ممبئی :ایک کہانی، کئی کردار، کئی لوگوں کی محنت۔۔۔ تب ہی جا کر کوئی فلم تیار ہوتی ہے۔ ایسی فلمیں، جنھیں لاتعداد بار ’معاشرے کا آئینہ‘ کہا گیا ہے۔لیکن ماضی میں یہ آئینہ کتنا دھندلا یا صاف ہو چکا ہے؟اس آخری فلم کو یاد کریں، جسے دیکھ کر آپ نے مذاہب کے درمیان خلیج کو مٹھاس سے بھرتے یا تلخی پیدا کرتے دیکھا؟اس کہانی میں ہم سنہ 2022 میں ریلیز ہونے والی ان فلموں میں سے کچھ کے بارے میں بات کریں گے، جن کے کسی بھی سین یا فلم کے پس منظر میں مذہب تھا۔ایسے وقت میں جب گانے میں پہنے جانے والے کپڑوں کا رنگ مذہب کے ساتھ جڑا ہوا ہے تو ایسی فلموں کا ذکر کرنا ضروری ہے جن کی کہانی میں یا پس منظر میں مذہب ہو۔لیکن پہلے ماضی کی ان فلموں پر ایک نظر ڈالیں جن میں مذہبی ہم آہنگی بڑھانے اور موجودہ دور کی تلخیوں کو دکھانے کی کوشش کی گئی۔سنہ 1941 میں وی شانتارام کی فلم ’پڑوسی‘ ریلیز ہوئی۔ فلم کے پہلے ہی سین میں جب مرزا نماز پڑھنے آتا ہے تو اس وقت پنڈت ٹھاکر رامائن پڑھتے ہوئے اٹھتے ہیں۔مرزا پوچھتے ہیں: ’ٹھاکر کیوں اُٹھے، اب تمھیں رامائن پڑھنے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے؟‘ پنڈت نے جواب دیا: ’مجھے مزید پڑھنا چاہیے مگر آپ کی نماز قضا ہو جائے گی تو ایسے میں اپنے آپ کو ہی کوسوں گا۔‘اس منظر کی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ فلم میں پنڈت کا کردار مظہر خان نے ادا کیا تھا اور مرزا کا کردار گجانن جاگیردار نے ادا کیا تھا۔یہ اس دور کی فلم ہے، جب مذہب کی بنیاد پر پاکستان بنانے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔فلم کی کہانی یہ تھی کہ ڈیم بنانے کے لیے آئے ایک انجینیئر کے منصوبے کی وجہ سے کیسے دو ہندو مسلم دوست، دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ دشمنی تب ختم ہوتی ہے جب گاؤں کا نیا ڈیم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
سنہ 1946 میں پی ایل سنتوشی کی ’ہم ایک ہیں‘ بھی ایسی ہی ایک فلم ہے۔ فلم میں ادارکارہ درگا کھوٹے ایک زمیندار ماں کے کردار میں تین مختلف مذاہب کے بچوں کی پرورش کرتی ہیں۔یہ تینوں بچے اپنے اپنے مذاہب پر چلتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔ دیوآنند نے اپنے کیریئر کی شروعات فلم ’ہم ایک ہیں‘ سے کی تھی۔
سنہ 1959 میں فلم ‘دھول کا پھول کی کہانی میں ایک مسلمان شخص عبدل جنگل سے ملنے والے ایک بچے کی پرورش کرتے ہیں اور اس ’ناجائز‘ بچے کی وجہ سے وہ خود معاشرے سے بے دخل ہو جاتے ہیں۔ایک بچے کی پرورش کے دوران فلمائے گئے گانے میں عبدل کہتے ہیں: ’تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا، انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا۔۔۔‘ کیا آپ نے پچھلے کچھ برسوں میں اس طرح کا کوئی نیا گانا یا ڈائیلاگ سنا ہے؟
اس فہرست میں تین بھائیوں ’امر، اکبر، انتھونی‘ کی زندگی گزارنے کی کہانی بھی سکرین پر نظر آئی۔ہندو مسلم فسادات یا دونوں ممالک کی تقسیم کے دکھوں کو بیان کرتے ہوئے کئی اور فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ یہ فہرست بہت طویل ہو سکتی ہے۔ لیکن جن فلموں نے اپنا اثر چھوڑا وہ بہت کم ہیں۔بلراج ساہنی کی فلم ‘گرم ہواملک چھوڑنے کے درد کو بیان کرتی ہے۔ فلم کا مؤثر کلائمکس مذہب کی بنیاد پر ملک چھوڑنے سے زیادہ ضروری روزگار جیسی ضروریات کو ظاہر کرتا ہے۔ایسی ہی کچھ اور فلمیں ‘پِنجر، ‘ٹرین ٹو پاکستان اور ‘تمس ہیں۔
