چودھری آفتاب احمد
کافی انتظار کے بعد آخرکار گجرات اسمبلی کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوہی گیا ہے،یہ اعلان ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی ہونا تھا،ویسے دونوں ریاستوں کی رائے شماری کا کام ایک ساتھ ہی یعنی آٹھ دسمبر کو ہونا ہے،ایسا الیکشن کمیشن نے پریس کانفرنس کرکے کہا ہے ،سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رائے شماری ایک ساتھ ہی ہونی ہے تو پھر الیکشن کمیشن نے دونوںریاستوں کی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ایک ساتھ کیوں نہیں کیاتھا ؟
گجرات وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی داخلی ریاست ہے ،جبکہ ہماچل پردیش کو دیو بھومی یعنی مہادیو کی زمین کہا جاتا ہے ،ہماچل پردیش میں بھی گجرات کی طرح بی جے پی کی ہی حکومت ہے،گجرات ریاست کو جیتنا وزیراعظم نریندر مودی اوروزیر داخلہ امت شاہ کے لئے ہماچل پردیش سے بھی زیادہ ضروری ہے،حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ ہماچل پردیش ان کے لئے زیادہ اہم نہ ہو،بس فرق یہ ہے کہ گجرات ان کی داخلی ریاست ہے ،اگر یہ مودی اور شاہ گجرات کو ہار جاتے ہیں تو پھر ان کا قومی سیاست میں بنے رہنا مشکل ہو جائے گا، یا یوں کہیں کہ 2024کا لوک سبھا الیکشن جیتنا آسان نہ ہو گا ، کیونکہ گجرات کی ہار جیت 2024کے پارلیمانی انتخابات کے رخ کو طے کرے گی،وزیر اعظم نریندر مودی دوسری مرتبہ 2019میں ملک کے وزیر اعظم بنے تھے،پہلی مرتبہ جب وہ گجرات سے نکل کر قومی سیاست میں آئے تو 2014میں ملک کے وزیر اعظم بنے،وہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آ رایس ایس)کی سیاسی ونگ ہے کے لیڈر ہیں،اس پارٹی کا قومی سطح کی سیات میں علاقائی پارٹیوں کااپنا اتحاد بھی ہے،اس اتحاد کو این ڈی اے یعنی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کہتے ہیں،
گجرات اسمبلی الیکشن میںوزیر داخلہ امت شاہ کی عزت بھی داو¿ پر لگی ہوئی ہے،امت شاہ کو بی جے پی میں چانکیہ کہا جاتا ہے ،سمجھاجاتا ہے کہ وہ سیاست کے ماہر ہیں اور اسی لئے وہ وزیراعظم نریندر مودی کے قریب ہیں ،حالانکہ امت شاہ مہاراشٹر میں شیو سینا سے غچہ کھا گئے تھے،لیکن اس کا بدلہ انھوں نے بعدمیں شیو سینا کو توڑکر لے لیاتھا، انھوں نے یہاں ایک تیر سے دو شکار کئے تھے ،پہلا شیو سینا کو توڑا اور دوسرا وزیر اعظم عہدہ کے دعویدار کے طورپر ابھر رہے مہا راشٹر کے سابق وزیر اعلی دیوندر فڈنویس کو نائب وزیراعلی بنا کران کے قد کو چھوٹا کر دیا،اس طرح انھوں نے فڈنویس کو وزیر اعظم عہدہ تک جانے والے اپنے راستے سے ہٹا دیا، اب فڈنویس وزیر اعظم عہدہ کی دعویداری سے باہر ہو گئے ہیں،ایسا ہی کھیل امت شاہ نے یو پی میں بھی کھیلا، یہاں پر انھوں نے دو نائب وزرائے اعلی بنواکر یو پی کو تین زون میں تقسیم کردیا ،تینوں زون میں وزیر اعلی یوگی سمیت دونوں نائب وزرائے اعلی کو بھی ایک ایک زون کا انچارج بنا دیا،اس طرح یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک زون کا انچارج بنا کر ان کے قد کو بھی فڈنویس کے قد کی طرح انھوں نے چھوٹا کردیاہے،تاکہ یوگی کو وزیر اعظم عہدہ کی دعویداری سے روکا جا سکے،یوگی ہندو کمیونٹی میں وزیر اعظم عہدہ کے امیدوار کے طور پر پسند کئے جا رہے ہیں،پارٹی میں دوسرے نمبر کے لیڈر بنے امت شاہ کو ہندو¿ں کی یہ پسند پسند نہیں آرہی ہے،اسی لئے وہ انھیں یعنی یوگی آدتیہ ناتھ کو بھی راستہ سے ہٹانے میں لگے ہوئے ہیں،
