نئی دہلی،22؍جون،پریس ریلیز، ہمارا سماج: اکادمی برائے فروغِ استعداد اردو میڈیم اساتذہ کے جرنل’’ تدریس نامہ‘‘ کے نویں شمار ے کا اجراکرتے ہوئے مجھے بے حد خوشی ہورہی ہے ۔ تدریس نامہ کے مشمولات بیش بہا ہیں۔ اس شمارے کے مضامین کو پڑھ کر اردواساتذہ کو بہترین رہنمائی ملے گی۔ میں اس رسالے کی اشاعت پر اکادمی کے تمام ذمہ داران کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ ان خیالات کا اظہار شیخ الجامعہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ پدم شری پروفیسر نجمہ اختر نے اردو جرنل ’’تدریس نامہ‘‘ کے اجرا کے موقع پر کیا ۔ یہ جلسہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے یاسر عرفات ہال میں منعقد ہوا۔ اس موقع پرپروفیسر نجمہ اختر صاحبہ نے فرمایا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بنیادی مقاصد میں اردو زبان و ادب کا فروغ شامل ہے۔ جامعہ کے اساتذہ اور تمام ذمہ داران کو اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اردواساتذہ اکادمی کو اپنے دائرۂ کار میں وسعت لانے کی ضرورت ہے ۔اس اکادمی کا معاہدہ SCERT دہلی سے اکادمی کے بنیادی مقاصد کی تکمیل کے لیے ہوا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف صوبوں کے SCERT سے بھی اس ادارے کا معاہدہ ہو۔ ہماری نیک خواہشات اکادمی کے ساتھ ہیں۔ اس اکادمی کو تدریسی موضوعات سے متعلق ترجمے کے میدان میںبھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر اکادمی کے اعزازی ڈائرکٹر پروفیسر شہزاد انجم نے شیخ الجامعہ کا گلدستے سے استقبال کیا اور اکادی کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اکادمی کے بنیادی مقاصد میں اردو میڈیم اساتذہ کی تدریسی صلاحیتوں کو قوت بخشنا ، تدریسی مواد فراہم کرنا ، نصابی اور حوالہ جاتی کتابوں کو تیار کرنا ہے۔ ’’تدریس نامہ‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ یہ اکادمی اپنے بنیادی مقاصد پر پوری طرح کاربند ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو بہتر ڈھنگ سے انجام دے رہی ہے۔ پروفیسر شہزاد انجم نے کہا کہ شیخ الجامعہ کی سرپرستی ہمیں حاصل ہے اور ان کی رہنمائی کی وجہ سے یہ سارے کام بہتر انداز میں ہوپارہے ہیں۔ واضح ہوکہ ’’تدریس نامہ‘‘کے اس شمارے میں غزل، نظم، قصیدہ ، مثنوی ، رباعی، داستان ، ناول، افسانہ، خاکہ، ڈرامااور مرثیے کی تدریس کے تعلق سے مضامین شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بچوں کی تربیت ، معلم کی شخصیت ، مہارتِ ترسیل و ابلاغ کے فروغ کا طریقۂ کار، زبان کی تدریس میں لغات کا کردار، اسکولی سطح پر زبان کی تدریس کے مسائل ، شعری متن کی تدریس، نثری متن کی تدریس ، غیر ملکی طلبا کو اردو زبان کی تدریس وغیرہ موضوعات پر ماہرینِ ادب و تعلیم کے مضامین بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ جن میں ڈاکٹر ذاکر حسین ، خواجہ غلام السیدین ، پروفیسرخالدمحمود، پروفیسر شہناز انجم، پروفیسر محمد نعمان خان، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی، پروفیسراحمد محفوظ، پروفیسرکوثر مظہری ، پروفیسر ابوبکر عباد، پروفیسرمولا بخش، ڈاکٹر واحد نظیر، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر حناآفریں، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر عبدالحی، ڈاکٹر جاوید حسن کے نام خصوصی طورپر قابلِ ذکر ہیں۔اس شمارے کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ اس میں تخلیق گوشہ کے تحت عتیق اللہ ، رفیعہ شبنم عابدی، شین کاف نظام، رئوف خیر، نعمان شوق، جمال اویسی کی نظمیں اور اظہر عنایتی ، شہپر رسول،شہاب الدین ثاقب، خورشید اکبر، عالم خورشید ، محبوب خاں اصغر، سرورساجد، احمد کمال حشمی، راشد جمال فاروقی ، عفت زریں، قطب سرشار، سلمیٰ شاہین، اشراق الاسلام ماہر، شاہد اختر، ہارون شامی ، معید رشیدی، جاوید نسیمی ، خان محمد رضوان ، سالم سلیم، معراج رعنا کی غزلیں اور خالد جاوید کا افسانہ ’’سائے‘‘ بھی شامل ہیں۔ اس شمارے کی تحسین پروگرام میں موجود پروفیسر سارہ بیگم ، پروفیسر محمد ابراہیم، پروفیسر وسیم احمد خان، پروفیسر عبدالحلیم ، پروفیسر سیمی ملہوترہ ، ڈاکٹر عبدالنصیب خان، جناب احمد عظیم اور دیگر حاضرین نے بھی کی۔ اس جلسے کی نظامت اکادمی کے استاد اور معروف شاعر واحد نظیر نے اپنے مخصوص انداز میں کی ۔ اخیر میں اکادمی کے ڈائرکٹر پروفیسر شہزادانجم نے وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر صاحبہ اور تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