جمعیۃ علمائے ہند کی سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل
پنجاب وہریانہ ہائی کورٹ نے جس طرح اس معاملہ کا ازخود نوٹس لیا، ہم اسے تحسین کی نظرسے دیکھتے ہیں۔مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی 8؍ اگست ،پریس ریلیز ،ہمارا سماج: ہریانہ کے ضلع نوح میں مسلمانوں کی املاک پر جاری ظالمانہ بلڈوزر کی کارروائی پر پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے از خود کارروائی کرتے ہوئے روک لگا دی ہے لیکن غیر قانونی طور پر انہدام کئے گئے تقریباً ساڑھے چھ سو کچے پکے مکانات کے مکینوں کی باز آباد کاری، معاوضہ اور ٹرانزٹ گھروں میںقیام اور خاطی افسران پر کارروائی کے لئے کوئی حکم جاری نہیں کیا ہے حالانکہ جسٹس گرمیت سنگھ سندھاوالیا، جسٹس ہرپریت کور جیون نے بلڈوزر انہدامی کارروائی پر سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے ہریانہ حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔بلڈوز ر کارروائی متاثرین کی باز آباد کاری، معاوضہ اور ٹرانزٹ گھروں میں قیام اور خاطی افسران پر کارروائی کے لیئے جمعیۃ علما ء ہند نے سپریم کورٹ سے رجو ع کیا ہے اور عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ تمام ریاستوں کو ہدایت جاری کرے کہ وہ بلڈوز کی غیر قانونی انہدامی کارروائی سے باز آجائیں ورنہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔عدالت سے مزید درخواست کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بلڈوزر کارروائی پر اسٹے کے علاوہ ریاستوں کو ہدایت نہیں دیئے جانے کی وجہ سے دیگر ریاستیں بلڈوزر کارروائی کررہی ہیں ، بلڈوزر کارروائی غیر قانونی ہے ، بلڈوزر چاہے کسی بھی مذہب کے لوگوں کی املاک پر چلے۔ مبینہ ملزمین کے گھروں پر یا صرف اس وجہ سے کہ فلاں عمارت سے مبینہ پتھرائو بازی کی گئی تھی بلڈوزر سے اسے منہدم کردیا جائے ، جرم ثابت ہونے سے پہلے سزا دینے جیسا ہے جو قانوناً غلط ہے ۔عرض داشت میں مزید تحریر ہے کہ کسی بھی مکان کو خواہ اس کی تعمیرغیر قانونی ہی کیوں نا ہو بغیر نوٹس دیئے منہدم نہیں کیا جاسکتا، انہدامی کارروائی کرنے سے قبل قانونی کارروائی مکمل کرنا ضروری ہے ۔آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی جواہر یادو کا وہ بیان جس میں انہوں نے کہا کہ فسادات میں ملوث لوگوں کے مکانات منہدم کردیئے جائیں ، فسادیوں نے ضلع کا امن ومان برباد کیا ہے ، انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ ے گا اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ بلڈوزر چلانے کا مقصد غیر قانونی تعمیرات کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کی زندگی اجیرن کرنا ہے۔عرضداشت میں مزید تحریر ہے کہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، دہلی، گجرات اور دیگر ریاستوں میں گذشتہ سال بلڈوزر کے ذریعہ انہدامی کارروائی انجام دی گئی تھی جس پر سپریم کورٹ نے اسٹے لگادیا تھا اور سخت زبانی تبصرے بھی کئے تھے لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے تحریر ی ہدایت نہ ہونے کی وجہ سے آج نوح جیسا واقعہ پیش آیا ۔عدالت سے درخواست کی گئی وہ بلڈوزر معاملے میں زیر سماعت سماعت عرضداشتوں پر جلداز جلد سماعت کرے ۔کیونکہ عدالت نے نوح واقعہ سے قبل ان عرضداشتوں پر ستمبر 2023کے اخیرمیں سماعت کئے جانے کا حکم جاری کیاتھا،جس میں جمعیۃعلماء ہند 18؍اپریل 2022سے فریق ہے ، آج جمعیۃ علما ء ہند کی جانب سے داخل عرضداشت میں مدعی گلزار اعظمی (سیکریٹری قانونی امداد کمیٹی ) بنے جبکہ عرضداشت کو ایڈوکیٹ صاریم نوید اور ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے تیارکیا ہے جسے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کبیر دکشت نے داخل کیا ہے۔
مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ مذہبی شدت پسندی اورمنافرت کی ایک سیاہ آندھی پورے ملک میں چلائی جارہی ہے ، اقلیتوں اورخاص طورپر مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی جگہ جگہ سازشیں ہورہی ہیں، مسلم محلوںمیں اور مسجدوں کے عین سامنے اشتعال انگیزیاں ہورہی ہیں ، پولس کی موجودگی میں لاٹھی ڈنڈے اورتلواریں لہراکر انتہائی دل آزارنعرے لگائے جارہے ہیں ، اورسب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ، ایسالگتاہے کہ جیسے ملک میں اب نہ توکوئی قانون رہ گیا ہے اورنہ ہی کوئی حکومت جو ان پر گرفت کرسکے ، فرقہ پرستوں کے ذریعہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہاہے ، اورمرکزی حکومت اس طرح خاموش ہے کہ جیسے یہ کوئی بات ہی نہیں ہے ،شوبھایاتراکے درمیان ملک کی کئی ریاستوں میں بالخصوص ہریانہ کے نوح میوات واطراف میں فرقہ وارانہ تشدد، اس کے بعد سرکار اور انتظامیہ کی طرف سے مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کے انہدام پرمولانا مدنی نے سخت تشویش کا اظہارکیاہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں اب قانون کی حکمرانی کا دور ختم ہوگیا،سزا اور جزا کے تمام اختیارات حکومتوں نے اپنے ہاتھوں میں لے لئے ہیں ، اس کے منھ سے نکلنے والے الفاظ ہی قانون ہیں۔ گھر وں کو زمین بوس کرکے موقع پر فیصلہ کرنے کا آمرانہ رویہ ان حکومتوں کا معمول بن گیا ہے۔گویااب عدالتوںکی کوئی ضرورت ہی نہیںرہی ، کیونکہ جوفیصلہ عدالتوں کوکرنا تھا اب ہمارے حکمراں خودکرنے لگے ہیں۔