بعد ہماری بچی نے ہاسٹل چھوڑ دیا۔لیکن آج تک نہ سیکوریٹی کا پیسہ نہ فیس کی رقم واپس کی گئی بلکہ مانگنے پر دھمکایا گیا۔ آج چار سال ہو گئے۔داؤ د نگر کے انور انصاری لکھتے ہیں: ” رحمانی تھرٹی کے نام پر لوٹ مچا کر رکھاہے ۔ یہ کو چنگ کے گائیڈ لائن اور پروٹوکول کو فالو نہیں کرتی ہے۔ میرے دو بچوں کا سیکوریٹی منی اور چھ مہینے کی ہاسٹل فیس پچھلے دو سال سے واپس نہیں کی گئی ہے۔“ سمستی پور کے ذوالقرنین عرشی تائید کرتے ہیں: ” میرے بچے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ 25 بچوں نے احتجاجاً ہاسٹل چھوڑ دیا ، وجہ یہ ہے کہ 9 ماہ تک کوئی ٹیچر کلاس نہیں لے رہا تھا کیونکہ ان کو سیلری نہیں دی گئ بچے پریشان تھے۔ جب بھی ملنے جاتا تو بچوں سے یہی شکایت سننے کو ملتی، شفا میم ( فہد رحمانی کی ایک سالی، دوسری سالی ذروۃ الہدی جولڑکیوں کے میڈیکل شعبہ کی انچارج ہیں ) سے بات نہیں ہوتی۔ سورج (ایک انچارج) سے بات ہوتی تو کہتے کل ہی میٹنگ ہوئی ہے، دو تین دنوں میں ٹیچرز آجائیں گے۔ کہتے کہتے نو ماہ گزر گئے ۔ 12 ویں کی تعلیم شروع ہوئی ، گیارہویں کی غائب ، احتجاج میں 25 بچے نکل گئے جس میں میرا بیٹا بھی تھا، شفا میم سے بات چیت کے بعد چھ بچے رہ گئے ، میرے بچے کے ساتھ سورج کا سلوک اچھا نہیں تھا۔ عید کی چھٹیاں منانے کے بعد ایک دن لیٹ پہونچنے پر دن بھر بھو کے پیاسے ہاسٹل کے باہر کھڑے رہنے پر مجبور کیا ۔ وہ مزید کہتے ہیں: ہم بھائی کو بھیج کر بچے کو واپس لے آئے۔ یہ حال ہے اس ادارہ کا جس پر پوری قوم بھروسہ کر رہی ہے یہ لوگ بھروسے کا سودا کرتے ہیں، ان کو صرف اپنی جیبیں بھرنے سے مطلب ہے۔ قوم کے بھروسے کو بیچ کر پیسے اکھٹا کرنا اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنا ہی ان کا شیوہ ہے۔“ان لوگوں کی ایک عادت یہ بھی ہے کہ کسی شکایت پر توجہ نہیں دیتے بلکہ شکایت کرنے والوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ، فون اور مختلف طریقوں سے دھمکی دی جاتی ہے، تنگ کیا جاتا ہے۔ انور انصاری لکھتے ہیں: ” زیادہ بات کرنے پر باؤنسر کا استعمال دھمکانے اور ڈرانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ میں نے سبھی کو میل اور واٹس ایپ بھی کیا مگر کوئی جواب نہیں ملتا ہے۔ یہ تجارت کا اڈہ بنا ہوا ہے۔ اس ادارے نے امت کے سرمایے کی آڑ میں ہی لوٹ مچارکھی ہے۔ بیگو سرائے کے تنزیل الرحمن اپنا تجربہ شیئر کرتے ہیں: میں نے دو سال پہلے رحمانی تھرٹی کے آفیشیل پیچ پر یہی سب لکھا تھا، اس وقت لوگ میرے پیچھے پڑ گئے تھے۔“ وہ آگے لکھتے ہیں: سیکوریٹی منی کے نام پر دو سال قبل 15000 لیا جاتا تھا ، کتاب کے نام پر 25000 ، ٹیوشن فیس کے نام پر 1,50000 ، ان سب کے باوجود پانچ فی صد رزلٹ نہیں ہے ۔ محمد سراج نے شکایت کی ہے : ” میں نے سو بار فہد رحمانی سے رابطہ کیا ، جب میرا بیٹا اور بیٹی وہاں زیر تعلیم تھے۔ اور انہوں نے کبھی بھی کسی ایک میسج کا بھی جواب نہیں دیا، ایسے لوگوں سے کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ کوئی ڈاٹا فراہم کریں گے۔“ان کے علاوہ کئی علما ہیں جن کے بچوں کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنایا گیا، اور جب مجبوری میں طلبا نے وہاں تعلیمی سلسلہ منقطع کیا تو ان کی جائز رقم واپس نہیں کی گئی۔ ہمارا سماج کے پاس ان کی بھی ر پورٹ موجود ہے ، وقت آنے پر انکشاف کیا جائے گا۔ یہ بھی رپورٹ ہے کہ 1400 طلبا میں اگر ایک دو طالب علم کو فیس میں کسی وجہ سے رعایت دی بھی جاتی ہے تو تعلیم کے دوران فہد رحمانی کی سالیوں کے ذریعہ انہیں ٹارچر کیا جاتا ہے: ” زکوۃ کا کھا رہے ہو، شرم نہیں آرہی ہے جیسے طعنے دیے جاتے ہیں اور مجبور کیا جاتا ہے کہ کسی طرح وہ رقم دے دیں یا چلے جائیں۔ الغرض، فہد رحمانی یا ان کے لوگوں کو جو الزام لگانا ہو، لگا ئیں لیکن ادارے میں قوم وملت کے خون پسینے کی کمائی صرف ہوئی ہے، اس لیے عوام کو جواب دینا ہوگا کہ حضرت مولانا محمد ولی رحمانی علیہ الرحمہ نے جو درخت لگایا تھا اور ثمر آور ہوا بھی ، آج اس پر خزاں کیوں ہے؟ وہ کمزور طلبا کے استحصال کا ذریعہ کیوں بنا ہوا ہے ۔ جو سوال او پر اٹھائے گئے ہیں، ان کا بہر حال جواب لازمی ہے اور صحافتی حلقوں سے لے کر سماجی حلقوں اور ملی در د رکھنے والوں کو بھی اپنا فریضہ سمجھ کر آگے آنا چاہیے ورنہ آپ سبھی عند اللہ مجرم ہوں گے اور اسلام، اسلامی فکر ، خدمت قوم کے نام پر ٹھگےجاتے رہیںگے۔جب سے یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے مسلسل لوگوں کے ستائشی فون آرہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگ اس رپورٹ کو شیئر کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف رحمانی تھرٹی کے ذمہ داروں کا یہ حال ہے تو وہ اس رپورٹ کو اپنے خلاف سازش قرار دیکر جملہ سوالات کا جواب دینے سے پہلو تہی کر رہے ہیں ۔ کیا وہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اس سے ان کی ناقص کارکردگی پر پردہ پڑا رہے گا ؟ جبکہ اب خود وہاں زیر تعلیم بچوں کے گارجین بھی اپنی شکایات درج کرارہے ہیں ۔ ہمارا سماج کا اس رپورٹ کو شائع کرنا فرض عین ہے اور یہ ملت سمیت ادارہ کے حق میں بھی ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس رپورٹ کو سازش قراردینے کی جگہ اٹھائے جانے والے سوالات کے ازالہ کے لئے ذمہ داران تیار ہوں ۔
سید شعیب رضا فاطمی
9968778671