رجنیش کمار
عرب دنیا ایک کروڑ تین لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ کے رقبے پر مغرب میں مراکش اور شمال میں متحدہ عرب امارات تک پھیلی ہوئی ہے۔ ان علاقوں میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں کے لوگ نسلی طور پر عرب ہیں نہ ہی روانی سے عربی بولتے ہیں۔ لیکن عرب ثقافت کے اثرات کی وجہ سے ان کا شمارعرب دنیا میں ہوتا ہے۔عرب دنیا میں آبادی کو تین حصوں میں دیکھا جاتا ہے۔ پہلے شمالی افریقی، لیونٹائن عرب اور خلیجی عرب۔انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سنہ 2002 کے فسادات کے وقت مغربی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ گجرات فسادات کے بعد مودی کی شناخت مسلم مخالف رہنما کے طور پر کی گئی۔ اس تصویر نے انھیں بین الاقوامی سطح پر سرخیوں میں رکھا۔سنہ 2005 میں جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو امریکہ نے ان پر ’یو ایس انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم ایکٹ‘ 1998 کے تحت ویزا پابندی عائد کر دی تھی۔یہ پابندی امریکی ایجنسی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سفارش پر لگائی گئی تھی۔ اس کمیشن نے سنہ 2002 کے فسادات میں نریندر مودی کے کردار پر تنقید کی تھی۔ سنہ 2014 میں جب نریندر مودی وزیر اعظم بنے تو امریکہ نے یہ پابندی ہٹا دی۔تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل 18 نومبر 2022 کو بائیڈن انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں امریکہ میں کسی قانونی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔امریکی تحقیقاتی اداروں نے جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار سعودی عرب کے ولی عہد کو قرار دیا تھا۔ امریکہ نے سعودی ولی عہد کو اس معاملے میں چھوٹ دی تو صدر جو بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ان تنقیدوں کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ یہ فیصلہ قوائد کے تحت کیا گیا ہے اور انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی سنہ 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد اس معاملے میں چھوٹ دی گئی تھی۔گذشتہ سال 27 نومبر کو سعودی عرب کے شاہ سلمان نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو وزیراعظم بنانے کا اعلان کیا تھا۔متحدہ عرب امارات نے اپنے سب سے بڑے اعزاز آرڈر آف زاید سے نریندر مودی کو نوازا تھا۔سعودی عرب کے ولی عہد کو استثنیٰ دینے کے معاملے میں مودی کا حوالہ دینا انڈین وزارت خارجہ نے غیر ضروری اور غیر متعلقہ قرار دیا۔نریندر مودی سنہ 2014 کے بعد کئی بار امریکہ جا چکے ہیں اور 2016 میں انھوں نے امریکی کانگریس سے خطاب بھی کیا تھا۔دوسری جانب جو بائیڈن اپنی انتخابی مہم میں انسانی حقوق کے معاملے میں سعودی عرب کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی بات کرتے تھے لیکن ان کی حکومت ولی عہد کو قانونی تحفظ دینے پر مجبور ہوگئی۔گذشتہ سال جولائی میں بائیڈن نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا۔ بائیڈن سعودی عرب سے تیل کی پیداوار بڑھانے کا کہتے رہے لیکن ولی عہد نے ان کی ایک نہ سنی۔کیا اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات میں نریندر مودی کی ہندوتوا شبیہ آڑے آئی؟کیا سنہ 2002 کے فسادات کے بعد نریندر مودی کی مبینہ مسلم مخالف تصویر اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کی راہ میں حائل ہوئی؟گذشتہ ماہ گجرات میں اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں احمد آباد کے سرس پور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا تھا کہ ’2014 سے ہم نے اسلامی ممالک سعودی عرب، یو اے ای اور بحرین کے ساتھ دوستی کو مضبوط کیا ہے۔ یوگا کو سرکاری طور پر ان ممالک کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ابوظہبی اور بحرین میں انڈیا کے ہندوؤں کے لیے مندر بھی بنائے جا رہے ہیں۔