جیسے جیسے عام انتخابات کے دن قریب آتے جا رہے ہیں سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اور بیداری کا یہ سلسلہ ان نام نہاد مذہبی قائدین تک بھی پہنچ گیا ہے جو عام طور پر نہایت سکون سے اپنے اپنے حجروں میں صبر و شکر کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔لیکن جیسے ہی انتخابی موسم آتا ہے ان کی مصروفیات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔ان کے بیانات پر سیاسی رنگ چڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے محسن سیاست دانوں کی توصیف شروع کر دیتے ہیں ۔انہیں ملک کا ماحول نا ساز گار نظر آنے لگتا ہے ۔وہ سیکولرزم اور کامنلزم کا فرق سمجھانے لگتے ہیں ۔جس کے بارے میں انہیں خود کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔ان علما کی تقریریں ویڈیو کی شکل میں وائرل ہونے لگتی ہیں۔ جس کا اولین مقصد تو صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کے محسن لیڈروں تک ان کی بات پہنچ جائے کہ وہ بڑے شدو مد سے کام میں لگ گئے ہیں ۔لیکن اس ویڈیو کی تقریر کو ایڈیٹ کرنے والے نہایت باریکی سے اسے ایڈیٹ کر کے اکثریتی طبقہ کے درمیان مشتہر کرتے ہیں کہ دیکھو یہ مولوی مسلمانوں کو متحد کر کے غزوہ ہند کی تیاری کر رہا ہے ۔تاکہ ملک پر قبضہ کر سکے اور ہندوؤں کا قتل عام کر سکے ۔ یہ منظر نامہ آج کے ہندوستان میں عام ہے اور سوشل میڈیا نے اس ماحول سازی کے لئے تمام آسانیاں پیدا کر دی ہیں ۔
ایسے ماحول میں یہ ضروری ہے کہ ہمارے علما اور اپنی شکل و صورت سے دور سے بھی پہچان لئے جانے والے مسلمان ،مساجد میں ممبر سے خطاب کرنے والے ائمہ اور دینی جلسوں میں تقاریر کرنے والے مقررین براہ کرم سیاسی موضوع پر بات نہ کریں ،ان کے پاس مومنین کو متاثر کرنے والے انگنت موضوعات ہیں ۔وہ ان پر بات کریں ۔بھول جائیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے ۔ظلم کا سد باب ان کی تقاریر سے نہیں ہو سکتا۔اور جس حکمت عملی سے اسے روکا جا سکتا ہے اسے بنانے والے دوسرے لوگ ہیں ۔سرکار کو جن کی تقاریر سے بیچینی ہو سکتی ہے وہ بھی دوسرے لوگ ہیں اور وہ اپنا کام کر رہے ہیں ۔ظلم و جبر پر زبان ہلا کر بھی ایمان کے تیسرے درجہ تک ہی پہنچا جا سکتا ہے ۔لہذا صبر کریں ،آپ کی شعلہ بیانی سے یہ سب رکنے والاتو ہے نہیں ۔سیاسی چالبازیوں کا سد باب تقاریر سے نہیں ہو سکتا ۔اور وہ بھی انتخابی موسم میں ۔خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں فرقہ پرستوں کی سرکار نہیں ہے ۔آپ کو نظر نہیں آ رہا ہے لیکن آپ کے آس پاس منافرت کے شعلے دہکانے کا سامان جمع کیا جا رہا ہے ۔ان پر آتش گیر مادہ بھی ڈالاجا چکا ہے ،ضرورت صرف انہیں تیلی دکھانے کی ہے ۔براہ کرم اپنی کسی حرکت اور گفتگو کو تیلی نہ بننے دیں ۔
بات تھوڑی کڑوی ضرور ہے لیکن یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کا اظہار ہمیں کرنا ہوگا ۔ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنا ہی ہوگا ۔ عام طور پر ملک میں ہونے والے ہر انتخاب سے قبل مسلم ووٹ بینک کا ایک نعرہ لگتا ہے۔ ایک ایسا ووٹ بینک جس کا کوئی وجود ہی نہیں لیکن اس جھوٹے نعرے کا یہ اثر ہوتا ہے کہ سارے ملک کے غیر مسلم ووٹر اپنے کان کھڑے کر لیتے ہیں اور اپنا ووٹ اسے دینے کا من بنا لیتے ہیں جس پارٹی کے ساتھ مسلمانوں کے جانے کا یقین ہوتا ہے. لیکن سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس ملک میں کوئی پسندیدہ سیاسی پارٹی کبھی رہی بھی ہوگی لیکن اب نہیں ہے. کوئی پسندیدہ سیاسی لیڈر کبھی رہا ہوگا اب نہیں ہے. کوئی پسندیدہ مذہبی یا مسلکی قائد کبھی رہا ہوگا اب نہیں ہے. کوئی پسندیدہ مسلم تنظیم اور ادارہ رہا ہوگا اب نہیں ہے۔
اور اس کے باوجود کہا یہی جاتا ہے کہ فلاں پارٹی کے ساتھ مسلمانوں کا پورا ووٹ بینک ہے. اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس فلاں پارٹی سے اکثریتی ووٹرس صرف اس لئے دور ہو جاتے ہیں کہ اس کے کامیاب ہوتے ہی یہ ملک ہندوستان سے پاکستان بن جائے گا کیونکہ ان کے ذہن میں یہ بات برسوں کی محنت سے ڈالی گئی ہے کہ مسلمان کا مطلب ہی ملک دشمن ہوتا ہے۔ غدار ہوتا ہے، وہ سوتا ہندوستان میں ہے لیکن خواب میں کراچی اور لاہور گھوم رہا ہوتا ہے. وہ مسجد سے لے کر خانقاہوں تک صرف ملک اور ملک کی اکثریتی آبادی کے خلاف سازش کر رہا ہوتا ہے. وہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت سے نفرت کرنے والا ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔اور دوسری طرف ہمارا اپنا حال یہ ہے کہ شیعہ مسلمان سنی مسلمانوں کی مخالف پارٹی کو ووٹ دیتے رہے ۔سنی مسلک کے لوگ اہل حدیث اور دیوبندی مسلک کے مسلمانوں سےدور بھاگتے رہے۔
انصاری، ڈفالی، کباڑی، رنگریز، دھوبی، نائی، قریشی، اور نہ جانے کتنی ذاتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کے شرفا یعنی سورن سمجھے جانے والے سید، شیخ، مغل اور پٹھانوں کی نہ تو قیادت پسند کرتی ہیں اور نہ ان کی سرپرستی میں چلنے والے اداروں کو اپنا ادارہ تصور کرتی ہیں۔اور کمال یہ ہے کہ ان لغویات کے خلاف نہ کبھی ہماری تحریک چلی اور نہ ہمارے دینی اداروں نے اس پر سنجیدگی سے غور کیا کہ اس کا تدارک کیونکر ہو ۔لے دے کر ایک موضوع ہے کہ آزادی کے بعد ملک میں مسلمانوں کے ساتھ بہت ظلم ہوا۔لیکن اس ظلم کے اسباب کیا ہیں اور ہم نے اس ظلم کے سدباب کے لئے خود کیا کیا ہے سوائے زبانی تقاریر کے اس کا کوئی جواب نہیں ملتا ۔اگر میری بات پر آپ کو یقین نہ ہو تو بی جے پی کے بنائے ہوئے مسلم پسماندہ سماج کے کسی لیڈر سے بات کر لیں ،چودہ طبق روشن ہو جائیںگے ۔