بابری مسجد کے انہدام کے بعد سنہ 2002 کے فسادات کے پس منظر پر بنی منی رتنم کی ‘بمبئی، ‘فراق، ‘دیو اور ‘پرزانیہ جیسی فلمیں بھی سامنے آئیں۔فلم ‘بمبئی کے کلائمکس میں انھیں ہاتھوں سے ہتھیار پھینک کر ہاتھ ہلانے پر مجبور کیا گیا، جس سے اجتماعی قتل ہوا۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سنیما سٹڈیز کی پروفیسر ایرا بھاسکر نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’بمبئی فلم کے آخر میں یہ خواہش ظاہر کی گئی تھی کہ دونوں برادریوں کے درمیان ہم آہنگی ہونی چاہیے۔‘ان کے مطابق ہندو مسلم مسئلہ محض چند ایسے مناظر سے ختم تو نہیں ہو جائے گا۔ مگر یہ ضرور ہے کہ اس کے بعد آپ کی سوچ بنتی ہے کہ حقیقت میں ایسا ہی ہونا چاہیے اور مل کر اتفاق سے ساتھ رہنا چاہیے۔ان فلموں میں اس دور کی حقیقت کو دکھانے کی کوشش کی گئی۔
فلم ‘سرفروش کے کردار انسپکٹر سلیم (مکیش رشی) کو اے سی پی اجے سنگھ راٹھور (عامر خان) سے کہنا پڑا کہ بچنے کے لیے 10 نہیں، 10 ہزار سلیم ملیں گے۔ اگر بھروسہ ہے تو پھر کبھی کسی سلیم کو یہ نہ کہنا کہ یہ ملک اس کا گھر نہیں ہے۔‘سنہ 2006 کی فلم ‘رنگ دے بسنتی میں لکشمن پانڈے (اتل کلکرنی) اور اسلم (کنال کپور) کا کردار ہندو مسلم کی دوری دکھا کر شروع ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ قربت میں بدل گیا۔
ایک ایسے وقت میں جب فلموں کی ریلیز پر بحران کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور مقدمات قائم ہونے کا خوف برقرار ہے۔
سنہ 2002 کے فسادات کے پس منظر والی فلم ’کائے پُو چھ‘ بھی اپنا اثر چھوڑنے میں کامیاب رہی۔ نفرت کی آگ کتنی جلتی ہے اور دماغ کو خود پسندی سے بھر دیتی ہے۔۔۔ فلم ‘کائے پو چھ کے کردار اس کی بہترین مثال ہیں۔خاص طور پر ایشان، جو ایک مسلمان بچے علی کو بچانے کی کوشش میں اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے اور آخر میں، جرم سے بھرا ہوا اومی۔ جس کے ٹپکتے ہوئے آنسو بتاتے ہیں کہ کبھی کبھی آنسو کے ایک قطرے سے سب سے بڑی آگ بجھائی جا سکتی ہے۔
سنہ 2012 کی ‘اوہ مائی گاڈاور متنازع ‘پی کے جیسی فلمیں ان لوگوں کو بھی بے نقاب کرتی ہیں جو مذہب پر یقین رکھنے والے لوگوں کے درمیان فاصلے پیدا کرتے ہیں۔پروفیسر ایرا نے حالیہ فلمی تنازعات پر کہا کہ ’کیا ہم ایران اور چین جیسا بننا چاہتے ہیں؟ جب انڈیا سنیما کے 100 سال میں ایسا نہیں ہوا تو اب ایسا کیوں ہو رہا ہے، سوچنا چاہیے۔‘
اب سوال یہ ہے کہ سنہ 2022 میں وہ کون سی فلمیں تھیں جن میں کہیں یا پس منظر میں مذہب موجود تھا اور ان کے ذریعے کیا پیغام دینے کی کوشش کی گئی یا سوشل میڈیا کے دور میں عوام میں کیا پیغام گیا؟
