(عامر سلیم خان)
بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اسلام کے متعلق اپنی معلومات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیںہے۔مذہب اسلام کے متعلق یہ بات انہوں نے کل بھارت میں مسلمانوں کے نمائندہ ادارے ’ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر‘ نئی دہلی میں اس وقت کہی جب وہ ہمارے ملک میں ثقافتی تبادلہ کیلئے آنے والے انڈونیشیاءکے ایک اعلی سطحی وفد کو خطاب کررہے تھے۔ اس وفد کی قیادت انڈونیشیاءکے قومی سلامتی مشیر اور نائب وزیراعظم پروفیسر ڈاکٹر محمد محفوظ ایم ڈی کررہے تھے۔ اس پروگرام کا عنوان ”ہندوستان اور انڈونیشیاءمیں بین مذاہب رواداری اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ میں علماءکا کردار“ تھا۔کسی اہم شخصیت یا کسی ملک کے سربراہ کے ذریعہ مذہب اسلام کے بارے میں کہی جانے والی’ امن وسلامتی‘ کی یہ کوئی نئی بات نہیں۔ دنیا کی سپرپاور حکومتوں کے سربراہ ہوں یا چھوٹے ممالک کے حکمراں، اسلام کی امن حقیقت کے متعلق باتیں کرتے رہے ہیں۔ دراصل اسلام کی تعلیمات یہی ہےں کہ اگر روئے زمین پر کوئی ناحق قتل ہوجائے تو سمجھئے کہ یہ پوری دنیا اور پوری انسانیت کیخلاف ایک سنگین جرم ہے اور لفظ اسلام کے معنی بھی ’ امن وسلامتی‘ کے ہیں۔
متحدہ امریکہ کے صدر براک اوباما نے سال2014 میں اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذہب اسلام سلامتی اور امن کا مذہب ہے جس میں خواتین اور بچوں کے قتل،دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ صدر اوباما نے مسلم نوجوانوں سے خصوصی اپیل کی کہ وہ تعلیم پر مکمل دھیان دیں اور بہتر پیشہ ورانہ صلاحیتیں پروان چڑھائیں، کیونکہ ان ہی چیزوں سے دنیا ترقی و خوش حالی سے ہمکنار ہوگی۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں بار بار ایسی باتیں کیوں کہی جاتی ہیں، کیونکہ تقریباً دو ڈھائی دہائی سے بھارت سمیت پوری دنیا اور خصوصاً عرب ممالک دہشت گردی کے عذاب سے جوجھ رہے ہیں اور اس تشدد کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پرکہیں نہ کہیں ایسے نوجوانوںسے ہوتا ہے جو کلمہ گو ہوتے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ایسے نوجوان اسلام کے نام پر تشدد پھیلاتے ہیںاور اس کیلئے قبیح جواز بھی پیش کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ دوسری طرف عالم اسلام کے بڑے بڑے مذہبی پیشواءاسلام کے نام پر کی جانے والی ایسی پرتشدد حرکتوں سے باز آنے کی تلقین کرتے رہے ہیں،مگر اس کا بہت بڑا اثر ایسے نوجوانوں پر نہیں ہورہاہے۔
دہشت گردی کیخلاف پوری دنیا ایک ہے کیونکہ دنیا کو سکون چاہئے۔ اسی لئے ایسی حرکتوں کیخلاف برطانیہ، سعودی عرب اور جمہوریہ وسط افریقہ کے علما، زعمااور اماموں کی طرف سے کئی فتوے سامنے آچکے ہیںجن میںشریعت کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیںاور جو لوگ ایسا رویہ اور قبیح عمل اپناتے ہیں، دین اسلام انھیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔سال 2013 میں مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے خطبہ حج میں کہا تھاکہ اسلام امن پسند مذہب ہے اور امن کی بات کرتا ہے۔ اسلام دہشت گردی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ لاکھوں حاجیوں سے خطاب کرتے ہوئے مفتی اعظم نے کہا کہ اسلام نے امن کی تعلیم دی ہے۔ یہ دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتاہے۔ اس طرح دنیا بھر کے درجنوں علماءکبار اور مفتیان عظام نے فتوے دیئے ہیں کہ کسی بھی حال میں اسلام دہشت گردی کی اجاز ت نہیں دیتا۔اسلام نے ہمیشہ امن کی تعلیم دی ہے ۔ دوسری طرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالموں کے ساتھ معافی کارویہ اختیار فرمایا اور اپنے اوپر زیادتی کرنےوالوں کوبھی یہ کہتے ہوئے معاف کرتے رہے کہ آج یہ امن کی باتیں نہیں سمجھ پارہے ہیں لیکن ان کی نسلیں سمجھیں گی اور مانیں گی۔