نریندر مودی گذشتہ آٹھ سال سے انڈیا کے وزیر اعظم ہیں اور اس دوران انھوں نے خلیج کے مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔پچھلے آٹھ سالوں میں وزیر اعظم مودی نے چار بار متحدہ عرب امارات یعنی یواے ای کا دورہ کیا۔ پہلا دورہ اگست 2015 میں، دوسرا فروری 2018 میں اور تیسرا اگست 2019 میں ہوا۔وزیر اعظم مودی نے جون 2022 میں چوتھا دورہ کیا۔ جب مودی نے اگست 2015 میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تو یہ 34 سالوں میں کسی انڈین وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔ مودی سے پہلے اندرا گاندھی نے سنہ 1981 میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔پچھلے سال 28 جون کو جب نریندر مودی ابوظہبی کے ہوائی اڈے پر اترے تو متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان پہلے سے ہی ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کا وزیراعظم مودی کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر ہونا پروٹوکول کے خلاف تھا اور انھوں نے انڈین وزیراعظم کے لیے اسے توڑ دیا۔مودی کو ملنے والے اس قسم کے استقبال کا موضوع پاکستان میں بھی گرم رہا۔ انڈیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا تھا کہ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف مئی میں یو اے ای گئے تھے اور ایک جونیئر وزیر نے ان کا استقبال کیا تھا۔ عبدالباسط نے کہا تھا کہ انڈیا کی یہ ساکھ پریشان کن ہے۔نریندر مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی شیخ محمد بن زاید النہیان کے ساتھ غیر متوقع دوستی ہے۔ سنہ 2017 میں یوم جمہوریہ کے موقع پر مودی حکومت نے محمد بن زاید النہیان کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا تھا۔اس وقت محمد بن زاید النہیان متحدہ عرب امارات کے صدر نہیں تھے بلکہ ابوظہبی کے ولی عہد تھے۔ روایت کے مطابق انڈیا یوم جمہوریہ پر کسی ملک کے وزیر اعظم یا صدر کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرتا رہا ہے۔ لیکن النہیان سنہ 2017 میں یوم جمہوریہ پر مہمان خصوصی کے طور پر آئے تھے۔تھنک ٹینک کارنیگی انڈومنٹ سے ابوظہبی میں ایک مغربی ملک کے سابق سفیر نے کہا تھا کہ سعودی اور متحدہ عرب امارات دونوں ریاستوں کے شہزادوں کو انڈیا کے وزیر اعظم مودی کی عملی سیاست کی ذہنیت اور ایک مضبوط لیڈر کا انداز پسند ہے۔نریندر مودی نے سنہ 2016 اور 2019 میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ انھوں نے 2019 میں بحرین اور 2018 میں عمان، اردن، فلسطینی علاقے اور 2016 میں قطر کا دورہ کیا تھا۔وزیر اعظم مودی نے 2015 میں شیخ زاید گرینڈ مسجد اور 2018 میں عمان کی سلطان قابوس گرینڈ مسجد کا بھی دورہ کیا۔ نریندر مودی کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اپنے اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے بھی نوازا ہوا ہے۔تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ نے اگست 2019 میں ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’ابتدائی طور پرایسا لگتا تھا کہ نریندر مودی کا سیاسی پس منظر جزیرہ نما عرب کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کی راہ میں آڑے آئے گا کیونکہ مودی ہندو قوم پرستی کے زبردست حامی ہیں۔‘2002 کے گجرات فسادات کے بعد مودی کی بین الاقوامی شبیہ بھی متاثر ہوئی تھی۔ اس فساد میں سینکڑوں مسلمان مارے گئے تھے۔ لیکن متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب نے مودی کو اس نظر سے نہیں دیکھا۔’سیاسی اسلام میں سلامتی کے حوالے سے مودی کا نقطہ نظر دونوں ممالک کے حکمرانوں کے خیالات سے مطابقت رکھتا ہے۔ فروری 2019 میں، دلی میں ایک تقریب میں، سعودی عرب کے ولی عہد نے نریندر مودی کو اپنا ’بڑا بھائی‘ کہا تھا۔