رضوان سلمانی
دیوبند، 12؍ جون،سماج نیوز سروس:لو جہاد کے ایک مسئلہ کو لے کر کرانتی سینا اور شیو سینا مشترکہ طو رپر اس بات کی جدوجہد کررہے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کی جانب سے اس کے خلاف فتویٰ جاری کیا جائے۔ اسی لئے ان تنظیموں نے گزشتہ دنوں اس بات کا انتباہ دیا تھا کہ وہ دارالعلوم دیوبند سے ان مسلم نوجوانوں کے خلاف فتویٰ لے کر آئیں گے جو اپنی کلائی پر کلاوہ باندھے پھرتے ہیں اور دوسرے فرقہ کی لڑکیوں کو مغالطہ میں لاکر مذہب تبدیل کرانے کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ اس مسئلہ کو لے کر ان شدت پسند تنظیموں نے 10جون کو دارالعلوم دیوبند آنے اور فتویٰ جاری کرانے کا انتباہ دیا تھا جس کے بعد ضلع مظفرنگر اور سہارنپور کی پولیس انتظامیہ اور خفیہ محکمہ بیدار ہوگیا تھا جس کے نتیجہ میں ان تنظیموں کے عہدیداران کو گھر پر ہی نظر بند کردیا گیا تھا ۔جب کہ دارالعلوم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فتویٰ جاری کرنا دفتر اہتمام کا کام نہیں بلکہ یہ اختیار دارالافتاء کا ہے۔ یاسی سلسہ میں تنظیموں کے ذمہ داران نے پولیس انتظامیہ پر دبائو بنانا شروع کردیا ہے ۔ اسی تناظر میں مسلم نوجوان ہاتھ پر کلاوہ کیوں پہنتے ہیں ، اس سلسلہ میں فتویٰ لینے کے لئے کرانتی سینا اور شیو سینا کے عہدیداران آج دیوبند پہنچے اور انہوں نے سی اوپولیس سے ملاقات کرکے دارالعلوم انتظامیہ سے فون پر بات کی ۔ کرانتی سینا کے عہدیداران کا الزام ہے کہ انہیں دارالعلوم دیوبند نے فتویٰ دینے سے انکار کردیا ہے ۔ انہوں نے انتباہ دیا کہ وہ اب مشترکہ طور سے دارالعلوم دیوبند کے خلاف تحریک چلائیں گے ۔ کرانتی سینا کے قومی نائب صدر یوگیندر سروہی اور شیو سینا کے نائب صدر ڈاکٹر یوگیندر شرما کی قیادت میں عہدیداران آج دوپہر دیوبند پہنچے اور سی او دیوبند رام کرن سے ان کے دفتر میں ملاقات کی ۔ سی او پولیس سے ملاقات کے بعد یوگیندر سروہی نے بتایا کہ مسلم نوجوانوں کے کلاوہ باندھنے کے سلسلہ میں انتظامیہ نے کرانتی سینا لیڈران کو ایک روز قبل نظر بند کردیا تھا ۔ انہوں نے اس معاملہ میں ایس ایس پی سے ملاقات کرکے ناراضگی ظاہر کی تھی جس کے بعد ایس ایس پی نے دیوبند سی او سے اس معاملہ میں مداخلت کرنے کو کہا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ سی او آفس نے ان کی بات بذریعہ فون دارالعلوم دیوبند کے ایک نمائندہ سے کرائی جنہوں نے اس معاملہ میں فتویٰ دینے سے انکار کردیا ۔ کرانتی سینا اور شیو سینا عہدیداران نے دارالعلوم انتظامیہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹی چھوٹی بات پر فتویٰ جاری کرنے والے لو جہاد پر فتویٰ دینے سے بچ رہے ہیں، جب کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند لو جہاد کے واقعات کی حمایت کرتا ہے ۔ انہوں نے انتباہ دیا کہ کرانتی سینا اور شیو سینا دارالعلوم دیوبند کے خلاف تحریک چلائے گی اور سی بی آئی جانچ کا مطالبہ رکھے گی ۔
اس دوران کرانتی سینا کے ریاستی جنرل سکریٹری منوج سینی ، شیوسینا کے سہارنپور منڈل صدر شرد کپور، مظفرنگر کے ضلع صدر مکیش تیاگی، کرانتی سینا کے سہارنپور ضلع صدر نیرج روہیلا، پردیپ سینی، پروین کمار وغیرہ موجود رہے۔ اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ فتویٰ دینے کا حق اور اختیار دارالافتا ء کو ہے ۔ دفتر اہتمام سے کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا جاتا، فتویٰ لینے دینے کا ایک طریقہ کار ہے ، پہلے ایک سوال نامہ (استفتاء ) دارالافتاء کو دیا جاتا ہے جس میں معاملہ کی پوری نوعیت درج کی جاتی ہے اور اس کی روشنی میں سوال قائم کیا جاتا ہے ۔ مفتیان کرام اس استفتاء پر اسلامی احکامات کی روشنی میں غور وخوض کرتے ہیں اور فتویٰ رقم کرتے ہیں ، اس طرح فتویٰ جاری کیا جاتاہے۔ فتویٰ دینے یا نہ دینے کے معاملہ میں بہت حد تک دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کا ایک بااختیار شعبہ ہے۔ البتہ کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی سوال پر مفتیان کرام اہتمام سے مشورہ کرنے کے بعد فتویٰ رقم کریں۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ مستفتی کو اپنے سے متعلق ہی فتویٰ حاصل کرنے کا حق ہے اور مفتیان کرام کو بھی مکمل یہ حق حاصل ہے کہ مستفتی کے سوالنامے پر اگر کوئی اشکال ہے یا سوال واضح نہیں ہے تو دارالافتاء کے ذریعہ وضاحت وصراحت طلب کرنے کے لئے مستفتی سے استفسار کرسکتے ہیں۔ جو لوگ دفتر اہتمام کے ذمہ داران سے مل کر ان سے فتویٰ حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ وہی ہوسکتے ہیں جن کو فتویٰ لینے دینے کا طریقہ کار معلوم نہ ہو۔ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کو ہر شخص اپنے مسائل بذریعہ ڈاک یا ای میل بھیج کر فتویٰ حاصل کرسکتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کے دروازے بلالحاظ مذہب وملت ہر شخص کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ دارالعلوم کی زیارت کرنے ہر شخص آسکتا ہے ، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں ، لیکن کسی مسئلے پر فتویٰ حاصل کرنے کے لئے دارالعلوم انتظامیہ سے ملاقات کرنے کے لئے آنا اس لئے غیر ضروری ہے کہ دفتر اہتمام فتویٰ جاری کرنے کا حق نہیں رکھتا۔