مگر یہ بات ذہن کو کھٹکتی ہے کہ نوجوانوں کے دل ودماغ میں ایسی خرافات آتی کیوں ہیں؟۔ یہ ایک سوال ہے جس کاجواب ہر اس رہنما کے پاس ہے جو اسلام کو امن اور سلامتی کامذہب قرار دیتا ہے ، لیکن اس کے تدارک پر کوئی سنجیدہ قدم اٹھایا نہیں جاتا۔ہمارے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال جی سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ اگر اسلام خرافات اور سماج میں تشدد پھیلانے کی اجازت نہیںدیتا ہے تو کیا دیگر مذاہب میں ہے؟۔ ہرگز نہیں! لیکن آج ہم اپنے ملک میں آئے دن اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی خرافات سنتے رہتے ہیں۔ اگر اسلام امن کامذہب ہے تو یقینی طو رپر دنیا کا کوئی بھی مذہب اور سماج ایسا تو نہیں ہے کہ اس میں تشدد کی کوئی گنجائش ہو۔ ہر مذہب اور سماج کے پیشواءنے معاشرہ میں امن امان کی تعلیم دی ہے۔ اگر اجیت ڈوبھال جی ایسے لوگوں کے بارے میں بھی ذرا سنجیدگی سے کچھ کہتے اور تنبیہ کرتے تو یقینی طورپر اس کا زمین پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور دکھائی دیتا۔ وزیراعظم نریند ر مودی نے جب بار بار کہا کہ گائے کے نام پر انسانوں کاقتل کرنے والے لو گ صحیح نہیں ہیں تو اس کا زمین پر کم وبیش 70فیصد اثر ہوا اورآج ایسی واردات نہ کے برابر سننے کو ملتی ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہمارا حکمراں طبقہ مسلم نوجوانوں کو سمجھانے کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کو بھی سماج میں تشددپھیلانے اور اشتعال انگیزی کیخلاف تنبیہ کرے۔
ایسا نہیں ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال جی نے ان لوگوں کی تنبیہ کی نہیں کی جو آئے دن بھارتی سماج میں مذہبی نفرت کازہر گھول رہے ہیں ،مگر بہت ڈھکے چھپے لفظوں میں کہا اور اس کیلئے بہت کم جملوں سے کام لیا۔مسٹر اجیت ڈوبھال نے پروگرام میں جہاں اسلام کو امن کامذہب قرار دیا اور نوجوانوں سے سماج میں امن اور پیس لانے کی اپیل کی وہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت میں جہاں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیںہے وہیں نفرت انگیز بیانات اور اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعہ مذہبی منافرت پھیلانے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے لوگو ںکی پہچان کرکے انہیں’ تنہا‘ کئے جانے کی ضرورت ہے۔سوال یہ ہے کہ کیاانہیں صرف تنہا کئے جانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے جمہوری آئین کی روشنی میں ان کیخلاف سخت کارروائی بھی ضروری ہے؟۔ وہ کم خطرناک نہیں ہیں جو سماج میں اور خاص طورپر ایک مخصوص مذہب کیخلاف زہر افشانی کرتے ہیں۔ یہ زہر افشانی میڈیا کا ایک بڑا طبقہ بھی دن رات کرتارہتا ہے لیکن ان کیخلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ بہت بہتر ہوگا کہ ہرطبقے میں موجود سماج دشمن عناصر کیخلاف سنجیدہ کارروائی ہو تبھی ہمارے سماج میں امن قائم ہوگا۔حکومت اور انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ منصفانہ طورپربلا تفریق مذہب سماج کے ایسے عناصر کی شناخت کرے اور انہیں اردو اور ہندی میں سمجھادے کہ ہمارا ملک ایک امن پسند ملک ہے اس لئے یہاں یہ سب نہیں چلے گا۔