ڈھاکہ (یو این آئی) بنگلہ دیش میں گزشتہ کچھ دنوں سے جاری شدید کشیدگی کے درمیان وزیر اعظم شیخ حسینہ پیر کو ملک سے محفوظ مقام کے لئے روانہ ہوئیں اور ان کے جانے کی خبر ملتے ہی ہزاروں مظاہرین نے ان کی سرکاری رہائش گن بھون پر پر حملہ کر دیا۔ محترمہ حسینہ تقریباً 14:30 بجے ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں دارالحکومت ڈھاکہ سے روانہ ہوئیں۔ ان کی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ ذرائع کے مطابق وہ ہندوستان کے مغربی بنگال کے لیے روانہ ہو گئی ہیں۔ وہ روانگی سے قبل تقریر ریکارڈ کرنے کی خواہش رکھتی تھیں، لیکن ایسا کرنے کا موقع نہیں ملا۔ دریں اثناء آج آرمی ہیڈ کوارٹرز میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور اہم شخصیات سے ملاقات جاری ہے ۔ ڈھاکہ ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے پروفیسر آصف نذرل کو اطلاع ملی ہے کہ انہیں آرمی چیف جنرل وقار الزمان سے ملاقات میں مدعو کیا گیا ہے ۔ قومی اسمبلی کے سینئرشریک چیئرمین انیس الاسلام محمود اور پارٹی کے جنرل سیکرٹری مجیب الحق چنوں کو بھی اجلاس میں مدعو کیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنرل زمان عنقریب قوم سے خطاب کرنے والے ہیں۔طلبہ کے کارکنوں نے آج ڈھاکہ میں ایک ریلی کی کال دی تھی تاکہ ملک گیر کرفیو کے باوجود محترمہ حسینہ کو استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے ۔ جیسے ہی مظاہرین نے کچھ جگہوں پر پیش قدمی شروع کی، بکتر بند گاڑیوں اور فوجیوں نے دارالحکومت کی سڑکوں پر گشت شروع کر دیا۔ جاترا باڑی اور ڈھاکہ میڈیکل کالج کے علاقوں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم چھ افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے ۔ پولیس نے مظاہرین کے چھوٹے گروپوں کو منتشر کرنے کے لیے شہر کے کچھ حصوں میں صوتی دستی بم پھینکے ۔ اس سے ایک روز قبل ملک بھر میں پرتشدد جھڑپوں میں تقریباً 100 افراد مارے گئے تھے ۔
واضح ہو کہ بنگلہ دیش میں جاری حکومت مخالف مظاہروں میں جھڑپوں کے دوران مرنے والوں کی مجموعی تعداد کم از کم 300 ہو گئی ہے ۔خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق یہ تعداد پولیس، اہلکاروں اور ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی رپورٹوں پر مبنی ہے ۔ مظاہروں کا آغاز پیر کو دوبارہ ہوگا جبکہ دارالحکومت ڈھاکہ میں فوجیوں اور پولیس کی بھاری تعیناتی اہم سڑکوں پر گشت کر رہی ہے اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دفتر جانے والے راستوں پر بھی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔ گزشتہ روز بنگلہ دیش میں طلبہ گروپ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کردیا گیا تھا جس کے پہلے ہی روز پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 91 افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ 91 اموات بنگلہ دیش کی حالیہ تاریخ میں کسی بھی احتجاج یا مظاہرے کے دوران ایک دن میں ہونے والی سب سے زیادہ اموات ہیں جہاں اس سے قبل سب سے زیادہ حال ہی میں کوٹہ سسٹم کے خلاف ہونے والے احتجاج کے موقع پر ہوئی تھیں جب ایک ہی دن میں کم از کم 67 افراد جاں کی بازی ہار گئے تھے ۔ وزیر اعظم حسینہ واجد نے نیشنل سیکیورٹی پینل کے اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلبہ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں جو ملک کو غیرمستحکم کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں۔4 اگست کو بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمیشن نے ملک میں جاری پرتشدد واقعات کے پیش نظر بنگلہ دیش کی زیر نگرانی پاکستانی طلبہ کو اپنے کمروں تک محدود رہنے اور موجودہ صورتحال سے خود کو الگ رکھنے کی ہدایت کی ہے ۔ یاد رہے کہ چند روز قبل ہائی کورٹ کی جانب سے ‘فریڈم فائٹرز’ (جنہوں نے 1971ء کی جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا) کے بچوں اور پوتوں کا سرکاری نوکریوں میں کوٹہ بحال کیے جانے کے بعد بنگلہ دیش کے بہت سے نوجوان سڑکوں پر نکل آئے تھے ۔ 16 جولائی کو سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران 6 طلبہ کی موت کے بعد بنگلہ دیش بھر میں اسکولوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ 20 جولائی کو بنگلہ دیش میں کشیدہ حالات کے باعث وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا تھا، ملک میں کئی روز کے مظاہروں کے بعد فوج طلب کرلی گئی تھی، اس دوران ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل ہونے سے شہریوں کو معلومات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