شعیب رضا فاطمی
اسلام اور یورپی یونین مخالف نیدرلینڈز کا ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ یا ”ڈچ ٹرمپ‘‘ کہا جانے والا 60سالہ دائیں بازو کا سیاست دان گیئرٹ ورلڈرز اور اس کی پارٹی نیدرلینڈز میں قومی الیکشن کے نتائج کے مطابق سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور اب ولڈرز نئے وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں ۔
جرمنی کے ہمسایہ ملک نیدرلینڈز کے دارالحکومت دی ہیگ میں ہونے والی اس سیاسی تبدیلی نے نہ صرف ڈچ سیاست دانوں کی اکثریت کو بلکہ مسلمانوں سمیت پوری یورپی یونین کو بھی خوفزدہ کر دیا ہے۔ اس الیکشن میں اپنی اسلام دشمنی، مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کی مخالفت اور یورپی یونین پر مسلسل شدید تنقید کے لیے مشہور انتہائی دائیں بازو کے رہنما گیئرٹ ولڈرز کی فریڈم پارٹی کو نو منتخب پارلیمان میں 37 سیٹیں ملیں ہیں ۔
یہ نتائج اس لیے بھی بہت حیران کن ہیں کہ اس سے پہلے گزشتہ الیکشن میں ولڈرز کی پارٹی کو اس مرتبہ سے نصف سے بھی کم سیٹیں ملی تھیں۔ ڈچ الیکشن کے مکمل نتائج سامنے آنے کے بعد یہ بھی واضح ہو گیا کہ نہ صرف ولڈرز کی پارٹی کو نیدر لینڈز اور یورپ کو حیران کر دینے والی ’’خوفناک کامیابی‘‘ ملی ہے بلکہ اب تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز مارک رُٹے کی پارٹی کے لیے تو یہی انتخابی نتائج ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے۔
مارک رُٹے کی پارٹی کو الیکشن میں صرف 24 سیٹیں ملیں جبکہ بائیں بازو کا سیاسی اتحاد بھی صرف 25 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا۔
حالانکہ گیئرٹ ولڈرز کی عمر اس وقت 60 برس ہے اور انہیں ابھی یہ انتہائی مشکل کام بھی کرنا ہو گا کہ نئی پارلیمان میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے وہ ایوان میں دیگر جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر نئی ملکی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کریں۔لیکن ولڈرز کے لیے یہ کام انتہائی مشکل اس وجہ سے ہو گا کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کو، جو ان کی پارٹی پی وی وی کی سوچ کے سخت خلاف ہیں، کس طرح اس بات پر آمادہ کریں گے کہ وہ ولڈرز کے ساتھ مل کر نئی مخلوط حکومت بنائیں۔
فریڈم پارٹی کے لیے اپنی نئی پارلیمانی طاقت کے باوجود حکومت سازی اس لیے بھی بہت مشکل ہو گی کہ ولڈرز جن سیاسی حریف پارٹیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے، انہوں نے تو الیکشن سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ پی وی وی کی قیادت میں بننے والی کسی بھی نئی حکومت میں شامل ہوں گے ہی نہیں۔
ڈچ فریڈم پارٹی کا انتخابی منشور
گیئرٹ ولڈرز کی پارٹی کی الیکشن میں کامیابی کی تصدیق ہوتے ہی یورپ بھر سے انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے بہت سے رہنماؤں نے ولڈرز کو مبارک باد دینا شروع کر دی ہے ۔ ان میں فرانس اور ہنگری میں ولڈرز کے ہم خیال سیاسی رہنما سب سے نمایاں تھے۔
جہاں تک ولڈرز کی انتخابی حکمت عملی کا تعلق ہے، تو انہوں نے الیکشن سے پہلے کی سیاسی مہم میں اپنی روایتی اسلام دشمن شعلہ بیانی کا لہجہ ذرا سا نرم کر دیا تھا۔ حالانکہ ڈچ فریڈم پارٹی نے بدھ کے روز ہونے والے قومی الیکشن کے سلسلے میں اپنا جو سیاسی منشور پیش کیا تھا، وہ کسی بھی جمہوریت پسند ڈچ یا یورپی ووٹر کو ڈرا دینے کے لیے کافی تھا۔
پی وی وی کے انتخابی پروگرام میں ووٹروں سے کیے گئے یہ وعدے بھی شامل تھے کہ اقتدار میں آ جانے کی صورت میں یہ سیاسی جماعت ملک میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن، مساجد اور ہیڈ اسکارف پر پابندی لگا دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس پارٹی کو ملنے والی مقابلتا سب سے زیادہ عوامی حمایت کے فوری بعد ڈچ مسلمانوں کی تنظیموں کے رہنماؤں کی طرف سے گہری تشویش کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔
گیئرٹ ولڈرز سالہا سال سے یورپی یونین کے اس حد تک مخالف رہے ہیں کہ وہ بے شمار مرتبہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ نیدرلینڈز کو یورپی یونین سے نکل جانا چاہیے۔
مختلف خبر رساں اداروں نے ڈچ انتخابی نتائج کے بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اب برسلز میں یورپی یونین کی قیادت کو اس بات پر بھی گہری تشویش ہو گی کہ یونین مخالف ولڈرز نیدرلینڈز میں اقتدار میں آنے کے بعد ممکنہ طور پر ایک ایسے ہی ریفرنڈم کے انعقاد کا اعلان بھی کر سکتے ہیں، جیسا برطانیہ میں کئی سال پہلے کرایا گیا تھا۔
برطانیہ میں بریگزٹ نامی ریفرنڈم میں عوام نے معمولی اکثریت سے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کی حمایت کر دی تھی۔ نیدرلینڈز میں تو میڈیا میں اب اسی تناظر میں بریگزٹ یا ‘برٹش ایگزٹ‘ (Brexit) کی طرز پر ‘نیدرلینڈز ایگزٹ‘ یا ‘نیگزٹ‘ (Nexit) کی اصطلاح بھی استعمال کی جانے لگی ہے۔
گیئرٹ ولڈرز نے اپنی پارٹی کی انتخابی کامیابی کے بعد دی ہیگ میں سیاسی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے تارکین وطن کے خلاف اپنی شعلہ بیانی کو پہلے کے مقابلے میں اور بھی شدید کر دیا۔ولڈرز نے کہا کہ ڈچ عوام نے پناہ کے متلاشی تارکین وطن کی آمد کی ’’سونامی‘‘ کے خلاف اپنا حتمی فیصلہ دے دیا ہے۔ بعد ازاں انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’تمام ڈچ شہریوں کے وزیر اعظم‘‘ بننا چاہتے ہیں اور نئی مخلوط حکومت بنانے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملانے کی خاطر ’’بڑی محنت سے کام‘‘ کریں گے۔لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ولڈرز کی پارٹی کو 150 رکنی ڈچ پارلیمان میں سب سے زیادہ لیکن محض 37 سیٹیں ملی ہیں اور صرف سادہ اکثریتی بنیادوں پر ہی مخلوط حکومت سازی کے لیے بھی انہیں کم ا زکم 76 ارکان کی حمایت حاصل کرنی ہوگی ۔اسی لئے تجزیہ کاروں کا یہ سوال واجب ہے کہ 150 رکنی پارلیمان میں 37 سیٹوں والی ولڈرز کی پارٹی کو کم از کم بھی تو 76 ارکان کو اپنا ہم خیال اور سیاسی ہم سفر بنانا ہوگا جبکہ وہ لوگ پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر اس انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کے منشور کی حمایت نہیں کرینگے ۔
ReplyForward |