امت شاہ پہلے بی جے پی کے قومی صدر تھے اور بعد میں ملک کے وزیر داخلہ بنائے گئے،ان کی قیادت میں بی جے پی نے 2019کے لوک سبھا الیکشن میں بہترین مظاہرہ کیا تھا،اس کے نتیجہ میں امت شاہ کو وزیر داخلہ کے منصب پر بیٹھایا گیا،حالانکہ یہ غلط تھا ،کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی بھی گجرات ریاست سے ہی آتے ہیں اس لئے وزیر داخلہ کسی دوسری ریاست سے ہونا چاہئے تھا،مگر یہ قانونی پہلو سے غلط بھی نہیںہے،ویسے بھی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی داخلی ریاست گجرات کو زیادہ ترجیح دی ہے ،انھوں نے اس ریاست یعنی گجرات سے اپنی کابینہ میں آٹھ کابینی وزیر بنائے ہیں،جو دوسری ریاستوں کے مقابلہ میں زیادہ ہیں،اگر دوسری ریاستوں کے ساتھ اسے مودی کی حق تلفی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا،
گجرات اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان میں تاخیرکی وجہ گجرات میں مودی اور امت شاہ کی پتلی حالت کو مانا جا رہا ہے،ان دونوں لیڈروں نے گجرات کی عوام میں اپنی مقبولیت کو گھٹتے ہوئے دیکھ لیا ہے،یہ دونوںلیڈر یہ بھی سمجھ گئے ہیں ،کہ اب گجرات کی عوام ان کی بجائے کسی دوسری یا تیسری پارٹی اور ان کے لیڈروں کو توجہ کی نظروں سے دیکھ رہی ہے،ویسے بھی گجرات میں 2002کے انتخابات کے بعد سے نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کا گراف نیچے کی طرف ہی گرا ہے،یعنی ہر انتخابات میں بی جے پی کی سیٹیں کم ہوئی ہیں ،گجرات میں مسلمانوں پر ہوئے حملوں کے بعد 2002میں بی جے پی کے پاس126سیٹیں تھیں جو 2017میں کم ہوتے ہوتے 99پر آگئیں،اس دوران کانگریس نے گجرات کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں وہاں کی عوام پر اپنی پکڑکو مسلسل مضبوط کیا ہے،البتہ شہری علاقوں میں آر ایس ایس کیڈر کے مضبوط ہونے کی وجہ سے کانگریس کمزور رہی ہے،اب شہری علاقوں میں عام آدمی پارٹی نے گھس کر بی جے پی کے سامنے مشکلیں کھڑی کردی ہیں،عام آدمی پارٹی کو بی جے پی کی بی ٹیم سمجھاجاتا ہے،کیونکہ اس پار ٹی کے کنوینر اور دہلی کے وزیراعلی اروند کجریوال مسلمانوں کے ساتھ ہورہی نا انصافیوں پر خاموش رہے ہیں،
گجرات میں اپنی ہار کے اندیشوں کے درمیان وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے قبل گجرات میں کئی نئے نئے پروجیکٹوں کی بنیادیں رکھی ہیں،تاکہ روٹھے ووٹرس کو منایا جا سکے،وزیراعظم گجرات میں کئی پروجیکٹوں کو مہاراشٹر سے بھی لے کر آئے ہیں ،تاکہ اسمبلی الیکشن میں گجراتیوں کو سمجھا سکیں کہ دیکھومیں تمہارے لئے پڑوسی ریاست کا حق بھی مار لایاہوں ،بس تم مجھے گجرات میں ایک مرتبہ پھر اسمبلی کا الیکشن جتوا دو،چاہے اس کے بدلے مجھے مہاراشٹر میں سیاسی طورپر نقصان ہی ہوجائے،ویسے بھی انھوں نے مہاراشٹر میں فڈنویس کے قد کو گھٹاکر بی جے پی کو کمزور ہی کیا ہے،بی جے پی کی حالت ہماچل پردیش میں بھی اچھی نہیں ہے ،وہاں پر سرکاری ملازم اپنی مانگوں کو لے کر مظاہرہ کررہے ہیں،بدعنوانی ،مہنگائی اور بے روزگاری نے اس پہاڑی ریاست میں حال برا کیا ہوا ہے،یہی حال گجرات کا بھی ہے،گجرات میں تو وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شا ہ کووزیر اعلی سمیت ریاست کی پوری کابینہ ہی بدلنی پڑگئی تھی،تب بھی گجرات کے بگڑے حالات راستہ پر نہیں آئے ہیں،رہی سہی کسر موربی میں پل کے گرنے سے ہوئی ہلاکتوں نے پوری کردی ہے۔