اتراکھنڈ میں نینی تال ضلع کے ہلدوانی قصبہ میں ہزاروں کنبوں میں خوف وہراس کا ماحول ہے۔پچھلے کئی دنوں سے ہلدوانی کے باشندوں کے چار ہزار سے زائد کنبوں کو گھروں کو منہدم کرنے کا نوٹس تھما دیا گیا ہے جس سے ان میں اضطراب پایا جارہاہے۔ مقامی انتظامیہ نے لگ بھگ پانچ ہزار مکانات کو منہدم کرنے کا نوٹس دے دیاہے، جس پر 9 جنوری سے کارروائی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ مکانات 78 ایکڑ اراضی پر ریلوے کی زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے ہیں اس لئے انہیں خالی کرایا جانا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم پر انہیں منہدم کرنے کیلئے نشانات لگا دیے گئے ہیں۔ ان میں بیشتر مکانات کافی عالیشان ہیں،جس علاقے کو منہدم کیا جانا ہے وہاں ایک لاکھ سے زائد افراد رہتے ہیں۔ ان میں 95 فیصد مسلمان اور 5 فیصد ہندو ہیں۔ یہ لوگ تقریباً 80 برس سے یہاں آباد ہیں۔ یہاں تقریباً 20 مساجد، 9 مندر، کمیونٹی سینٹراور متعدد اسکول بھی ہیں۔ عدالت نے ان سب کو منہدم کرنے کا فیصلہ صادرکیا ہے۔حالانکہ مقامی افراد اس کے خلاف انتظامیہ سے پر زور اپیلیں کررہے ہیں لیکن ان کی کسی اپیل کا کوئی اثر ہوگا یا نہیں اس پر5جنوری کو عدالت میں سنوائی کے بعد کچھ کہا جاسکے گا۔سوال یہ کھڑا ہے کہ جب زمین ریلوے کی تھی تو اس پر رہائش کی اجازت کس طرح مل گئی ،جبکہ لوگوں کا کہنا ہے وہ 80 برس سے اس جگہ پر بودو باش اختیار کیے ہیں ،اور اب انہیں در بدر کئے جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے!۔
در اصل یہ معاملہ اچانک اس وقت سرخیوں میں آیا جب اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے 20 دسمبر کو پوری بستی خالی کرانے کا حکم دے دیا۔ ریلوے نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ اس کی زمین ہے، جس پر لوگوں نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔مقدمے کے دوران ریاست کی بی جے پی حکومت نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ چونکہ یہ جائیدادیں ریلوے کی ہیں لہذا اس معاملے میں اسے کوئی لینا دینا نہیں۔تبھی سے عدالتی فیصلے کے خلاف ہلدوانی میں ہزاروں مرد وخواتین کا زبردست احتجاج جاری ہے بلکہ پورے علاقہ میں شدید تنائو پایا جارہا ہے۔حالانکہ کسی بھی بگڑتی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تقریبا سات ہزار پولس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے تا کہ قانونی نظم و نسق نہ بگڑے۔لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ اپنے گھروں سے دربدر کئے گئے لوگ اب کہاں جائیںگے اور ان کے باز آباد کاری کے کیا بندوبست کئے گئے ہیں!۔اتراکھنڈ انتظامیہ کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ بزرگ ، بچے اورخواتین ،جن میں بیمار اور کمزور بھی ہونگے ،اس کڑاکے کی ٹھنڈ کے موسم میں سڑکوں پر کیسے رہیں گے اور کس طرح زندگی گزاریں گے۔حالانکہ اس پورے معاملے پر سیاست بھی کی جارہی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ ہلدوانی کے رہنے والے لوگوں کے پاس حکومت سے جاری کردہ تمام سرکاری دستاویزات موجود ہیں۔اس لئے سوال حکومت سے بھی ہونا چاہئے کہ عوام کے ساتھ دھوکے بازی کیوں کی گئی ؟ کیا وہاں کے لوگوں کو مسلمان ہونے کی سزاتو نہیںدی جارہی ،یہ بھی سوال اٹھنے لگاہے؟
اس میں شک نہیں کہ وطن عزیز میں پچھلے کچھ دنوں سے ایک طبقہ کے خلاف جانبدارانہ کارروائی کا سلسلہ عروج پر ہے ،ان کی بستیوں پر شب خون حملہ کیا جارہاہے اور کھدیڑا جارہا ہے ۔بی جے پی ریاستوں میں یہ ظلم اپنے شباب پر ہے ۔حالانکہ بلڈوزر کی پالیسی بی جے پی کی حکومت والی ریاست اتر پردیش کی مرہون منت ہے ۔یہ پالیسی ایک بار دہلی کا بھی رخ کر چکی ہے ۔وہیں مدھیہ پردیش اور آسام میں بھی اس پالیسی پر عمل کیا جارہاہے۔لہذا کہا جاسکتا ہے کہ ایک جانب یہ معاملہ تعصب کی گرد سے آلودہ لگتاہے تو وہیں اسمیں بد عنوانی کا عنصر بھی شامل ہے!۔سوال یہ ہے کہ اگر ریلوے کی زمین ہے اور اس پر لوگوں نے قبضہ کیا ہے تو ان کو سرکاری دستاویز کیسے مہیا کرائے گئے؟ اورپچھلے 80 سالوں کے دوران مالکان کو مکانات کی تعمیر کی اجازت کیسے ملتی رہی؟ان کی رجسٹریاں کیسے ہوئیں ،کیا یہ سب تنہا باشندوں کی مرضی اور اختیار سے ہوگیا ،کیا اس میں انتظامیہ ذمہ دار نہیں ہے ؟ اسلئے ریلوے کی زمین پر گھروں کی تعمیر کے لئے ملوث افسران اور عملہ کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے ؟ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے ،لیکن محسوس ہوتاہے کہ ہلدوانی میں صرف ایک ہی طبقہ کے لوگوں کے گھروں کو اجاڑنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ،جس سے بی جے پی حکومت کی نیت اور منشا پرسوال کھڑے ہورہے ہیں،شاید اسکے پیچھے کوئی سیاسی فائدہ مقصود ہے!۔لیکن اس پر کسی قسم کی سیاست نہیں ہونی چاہئے ،اسے ہندو مسلم کی نگاہ نے نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ یہ معاملہ دونوں فرقہ کے ایک لاکھ لوگوں کی رہائش کے مسئلے سے منسلک ہے اور ان کی بودوباش دائو پر لگی ہوئی ہے۔