مشرق وسطیٰ کے ماہر اور تھنک ٹینک او آر ایف انڈیا کے ساتھی کبیر تنیجا لکھتے ہیں: ’2002 کے فسادات کے دوران دلی میں خلیجی ممالک کے سفارت خانوں نے انڈین وزارت خارجہ سے کوئی وضاحت طلب نہیں کی تھی۔ تاہم پاکستان اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی میں ان مسائل کو اٹھاتا رہا ہے۔‘لیکن یہ بحث اس وقت زیادہ شروع ہوئی جب امریکہ نے مودی پر ویزا پابندی لگا دی۔ سنہ 2014 میں جب نریندر مودی نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو خلیجی ممالک سے ردعمل بہت نرم تھا۔ خلیجی ممالک نے انڈیا میں اس طرح کی تبدیلی کا کھل کر خیرمقدم نہیں کیا۔ لیکن آہستہ آہستہ چیزیں بدل گئیں۔ مودی نان الائنمنٹ کی پالیسی پر قائم نہیں رہے۔پہلی خلیجی جنگ میں انڈیا کا موقف صدام حسین کی حمایت میں تھا۔ 2014 کے بعد مودی نے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہت موثر انداز میں بدل دیا۔کبیر تنیجا نے لکھا ہے کہ ’2014 میں محمد بن زاید ان عالمی رہنماؤں میں سے ایک تھے جنھوں نے مودی کو فون کیا اور انھیں مبارکباد دی۔‘فروری 2019 میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے انڈیا کا دورہ کیا۔ ولی عہد جب دلی کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو وزیراعظم نریندر مودی ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ وزیر اعظم مودی پروٹوکول توڑ کر ایئرپورٹ پہنچے۔ولی عہد اس وقت سعودی عرب کے وزیراعظم بھی نہیں بنے تھے۔ اس دورے کے دوران سعودی ولی عہد نے دلی کے ایوان صدر میں کہا تھا کہ ’ہم دونوں بھائی ہیں۔ وزیر اعظم مودی میرے بڑے بھائی ہیں۔ میں ان کا چھوٹا بھائی ہوں اور ان کی تعریف کرتا ہوں۔‘انھوں نے کہا ’جزیرہ نما عرب کے ساتھ انڈیا کا رشتہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ تاریخ لکھنے سے بھی پہلے۔ جزیرہ نما عرب اور ہند کا تعلق ہمارے ڈی این اے میں ہے۔‘انڈیا کے دورے پر آئے شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ’گذشتہ 70 سالوں سے انڈیا کے عوام دوست ہیں اور سعودی عرب کی تعمیر میں شراکت دار رہے ہیں۔‘کئی ماہرین کا خیال ہے کہ نریندر مودی کے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد خلیجی ممالک کے ساتھ انڈیا کے تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ نریندر مودی کی مبینہ طور پر مسلم مخالف شبیہ کو توڑنے کے لیے انھوں نے خلیجی ممالک پر خصوصی توجہ دی۔مئی 2022 کے مہینے کے آخر میں بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے پیغمبر اسلام کے بارے میں ایک متنازع تبصرہ کیا تھا اور جون شروع ہوتے ہی اسلامی ممالک سے شدید ردعمل آنا شروع ہو گیا تھا۔اسی وقت انڈیا کے اس وقت کے نائب صدر وینکیا نائیڈو قطر کے دورے پر گئے تھے۔ خبر آئی کہ قطر نے غصے میں وینکیا نائیڈو کے ساتھ ہونے والی سرکاری ضیافت منسوخ کر دی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے انڈیا کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔انیل تریگنیت لیبیا اور اردن میں انڈیا کے سفیر رہ چکے ہیں، وہ کہتے ہیں ’میں نہیں سمجھتا کہ عرب ممالک کے ساتھ انڈیا کے تعلقات اتنے کمزور ہیں کہ کچھ واقعات کا اتنا اثر پڑے گا۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بالکل درست ہے کہ اس حکومت نے عرب دنیا کو اپنی ترجیحات میں رکھا ہے۔ مودی حکومت میں عرب دنیا سے تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔ میں یقینی طور پر سمجھتا ہوں کہ انڈیا میں اسلامی ورثہ ہماری مشترکہ ثقافت کا حصہ ہے اور اسے عرب ممالک کے ساتھ دوستی کو مضبوط بنانے کے لیے زیادہ استعمال کیا جانا چاہیے۔‘انل تریگنایت کہتے ہیں کہ ’تقریباً 90 لاکھ انڈین خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں۔ ہندوستانیوں نے اپنی محنت اور ایمانداری سے ان ممالک میں اچھی ساکھ بنائی ہے۔ ہماری ملکی سیاست میں اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ ایسا کچھ نہ ہو جس سے ان کی محنت خراب ہو۔‘ان ممالک میں انڈیا کی بہت اچھی ساکھ ہے اور مودی حکومت نے بھی اسے مضبوط کرنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای نے بھی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا سب سے بڑا اعزاز دیا ہے۔خلیجی ممالک اور انڈیا کے درمیان تعاون میں گزشتہ چند برسوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ توانائی اور دفاعی معاملات میں انڈیا ان ممالک کے ساتھ کئی محاذ پر کام کر رہا ہے۔ابو ظہبی نیشنل آئل کمپنی یعنی اے ڈی این او سی نے 2018 میں سات برسوں کے معاہدے کے تحت انڈیا کے پٹرولیم ذخائر بھرنے کی زمہ داری لی تھی۔ اس کے تحت منگلور میں قائم ایک سٹوریج میں 50.860 لاکھ بیرل خام تیل بھرنا تھا۔اے ڈی این او سی اور سعودی عرب کی کمپنی آرامکو کا مہاراشٹرا میں 12 لاکھ بیرل کی ایک ریفائنری بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس میں 44 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ایران جیسے ممالک سے تیل کی درآمد پر امریکی پابندیوں کے پیش نظر یہ منصوبے کافی اہم ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے جوہری معاہدہ توڑتے ہوئے اس کے خلاف کئی بڑی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ان پابندیوں کے بعد انڈیا کو ایران سے تیل کی در آمد بند کرنی پڑی۔ سنہ 2018 میں انڈیا نے باضاطہ طور پر ایران سے تیل کی درآمد بند کر دی تھی۔ انڈیا میں در آمد ہونے والے کل تیل میں دس فیصد ایران سے آتا تھا۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ انڈیا کے دفاعی معاملات میں تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔ صدر محمد بن زاید کی سربراہی میں اسلامی دہشت گردی کے خلاف سختی برتی گئی ہے۔ انڈیا کو اسلامی دہشت گردی کے خلاف یو اے ائی سے کافی تعاون ملا ہے۔انڈیا نے پاکستان میں فضائی حملہ کیا، اور اپنے زیر انتظام کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیا۔ تب بھی خلیجی ریاستوں کے اسلامی ممالک کی جانب سے کوئی سخت رد عمل نہیں آیا۔ جبکہ تاریخی طور پر پاکستان کے گلف کارپوریشن کونسل کے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔1970 کی دہائی میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ انڈیا کی دو طرفہ تجارت 18 کروڑ ڈالرتھی لیکن آج یہ 73 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔2021-22 میں امریکہ اور چین کے بعد یو اے ائی انڈیا کا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر رہا۔ امریکہ کے بعد انڈیا سب سے زیادہ اشیاء کی برآمد متحدہ عرب امارات میں کرتا ہے۔2021 میں انڈیا یو اے ائی کا دوسرا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر تھا اور دونوں کے درمیان تیل کے علاوہ دیگر کاروبار 45 ارب ڈالر کا تھا۔2021-22 میں انڈیا نے یو اے ائی کو 28 ارب ڈالر کی اشیاء برآمد کی۔ دونوں ممالک کے درمیان 18 فروری 2022 کو ’کمپریہنسیو اکنامک پارٹنرشپ اگریمنٹ‘ ہوا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ کاروبار اور تجارت کو سو ارب ڈالر تک پہنچانا ہے۔انڈیا کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات تاریخی طور پر اچھے رہے ہیں۔ خلیجی ممالک میں تقریباً نوے لاکھ انڈین رہائش پذیر ہیں۔ یہ نوے لاکھ انڈینز وہاں سے کما کر ہر سال اربوں ڈالر انڈیا بھیجتے ہیں۔ 2019 میں ان افراد نے چالیس ارب ڈالر اپنے ملک بھیجے تھے۔ یہ رقم گذشتہ برس انڈیا کے ترسیلات زر کا 65 فیصد حصہ تھی۔انڈیا ایک تہائی تیل کی در آمد خلیجی ممالک سے کرتا ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کی گیس کی ضرورت پورا کرنے میں قطر کا سب سے اہم کردار ہے۔ گلف کوآپریشن کونسل یعنی جی سی سی کے کل چھ ممالک رکن ہیں جن میں سعودی عرب، کویت، عمان، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین شامل ہیں۔ 