بھارت کی سماجی و مذہبی ہندو تنظیم آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ ملک میں کسی مسلمان کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ،ناتو یہاں اسلام خطرے میں ہے ناہی مسلمانوں کو کوئی خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کا ہندوطبقہ وہ واحدقوم ہے جو قطعاجارحانہ نہیں ہے ۔انہوںنے اپنے خیالات ایک انٹرویو میں اس وقت ظاہر کئے جب اندرون ملک بھارت کے مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے کے بھارتیہ جنتا پارٹی ،آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے خلاف کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی بڑا محاذ کھولے ہوئے ہیں اور اپنی بھارت جوڑو یاترا کے دوران کئی بار وہ بی جے پی حکومت کو منافرت پھیلانے اور ملکی معیشت کو پیچھے دھکیلنے کے لئے ذمہ دار ٹھہرا چکے ہیں۔دراصل بھاگوت اپنے بیانوں کی وجہ سے اکثر سرخیوں میں رہتے ہیں ۔اس سے پہلے انہوںنے ایک مدرسہ میں حاضری دی تھی اور مولانا عمیر الیاسی سے ملاقات کی تھی جس کی وجہ سے بھاگوت لوگوں کی تنقید و بحث کا مرکز بنے رہے۔لیکن اب ان کا بیان ایک بار پھر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے ۔تازہ بیان میں انہوںنے مسلمانوں کے حوالے سے کچھ باتیں کہیں ،حقیقت سے دور لگتی ہیں۔بحث یہ شروع ہوگئی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے ساتھ جس طرح کا خوف کا ماحول بنایا جارہا ہے اس کی حقیقت سے انکار اور نظر انداز کیوں کیاجار ہاہے ۔اس میں نہ صرف ملک کے مسلمان شاکی ہیں بلکہ بیوروکریٹس سے لیکرہزاروں بڑے دانشوروں کے نام ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ پر آنسو بہارہے ہیں اور گاہے بہ گاہے وہ عدالتوں ،وزیر اعظم مودی اور صدر جمہوریہ کی توجہ اس جانب مبذول کراتے رہتے ہیں کہ ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے جس کو روکا جانا نہایت ضروری ہے۔لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ سنگھ سربراہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے اور ہندئوں کو اکسانے والے بیانات جاری کرنے والوں پر کوئی لگام لگانے کی کوشش کیوںنہیں کرتے ؟ اکثر لوگوں کاسوال ہے کہ مسلمانوں میں اطمینان کیسے قائم ہو اور وہ کس بنیاد پر یہ کہہ سکیں کہ وہ ملک میںبے خوفی کی زندگی جی رہے ہیں! ۔کہا جاتا ہے کہ پچھلے سات، آٹھ برسوں میں یہ خوف کئی گنا بڑھ گیا ہے ۔پچھلے کچھ سالوں میں مساجد ،مدارس اور خانقاہوں ، مسلم املاک اور تاریخی عمارتوں پر اکثریتی طبقہ کے دعوئو ں کی بات ہو،سی اے اے شہریت تبدیلی قانون ہو یا این آر سی(قومی رجسٹر سرٹیفیکیٹ ) کا ایشو ہو ،پلیسیز آف ورشپ کے تحت دائر متنازع معاملات ہوں یا یکساں سول کوڈکا مجوزہ پلان ہو ، ماب لنچنگ کے پے در پے واقعات ،دنگوں کے بعد ہونے والی مبینہ طور سے یک طرفہ پولس کارروائی ہو ، یہ تمام چیزیں مسلمانوں میں خوف کی وجہ نہیں ہوسکتے ؟۔نیز یہ سوال ہے کہ کیا پے در پے ان سب ایشوز کے بعد مسلمانوں میں خود کو ہراساں کیے جانے کا کوئی احساس پیدا نہیں ہوسکتا؟کیا ان سب کے باوجود بھی مسلمانوںمیں اطمینان باقی رہ سکتا ہے ؟۔یہ وہ سوالات ہیں جو اب بھاگوت کے بیان کے بعد کئی حلقوں کی جانب سے اٹھ رہے ہیں ۔سیکولر طبقے کا کہنا ہے کہ کیا بھاگوت صاحب کو یہ سوال ان لوگوں سے نہیںکرنا چاہئے جو ’’لو جہاد‘‘ ۔’’ لباس سے پہچانے ۔‘‘ جیسے ہراساں کرنے والے جملے کہہ کر یا پھر غیر ملکی کا طعنہ دے کر ملک کے مسلمانوں میں بے چینی پیدا کرتے رہے ہیں ؟ ۔ پرگیہ سنگھ ،ساکشی مہاراج اورڈاسنا کے مہنت یتی نرسنگھا نند جیسے زہر اگلنے والے زعفرانی لیڈروں کے بیانات کے بارے میں کیا کہا جائیگا ؟
بہر کیف،آر ایس ایس سربراہ بھاگوت کے تازہ بیان کے تناظر میں ناقدین کے اس خیال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی یاترا ملک میں نفرت کے خلاف جو بگل پھونکے ہوئے ہے ا س سے زعفرانی جماعتیں بشمول بی جے پی، سبھی خائف اور بوکھلائے نظر آرہے ہیں اور اس سے یہ حقیقت بھی اب ملک پر افشاں ہو رہی ہے کہ ایک طبقہ کے خلاف خوف کی سیاست کر کے ملک کو بے وقوف بنانے کا کام صرف اس لئے کیا جارہا ہے ،تاکہ ملک کے اقتصادی حالات سے توجہ ہٹائی جاسکے اور نفرت کی سیاست کے سہارے اقتدار پر سوار رہا جائے!۔سر سنگھ چالک کی مسلمانوں کو یہ نصیحت کہ’ ہم افضل ہیں کامسلمان گمان چھوڑ دیں‘ بیجا ہے ،مسلمانوںسب اقوام کو ساتھ لے کر چلنے اور ان سے محبت کرنے والی ہے ،اور اسلام بھی کسی سے نفرت کرنے کی تعلیم نہیں دیتا جیسا کہ ملک میں دیکھا جارہاہے! ۔