ایسی ہی کچھ فلموں پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔راجامولی کی فلم ‘RRR’ کے ایک سین میں این ٹی آر جونیئر اور رام چرن کے درمیان ایک مکالمہ ہے جس سے ‘باہوبلی ہٹ ہوئی۔اس منظر میں راجو (رام چرن) اپنے دوست اختر (این ٹی آر جونیئر) کے لیے میخیں لگا کر جینیفر کی کار کو روکتا ہے۔جیسے ہی اسے گاڑی کے رکنے یعنی ٹائر پنکچر ہونے کا علم ہوا، اختر کہتے ہیں: ‘اب میں اس کا پنکچر ٹھیک کروں گا، وہ کہے گی شکریہ اور پھرہماری بات چیت شروع ہو جائے گی۔اختر جینیفر سے بھی کہتا ہے: ‘میری دکان قریب ہی ہے، میں اسے پانچ منٹ میں ٹھیک کر دوں گا۔ اگر پورے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سین میں فلم کے صرف دو کرداروں کے ملاپ کے امکانات ہیں۔چونکہ آپ نے مسلمانوں کے پنکچر کے کام سے متعلق لاتعداد پیغامات یا تبصرے پڑھے ہوں گے، اس لیے لوگوں نے اس منظر کی مختلف تشریح کی۔
’بجرنگی بھائی جان‘ جیسی فلموں کی کہانی لکھنے والے راجامولی کے والد اور مصنف کے وی وجیندر پرساد نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا۔۔۔ کیونکہ گاندھی کی وجہ سے سردار پٹیل کی جگہ نہرو وزیر اعظم بنے اور کشمیر آج بھی جل رہا ہے۔‘سنہ 2022 میں کے وی وجیندر پرساد کو راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
کشمیر کے مناظر پر کئی فلمیں بنائی گئیں۔ جیسے- ‘روزہ، ‘حامد، ‘مشن کشمیر، ‘یہاں، ‘تہان، ‘حیدر، ‘شکارہ۔ لیکن دیگر فلموں کو ‘دی کشمیر فائلز جیسی کامیابی نہیں ملی۔
مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا یا یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ، جو اکثر فلموں یا گانوں سے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی شکایت کرتے ہیں، سبھی فلم ‘کشمیر فائلز کے لیے پرجوش اور آزاد خیال نظر آئے۔ فلم کو کئی ریاستوں میں ٹیکس سے استثنیٰ دے دیا گیا۔یہ فلم سنہ 1990 میں کشمیری پنڈت کی بے دخلی کے ایک سچے واقعے پر مبنی تھی۔ فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح کشمیری پنڈتوں کو راتوں رات وادی سے بے دخل ہونا پڑا۔انڈیا میں بڑی تعداد میں اس فلم کو پسند کیا گیا اور انھوں نے کہا کہ برسوں تک کشمیری پنڈتوں کی کہانی کو نظر انداز کیا گیا۔لیکن فلم کا پیغام کیا تھا؟ آپ اسے کئی طریقوں سے سمجھ سکتے ہیں۔کشمیری پنڈت سنجے کاک نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘دی کشمیر فائلز نے کہانی کو بالکل ویسا ہی بتایا جیسا کہ دائیں بازو کے حامی چاہتے تھے۔ ‘شکارہاپنے معیار پر پورا نہیں اتری اور اسی لیے تنقید کی زد میں آ گئی لیکن ‘کشمیر فائلزکے معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ پورا ایکو سسٹم اسے دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے لیے پرعزم ہے۔بنارس ہندو یونیورسٹی کے پروفیسر اور سنیما ماہر آشیش ترپاٹھی کہتے ہیں کہ ’یہ فلم اس لیے مقبول ہوئی کیونکہ اس سوچ کے لوگ سماج اور سیاست میں پروان چڑھے ہیں۔‘ان کے مطابق میڈیا دائیں بازو کے لیے بہت اچھا کام کر رہا ہے، سنیما اس کا ایک حصہ ہے۔ ایک پوری لابی ہے جو اس سوچ کے لیے کام کر رہی ہے۔ ‘کشمیر فائلز اسی سوچ کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ‘کشمیر فائلز کے کچھ مناظر آپ کو سکون دیتے ہیں۔ جو لوگ اس فلم کو ناپسند کرتے ہیں انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسا کسی اور کے ساتھ ہوا ہے۔لیکن ‘کشمیر فائلز ایک اچھا آرٹ یا فلم نہیں ہے کیونکہ یہ کہانی کو یک طرفہ انداز میں بیان کرتی ہے اور صرف یہی نہیں ہوا، اس کے خلاف اور بہت کچھ ہوا ہے۔ آرٹ کے کام ہمیں وہ انسانی پہلو دکھانا بھی ہے جو ہمیں آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو آپ ہمیشہ ماضی کی قید میں رہیں گے۔ایک پروپیگنڈا فلم ہمیشہ بُری فلم نہیں ہوتی۔ لیکن ‘کشمیر فائلز ایک بُری پروپیگنڈا فلم ہے کیونکہ یہ معاشرے میں پابند عناصر کو مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہے۔ یہ فلم کمزوروں پر حملہ آور ہوتی ہے۔
فلمیں مذہبی دوریاں ختم کرنے میں کتنا بڑا کردار ادا کر سکتی ہیں؟
اس سوال کے جواب میں پروفیسر ایرا نے کہا کہ فلمیں مذاہب کے درمیان خلا کو بڑھانے یا پر کرنے میں اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔ فلمیں سیاسی حل نہیں دے سکتیں، لیکن وہ ذہنیت کو بدل سکتی ہیں۔ان کے مطابق اگر ایسا نہیں ہے تو موجودہ حکومت فلموں میں اتنی سرمایہ کاری کیوں کر رہی ہے؟ سوشل میڈیا سے لے کر فلموں تک وہ اپنے نظریے کو پھیلا رہے ہیں۔پروفیسر ایرا کہتی ہیں کہ ہندی میں مرکزی دھارے کا سیاسی ماحول مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھرا ہوا ہے۔ ایسی فلمیں بنانا مشکل ہے جو فاصلے کم کرنے کا کام کرے۔اگر یہ فلمیں بنتی بھی ہیں تو انھیں کسی نہ کسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کئی بڑے اداکار وہی باتیں دہرا رہے ہیں جو اعلیٰ قیادت کہتی ہے۔ وہ خود کو اس سے الگ نہیں رکھ رہے ہیں۔ایک فنکار کے طور پر جب آپ کو اہم چیزوں کے بارے میں بات کرنی چاہیے تو آپ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔پروفیسر آشیش ترپاٹھی بھی کچھ ایسا ہی کہتے ہیں۔ ان کے مطابق ’اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ ویر حمید پر آج تک کوئی فلم نہیں بنی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا، جنھوں نے ایک سچے بیٹے کا فرض ادا کیا ہے۔ ان ہندوؤں کے بارے میں بھی بات نہیں کریں گے جنھوں نے غدار کا کردار ادا کیا۔‘’سنیما کی معاشیات نے انھیں بہت متاثر کیا ہے۔ فلم دیکھنے والوں کی بڑی تعداد متوسط طبقے کے ہندوؤں سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسے میں سنیما بھی اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جا رہا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’اب سیکولر سینما کم ہو گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ سماج اور سیاست میں سیاسی اور سماجی قوتیں کمزور ہوں گی، تب ہی وہ سینما بدلے گا۔ یہ ایک ایسا فن ہے جو سامعین کی دلچسپی سے ہی متاثر ہوتا ہے۔’مذہبی اختلافات اکثر فسادات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے میں ‘ماڈرن لو ممبئی’ سیریز کی کہانی ‘بائی’ میں فسادات سے بچانے اور مذہب کے ماننے والوں کے درمیان قربت بڑھانے کا طریقہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔کہانی کے ایک منظر میں جب گھر کی بوڑھی دادی فسادیوں کے لیے گیٹ کھولتی ہیں تو وہ واپس لوٹ جاتی ہیں۔ بعد میں جب بائی سے پوچھا گیا کہ انھوں نے فسادیوں سے کیا کہا؟ تو جواب ملتا ہے کہ ’پیسہ دیا گیا تھا۔ نفرت پھیلانے والے اکثر لوگ بازاری ہوتے ہیں۔ پیسے دیے، چھوڑ دیا۔