2021-2022 میں انڈیا کا جی سی سی ممالک کے ساتھ دو طرفہ کاروبار 154 ارب ڈالر کا تھا۔ یہ انڈیا کی کل برآمد کا 10.4 فیصد اور کل درآمد کا 18 فیصد حصہ ہے۔گذشتہ دو دہائیوں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ انڈیا کے تعلقات میں مضبوطی آئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں ممالک اس بات کے لیے تیار رہے ہیں کہ امریکہ کبھی بھی بیچ میں چھوڑ سکتا ہے اور پاکستان پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔2006 میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کے انڈیا دورے کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے اعتبار سے کافی اہم سمجھا جاتا ہے۔انِیل تریگونایل کہتے ہیں ’سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید النہیان کا خیال ہے کہ انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات ضروری ہیں۔ وہ انڈیا کی داخلی سیاست پرغور نہیں کرتے۔ ابراہم ایکارڈز کے بعد اسرائیل کی عرب دنیا میں بڑھتی قبولیت سے انڈیا کا وہ خوف بھی دور ہو گیا ہے کہ خلیجی ممالک بھڑک جائیں گے۔‘ انیل کے مطابق ’مودی انڈیا کے پہلے ایسے وزیر اعظم ہیں جنھوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ مودی نے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کیے لیکن ساتھ ہی اسرائیل کو نظر انداز نہیں کیا۔ مودی حکومت نے اسرائیل اور خلیجی ممالک کے ساتھ کئی سطح پر معاشی اور دفائی تعلقات کو آگے بڑھایا ہے۔ انڈیا، اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور امریکہ نے مل کر I2U2 اتحاد کو تشکیل دیا۔‘سعودی عرب سمیت کئی دیگر ممالک میں انڈیا کے سفیر رہ چکے تلمیز احمد کو لگتا ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود انڈیا کو ملک کے اندر کچھ حساس معاملوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں ’انڈیا میں کئی بار مسلم برادری کا مذہب کے نام پر استحصال یا اسلامی وراثت کو نقصان پہنچانے کی کوشش جیسے معاملے سامنے آتے ہیں۔ یہ ایک روایت رہی ہے کہ کسی بھی ملک کے داخلی امور میں دخل اندازی سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ لیکن جب بات پیغمبر اسلام پر آئے گی تو اسلامی ممالک خاموش نہیں رہیں گے۔ میں نے بیرون ممالک میں کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ اب بہت ہو گیا۔ آپ اپنے گھر میں ایک خاص برادری کے افراد کو ہدف بنائیں گے اور بیرون ممالک اخلاقیات پر بڑی بڑی باتیں کریں گے، ایسا زیادہ عرصے تک نہیں چلے گا۔‘انڈیا کے وزارت خارجہ نے بی جے پی کی ترجمان نوپر شرما کے متنازع بیان کے بعد کہا تھا کہ فسادیوں کے بیان کو انڈیا کا باضابطہ موقف نہیں سمجھا جانا چاہیے۔تلمیز احمد کہتے ہیں ’انڈیا کے لوگ جی سی سی ممالک سے جتنی ترسیلات زر بھیجتے ہیں، اس سے انڈیا کے سالانہ تیل کی در آمد کا ایک تہائی بِل ادا ہو جاتا ہے۔ انڈیا اگر گھریلو سیاست میں ان معاملات کو ٹھیک نہیں کرے گا تو اسے بڑا معاشی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انڈین اشیا کا بائیکاٹ ہونے لگے۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں انڈینز کو نوکریاں ملنے کے امکانات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔‘امریکہ، چین اور متحدہ عرب امارات کے بعد سعودی عرب انڈیا کا چوتھا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے۔ انڈیا سعودی عرب سے اپنی ضرورت کا 18 فیصد خام تیل اور 22 فیصد ایل پی جی درآمد کرتا ہے۔2021-22 میں سعودی عرب اور انڈیا کے درمیان 44.8 ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت ہوئی تھی۔ اس میں سعودی عرب نے انڈیا میں 34 ارب ڈالر کی اشیاء برآمد کی اور 8.76 ارب ڈالر کی درآمد۔ 2021-22 میں انڈیا کے کل کاروبار میں 4.14 حصہ داری سعودی عرب کی رہی۔