شعیب رضا فاطمی
یہ بات سچ ہے کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس کی کار کردگی مایوس کن رہی ہے ۔اس نے اپنی دو ریاستوں کا نقصان کیا ہے اور مدھیہ پردیش اور چھتیس گڈھ جیسی ریاست میں بھی بی جے پی سے اسے شکست ہوئی ہے ۔ایسے میں یہ قیاس آرائی فطری ہے کہ آنے والے 6ماہ میں بی جے پی کو شکست دینا آسان نہیں ہے ۔اور وہ بھی اس صورت حال میں اس اسمبلی انتخاب میں کسی بھی وزیر اعلی کے چہرے پر بی جے پی نے ریاستی سطح پر انتخاب نہیں لڑا تھا ،اور نہ ہی اس کے پاس کوئی ایسا ایجنڈا تھا جس پر عوام نے اسے ٹوٹ کر ووٹ دیا ۔
یعنی یہ کہنا کہ 2024میں بی جے پی کو کامل شکست ہوگی خیالی بات ہی ہوگی ،کیونکہ ان چھ ماہ میں کسی ایسی تبدیلی کا امکان بعید از قیاس ہے جس کو بی جے پی کی شکست کی بنیاد قرار دی جا سکے ،سوائے اس کے کہ حزب اختلاف پوری طرح متحد ہو کر بی جے پی کو ایک ایک سیٹ پر چیلنج پیش کرے ۔
یہ کہنا کہ کانگریس ملک کی سیاست سے پوری طرح بے دخل ہو جائیگی اور مستقبل میں بھی بی جے پی کی سیاست ہی پورے ملک کی سیاست کو اپنے ایجنڈے پر چلائیگی ایک ایماندارانہ بات نہیں ہوگی ،کیونکہ کشمیر سے کیرل تک اور آسام سے گجرات تک آج بھی کانگریسی نظریہ کی تائید کرنے والے لوگ موجود ہیں ۔
جنوبی ہندوستان میں بھلے ہی کانگریس پارٹی کے قبضہ میں کوئی بڑی ریاست نہ ہو لیکن اس علاقہ میں اقتدار میں موجود علاقائی پارٹیوں کا کانگریس سے کوئی بہت بڑا نظریاتی اختلاف نہیں ہے ۔اور جنوبی کیا شمالی ہندوستان میں بھی بی جے پی کے علاوہ اپوزیشن پارٹیاں یکانگریس سے ہی الگ ہو کر بنی ہیں اور ان کے اور کانگریس کے درمیان نظریاتی اختلاف نہیں ہے ۔یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ اس اطراف میں علاقائی پارٹیوں کے جو ووٹر ہیں وہ بھی یا تو کانگریس کے ووٹر ہیں یا پھر سماجک نیائے والی پارٹیوں کے ۔لہذا ان پر بی جے پی کا وہ اثر نہیں ہوگا لیکن ان کا جو ووٹ بکھرتا ہے اسی وجہ سے بی جے پی کامیاب ہو جاتی ہے ۔یہی وہ سوچ ہے جس نے انڈیا الائنس کو بنیاد فراہم کیا ہے ،اور اس سوچ میں تبدیلی کا بھی کوئی امکان نہیں اور نہ ہی اس نظریہ کی زمین اتنی کمزور ہے جس پر ایک سیکولر اقتدار کی عمارت نہ کھڑی کی جا سکے ۔
انڈیا الائنس کی سب سے بڑی کمزوری بھی کانگریس ہی ہے اور اس کی مظبوطی بھی کانگریس ہی ہے ۔اس کی کمزور کانگریس اس لئے ہے کہ جنوبی ہندوستان کی زیادہ تر علاقائی پارٹیوں کا تعلق ماضی میں کانگریس سے ہی رہا ہے اور وہ اس سے الگ بھی ہوئی ہیں تو اس کی وجہ کانگریس کے بنیادی نظریہ سے اختلاف کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذاتی پرخاش ،خاطر خواہ عہدہ نہ ملنے ،یا پھر ڈسپلنری ایکشن لینے کی وجہ سے ۔کانگریس کو سب سے بڑا سیاسی نقصان اس وقت ہوا جب راجیو گاندھی نے رام مندر پر برسوں سے پڑا تالہ اس لئے کھلوانے کا فیصلہ کیا کہ شاہ بانو معاملے میں طلاق کے کیس پر کانگریس نے ہندو تنظیموں کی ایک نہ سنتے ہوئے اسلامی شریعت کے معاملے میں کسی بھی مداخلت سے انکار کر دیا اور اس موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آر ایس ایس نے پورے ملک میں یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ کانگریس مسلمانوں کی ہی منہ بھرائی کرتی ہے اور ہندو ؤں کے جذبات سے کھلواڑ کرتی ہے ۔راجیو گاندھی کو اس پروپیگنڈے سے نمٹنے کا یہی آسان طریقہ نظر آیا کہ وہ اس وقت کی ہندوؤں کی سب سے بڑی تحریک رام مندر تحریک کی ہوا نکالنے کے لئے برسوں سے بند بابری مسجد کا تالہ کھلوا کر اس کے ایک حصے میں پوجا کی اجازت دے دیں ۔