شعیب رضا فاطمی
آج پھر لعل قلعہ سے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنا تاریخی خطبہ دیا ۔جس میں انہوں نے بد عنوانی ،پریوار واد اور مسلم اپیزمنٹ کو نشانہ بناتے ہوئے اس کے ختم ہونے تک چین نہ لینے کا عہد کیا ۔اپنی تقریر کے دوران موصوف نے اپنے سرکار کی خوب پیٹھ تھپتھپائی اور بھائیو بہنوں کی جگہ پورے ملک کے شہریوں کو اپنا پریوار بتاتے ہوئے ان سے مدد بھی مانگی تاکہ وہ مستقبل میں ملک کو دنیا کی سب سے بڑی قوت بنا سکیں ۔لیکن پھر اسی تقریر میں انہوں نے یہ بھی کہدیا کہ وہ 2024 کا انتخاب جیت کر پھر وزیر اعظم بنینگے ۔لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم کی تقریر مختلف عنوان کے اعلانات کے حوالے سے مشہور ہے ۔لیکن یہ پہلے وزیر اعظم ہیں جن کو مختلف منصوبوں کے اعلان کا تو بہت شوق ہے لیکن پھر وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اعلان کا کیا ہوا ۔بدعنوانی ان اعلانات میں سے ایک ہے ۔جس کو ختم کرنے اور اس کی جڑ کھودنے کے نعرے کے ساتھ ہی وہ وزیر اعظم بنے تھے لیکن ان نو سالوں میں بدعنوانی پر حملے کے نام پر انہوں نے صرف اپوزیشن کے زیادہ تر لیڈروں کو ڈرا دھمکا کر اپنی پارٹی میں شامل کرنے کے علاوہ انہوں نے کوئی اہم کام نہیں کیا ہے ۔نریندر مودی جب پریوار واد کی بات کرتے ہیں تو ان کے سامنے صرف کانگریس ہوتی ہے ۔انہیں یہ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ خود ان کی پارٹی میں ایسے کتنے لیڈر ہیں جو پریوار واد کی وجہ سے ممبر آف پارلیامنٹ ہیں اور اپنی تیسری نسل کے لئے بھی ٹکٹ کے طلبگار ہیں۔جہاں تک مسلمانوں کی کانگریس کے ریعہ منہ بھرائی کی بات ہے تو یہ نریندر مودی کے پورے قبیلے کا مسلہ ہے ۔اور یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے جسے سچ بتا کر وہ ملک میں اکثریتی طبقہ کو ورغلاتے رہے ہیں اور اسی جھوٹ کی بنیا د پر ان کے اقتدار کی کرسی کھڑی ہے ۔اور اب اس سیاسی جھوٹ نے اتنی خطرناک صورت اختیار کر لی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے ۔جبکہ اس دور میں سب کچھ گوگل پر موجود ہے ہے اور کوئی بھی یہ دیکھ سکتا ہے کہ آزادی کے بعد بھارت میں مسلمانوں کو کیا دے دیا ہے جس کو بی جے پی والے اور اب تو تقریبا آدھی آبادی اپیزمنٹ کا نام دے دیتی ہے ۔حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ خود کانگریس کے دور حکومت میں ہی بنائی گئی سچر کمیٹی نے بھی تحقیق کر کے جو رپورٹ ٹیبل کی تھی اس میں ملک میں مسلمانوں کی حالت کو دلتوں سے بھی بد تر قرار دیا ۔نہ بھارت کے مسلمان تعلیم میں آگے ہیں نہ نوکری میں ۔ان کی نمائندگی نہ تو سیاست میں معقول ہے اور نہ ہی نوکری میں ۔معاشی سطح پر بھی مسلمان ملک میں سب سے نچلے پائدان پر کھڑے ہیں ۔لیکن پھر بھی ملک کے وزیر اعظم آج بھی کانگریس پر یہ الزام لگاتی رہتی ہے کہ اس نے اپنے دور اقتدار میں مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اپنائی ۔اب وزیر اعظم سے یہ کون پوچھے کہ حضور والا آپ یہ تو بتائیں کہ زبانی طور پر جو آپ اپنی تقریر میں فرماتے ہیں کہ آپ کی زندگی کا جو گول ہے کہ آپ بدعنوانی سے آخری دم تک لڑتے رہینگے یہ کب ختم ہوگا ۔ملک کے لوگ تو ہر روز اسے بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور دوسری پارٹیوں کے لوگ بھی اگر بد عنوانی میں ملوث پکڑے جاتے ہیں تو وہ بس ایک کام کرتے ہیں کہ وہ آپ کی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں اور انہیں ایمانداری کا سرٹیفیکٹ آپ خود دے دیتے ہیں ۔
گزشتہ 9 برسوں کے دوران ملک میں یقینا کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور جارحانہ فرقہ پرستی کے واقعات کا لامتناہی سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ۔ مسلمانوں ، دلتوں اور قبائل پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ۔ خون ناحق بہایا گیا لیکن نریندر مودی کا ’’مون ورت‘‘ جاری رہا ۔ مودی نے ملک کے سلگتے مسائل پر کبھی من کی بات نہیں کی۔ نریندر مودی نے 9 برسوں میں کبھی بھی میڈیا کے سوالات کا سامنا نہیں کیا۔ امریکہ کے دورہ کے موقع پر جوبائیڈن پر اپنی قابلیت اور بہادری کا روک جتانے کیلئے میڈیا کے ایک سوال کا سامنا کیا تھا لیکن ایک ہی سوال نے ہوش ٹھکانے لگادئے تھے۔ ملک میں لوجہاد ، ماب لنچنگ ، مسلمانوں کے بائیکاٹ ، مخالف مسلم فسادات اور عبادتگاہوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن مودی نے کبھی بھول کر بھی لب کشائی نہیں کی۔ بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کے گھر اور دکانات پر بلڈوزر چلتے رہے۔ ہریانہ میں گجرات تجربہ کو دہرانے کی کوشش کی گئی۔ چلتی ٹرین میں محافظ کے بھیس میں قاتل نکلا اور تین مسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا۔ منی پور تین ماہ سے جل رہا ہے اور صورتحال بے قابو ہے۔ خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کے ویڈیوز وائرل ہوگئے۔ چیف منسٹر منی پور نے کہا کہ ایک نہیں ایسے واقعات 100 سے زائد رونما ہوچکے ہیں۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن نریندر مودی نے مذمت کا ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔
حد تو اس وقت ہو گئی کہ اس سرکار اور خاص طور پر مودی جی کو پارلیمنٹ میں بلا کر ان سے جلتے ہوئے منی پور کے حالات پر تبصرہ کے لئے حزب اختلاف کو عدم اعتمادکی تحریک پیش کرنی پڑی تاکہ کم از کم اس کا جواب دینے کے لئے تو موصوف پارلیامنٹ میں تشریف لائینگے ۔ لیکن وہاں آکر بھی انہوں نے دو گھنٹے کی تقریر کے فوران کانگریس کا مذاق ایسے اڑایا جیسے وہ کسی انتخابی ریلی میں ہوں ۔کل ملا کر لال قلعہ کی تقریر میں بھی مودی جی کا وہی پرفارمنس رہا جو پارلیامنٹ میں تھا ۔اور ملک کے لوگوں کی مایوسی میں اضافہ ہی ہوا ۔
ReplyForward |