صادق شروانی
نئی دہلی 15دسمبر،سماج نیوز سروس:جامعہ ملیہ اسلا میہ یونیورسیٹی ان دنوں آپسی انتشار کی وجہ سے سرخیوں میں ہے بتایا جاتا ہے کہ شعبہ نفسیات میں پی ایچ ڈی آرڈیننس کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ذرائع سے ملی خبر کے مطابق جامعہ کے شعبہ نفسیات میںایک طالبہ نے سال 2018 میںپی ایچ ڈی میں داخلہ لیا اور اسی سال اس نے سائیکالوجی میں ایم اے کرنے کے لیے اگنو میں داخلہ لے لیالیکن شعبہ میںاسے یہ سوچ کر کلیئر نہیں کیاگیاکہ اس کا پی ایچ ڈی داخلہ منسوخ ہو جائے گا کیونکہ پی ایچ ڈی آرڈیننس ایک ساتھ دو کورسز میں داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔کہاجارہاہے کہ داخلہ منسوخ ہوجانے کے خدشے سے ان تمام باتوں کو خفیہ رکھا گیا لیکن رواںسال جب اس سلسلے میں وزیر تعلیم، یو جی سی چیئرمین، جوائنٹ سکریٹری ایچ آر ڈی، وائس چانسلر اور رجسٹرار، ایچ او ڈی، آر اے سی ممبران کے پاس شکایت پہنچی تب معاملہ منظرعام پر آیا۔ذرائع بتاتے ہیں کہ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ متعلقہ شعبہ نفسیات کی سربراہ خودہی مذکورہ اسکالر کی گائیڈ بھی ہیں۔ان کے دستخط سے ہی یہاں سب کچھ ہوجائے گا اوران کا یہ سوچناسہی بھی رہااور پھر شعبہ امتحان میں تھیسیس جمع کر کے ایکزامنر کو بھیج بھی دیا گیا۔حالانکہ ایساکرنے کے لیے ایک مختلف طریقہ اختیار کرتے ہوئے آناًفاناً14 دسمبر کو اسکالرکاشعبہ میں انٹرویو بھی کرالیاگیا۔ماہرین بتاتے ہیںکہ طالبہ کو داخلہ دے کر پی ایچ ڈی آرڈیننس جنرل گائیڈ لائنز اور رجسٹریشن گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔اس پورے معاملے پرجامعہ کے ڈین پروفیسر محمد مسلم خان سے بات کی گئی تو انہوں نے کہاکہ یہ معاملہ سائیکالوجی سے متعلق ہے اس لئے آپ اس شعبے سے بات کریں۔جب سیماعلیم سے بات کی گئی کہ کیا رشیکا تبسم کا داخلہ پی ایچ ڈی آرڈیننس جنرل گائیڈ لائنز اور رجسٹریشن گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی نہیں ہے ،اس پرانہوںنے پہلے کہاکہ اس کاجواب ایڈمنسٹریشن دے گا۔انہوں نے مزیدبتایا کہ یہ2018کاداخلہ کیس ہے اس لئے اس وقت کے سپروائزرسے بات کریں،اس معاملے میںمیری کوئی ذمہ داری نہیںہے۔صدر شعبہ نفسیات سیما علیم نے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ داخلہ دینا یا خارج کرنے کا کام انتظامیہ کا ہے ۔ میں نے صدر شعبہ کی حیثیت سے اصول و ضوابط کے مد نظر کام کیا ہے ۔ انتظامیہ نے داخلہ دیا ہے ۔ اس پر آگے کام کیا گیا ہے ۔داخلہ دینا یا کینسل کرنا صدر شعبہ کا کام نہیں ہے ۔ا س کے لئے پوری کمیٹی ہوتی ہے ۔ کسی ایک کو فیصلہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے بلکہ آرڈینینس کے حساب سے کام ہوتا ہے اور آپ جس طالبہ کے بارے میں بات کررہے ہیں ، اس کا تو کل وائیوا بھی ہوچکا ہے ۔