لیکن یہ کانگریس کے لئے نہایت مہلک ثابت ہوا کیونکہ شدت پسند ہندو تنظیموں نے جس کی سرپرستی آر ایس ایس کر رہاتھا نے پورے ملک میں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تالہ ہماری طاقت سے مرعوب ہو کر کھولا گیا ہے اور اب اس مسجد کے ڈھانچے کو اکھاڑ پھینکنا ہمارا مشن ہے ۔ظاہر ہے اس طرح اکثریتی آبادی کی ہمدردی ان تنظیموں سے ہوگئی اور فیکھتے ہی دیکھتے بی جے پی نے ان تمام ہندو شدت پسندوں کی سرپرستی شروع کر کے بابری مسجد کو مسمار کر کے اس جگہ پر رام مندر کی تعمیر کو اپنا نصب العین قرار دے دیا ۔اور اسی سیاسی موڑ پر کانگریس کا داؤ اس طرح الٹا پڑ گیا کہ اکثریتی طبقہ کانگریس کو شک کی نظر سے دیکھنے لگا اور مسلمانوں نے بھی کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کرنی شروع کر دی ۔ملک کی واحد قومی سیاسی پارٹی کانگریس کے کھاتے سے جب ایک ساتھ پورے ملک میں تقریبا بیس فیصد ووٹ نکلے تو اس کانتیجہ یہ ہوا کا بی جے پی کا گراف بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے بی جے پی ملک کی دوسری سب سے بڑی پارٹی بن گئی ۔ادھر کانگریس کے پالے سے مسلمانوں کو نکلتے ہوئے دیکھ کر علاقائی لیڈروں کے بھی پر نکل آئے اور وہ اپنی اپنی ریاستوں میں مسلمانوں کے ووٹ کو کانگریس سے الگ ہوتے ہی اچک لیا جس کے نتیجہ میں ملائم سنگھ یادو ،لالو یادو ،شرد پوار ،ممتا بنرجی ،فاروق عبداللہ مفتی محمد سعید جیسے لیڈر اور ان کی علاقائی پارٹیوں نے جنم لیا ۔جس نے پورے سیاسی منظر نامے کو پوری طرح بدل دیا ۔
انڈیا الائنس کی بنیاد اسی فکر کے زیر اثر رکھی گئی ہے کہ کانگریس اور بی جے پی سے یکساں دوری بنائے رکھنے والے مسلم ووٹر سمیت سیکولر سوچ رکھنے والے تقریبا ساٹھ فیصد ووٹوں کو انڈیا الائنس نے اگر سمیٹ لیا تو پھر نام نہاد راشریتا کا نعرہ لگانے والی بی جے پی سے مرکزی اقتدار کو چھنا جا سکتا ہے ۔لیکن اب وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ ملک کی واحد کمیونیٹی مسلم جس نے بی جے پی کی ہر انتخاب میں مخالفت کی ہے وہ کانگریس کی جانب مراجعت کر رہی ہے اور جس دن وہ پوری طرح کانگریس کے پالے میں چلی گئی اس دن نہ صرف بی جے پی بلکہ ان علاقائی پارٹیوں کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا جو مسلمانوں کے ووٹ کے بل پر مختلف ریاستوں میں ذاتی ہارٹیاں بنا کر ریاستوں میں حکومت چلا رہی ہیں ۔لیکن اب بی جے پی جس طرح ان علاقائی پارٹیوں کو نگلتی جا رہی ہے اس سے انہیں اپنے وجود پر بڑا خطرہ منڈلاتا نظر آنے لگا ہے جس سے نجات کی واحد صورت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ وہ کانگریس جیسی قومی پارٹی کے ساتھ مل کر بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کریں ۔
پانچ ریاستوں کے انتخاب کے نتیجوں کے بعد بھی وہ یہ دیکھ رہی ہیں کہ کانگریس کے ووٹر اس کے ساتھ ہیں اور آنے والے عام انتخاب میں اس میں اضافہ ہی ہوگا ۔
یعنی کل ملا کر 2024 کے عام انتخاب تک انڈیا الائنس کے ٹوٹنے یا بکھرنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔بغاوت کی جو آوازیں ابھی انڈیا الائنس کے اندر سے اٹھ بھی رہی ہیں وہ کانگریس سے بارگیننگ کی سیاست سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور بہت جلد یہ آوازیں بھی ختم ہو جائینگی ۔یہی امید کی جا رہی ہے لیکن کیا یہ اندازہ درست ہے ؟اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کریگا۔