خان عطاء اللہ خان کے گھر 14/جنوری1936ء کو دہلی میں ایک بچی نے اس دنیا میں آنکھ کھولی ۔ اس بچی کا نام ممتاز جہاں بیگم رکھا گیا ۔ عطاء اللہ خان کی اولاد میں ۸بیٹیاں اور ۳ بیٹے تھے ۔ ان میں ۶بچے شروع میں انتقال کرگئے ۔ ۵ بچوں میں ممتاز بیگم دوسرے نمبرپر تھی ۔عطاء اللہ خان کا خاندان دہلی میں ایک پس ماندہ علاقہ میں رہائش پذیر تھا ۔غربت کے سبب بچیوں کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ نہیں دی جا سکی ۔ ممتاز جہاں بیگم کی تعلیم بھی مسجد سے مدرسے تک محدود رہی۔ ان ہی دنوں ممتاز جہاں بیگم کو ریڈیو سے نشر ہونے والے بچوں کے پروگرام میں شریک ہونے کا شوق ہوا ۔ باپ نے رہنمائی کرتے ہوئے اس کے اس شوق کو پورا کیا ۔ دراصل باپ بہت دور کا سوچ رہا تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلموں میں چائلڈ اسٹاروں کی بہت اہمیت تھی۔ ہیرو،ہیروئین کے بچوں کا کردار بیش تر فلموں کا لازمی جز سمجھا جاتا تھا۔ عطاء اللہ خان کچھ ہی عرصے کے بعد اپنے تمام گھرانے کے ساتھ دہلی سے بمبئی منتقل ہوگئے اور یہاں فلمی صنعت میں انہوں نے حصول کا میابی کے لئے اپنی کوششوں کا آغاز کیا۔
یہ غالباً ۱۹۴۲ء کی بات ہے جب بھاغ فلمی صنعت کے مشہور فلمساز ادارے بمبئی ٹاکیز کی فلم "نسبت”میں ہدایت کار فلم سازامیہ چکرورتی نے ممتاز جہاں بیگم کو چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے روشناس کرایا ۔ اس فلم نے زبردست کامیابی کی ۔ ممتاز شانتی اور الہاس کے ساتھ کم سن ممتاز جہاں بیگم کے کام کی تعریف بھی کی گئی چنانچہ اس بچی کو کیدار شرما نے اپنی فلم”ممتاز محل”میں لے لیا۔”بچاری”,”پھلواری”,”
بچوں کے کردار کرتے ہوئے ممتاز جہاں بیگم اپنے بچپن کو پیچھے چھوڑ آئی۔ کیدار شرما کی دور بین نکاہوں نے ممتاز جہاں بیگم میں مستقبل کی حسین اور عظیم اداکارہ کو دیکھ لیا تھا۔ یہ ۱۹۴۷ء کی بات ہے جب انہوں نے”نیل کمل”میں ممتاز جہاں بیگم کو ہیروئین کا ڈوپ دے کر اسے مدھوبالا بنادیا۔ اس فلم میں مدھوبالا کے مقابل کیدار شرما نے اپنے یونٹ میں ہدایت کاری کی تربیت حاصل کرنے والے ٹیکنیشین راج کپور کو ہیرو بنا دیا ۔ یہ فلم بڑی کامیابیوں تک رسائی حاصل نہ کر سکی تاہم مدھوبالا اور راج کپور کو فلمی صنعت میں متعارف کر نے کا ذریعہ بن گئی۔”میرے بھگوان”اور "چتوڑ وجئے”کے بعد مدھوبالا ایک بار پھر "امر جیوتغ”میں راج کپور کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ،لیکن نمایاں کامیابی سے وہ اب بھی دور تھی۔”پرائی آگ "کے بعد اسے پھر راج کپور کے ساتھ "امر پریم”میں کام کرنے کا موقع ملا ۔”امتحان”,”اپرارھی”,”دولت”اسے "محل”تک لے آئیں ۔ بمبئی ٹاکیز کے لئے کمال امرو ہوی کی "محل”نے اپنی کامیابی سے ایک تہلکہ مچادیا۔۔
مدھوبالا ملکوتی حسن اور اداکاری میں پراسراریت کا کمال،
اشوک کمار کی کردار نگاری اور دلآواز موسیقی وہ آج بھی "محل” کے حسن کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ "پارس”،”دلاری”،
"نیکی بدی” "سنگھار”،”سپنا” اور” بے قصور” اسے اور بھی کامیابیوں کی طرف لے آئیں۔ ” ہنستے آنا” ، ” نرالا”، "پردیس”، ” آرام”، "بادل”، "خزانہ”، "نادان”، "ساقی” اور”نازنین” مدھوبالا کے عروج کی ہم سفر بن گئیں۔ اب ہر سمت مدھوبالا کے چرچے ہونے لگے تھے اور سب ہی فلمی ستارے اس کی موجودگی میں گہن زدہ نظر آنے لگے۔ وہ ہر دل کی دھڑکن بن گئی۔ ان ہی دنوں رام دربانی نے”ترانہ”شروع کی۔ اس فلم میں مدھوبالا کے ساتھ پہلی بار دلیپ کمار کا سٹ ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب دلیپ کمار ہر نو جوان کے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا،اسے رومانس کا شہزادہ اور کنگ آف ٹریجڈی کہا جا رہا تھا، دنیاۓ فلم کے دو دلوں میں بسے رہنے والے اداکار”ترانہ”میں یکجا ہوۓ تو کہانی کی رومانیت اپنی اثر انگیزی کے ساتھ مدھوبالا اور دلیپ کمار کے لئے پیغام محبت کا وسیلہ بن گئی۔ ان کے درٹ ادا کۓ جانے والے مکالمے حقیقت کا روپ دھارنے لگے۔ یہ فلم جب منظر عام پر آئی تو وہ دل آویزی محبت کا ایک خوبصورت شاہکار بن کر فلم بینوں کی توجہ کا مرکز بن گئ۔ کے آصف جیسے ہدایت کار نے اس جذبہ محبت سے فائدہ اٹھانے کے لئے "مغل اعظم”بنانے کا اعلان کردیا۔ مدھوبالا اب انار کلی بن گئ۔ محبت کی ایک لازوال داستان کثیر سرمائے سے بنائی جانے والی یہ فلم دھیرے دھیرے بن رہی تھی ، لیکن ان کی محبتیں اس دھیرے پن سے بہت آگے نکل آئی تھیں ۔ ان ہی دنوں آر سی تلوار نے ان دونوں کو "سنگدل”میں یکجا کر دیا ۔ اس فلم کی فلمبندی تیز رفتاری سے کی جانے لگی ۔ اب عطاء اللہ خان بھی حالات سے واقف ہو چکے تھے ۔ ان کی دخل اندازی کے سبب کئ بار فلم کی فلمبندی التوا کا شکار ہو گئی۔ عطاء اللہ خان نہیں چاہتے تھے کہ اب مدھوبالا کسی فلم میں دلیپ کمار کے ساتھ کام کرے ۔ لیکن وہ محبوب خان جیسے عظیم ہدایت کار کو انکار نہ کرے پر مجبور ہوۓ۔ یوں یہ رومانی جوڑی "امر”تک آپہنچی ۔ محبوب خان نے عطاء اللہ خان کو یقین دلایا تھا کہ اس فلم کی کہانی میں دلیپ کمار کی محبت کا مرکزنمی کو بنایا جائے گا چنانچہ اس فلم میں دلیپ کمار اور مدھوبالا "ترانہ” اور "سنگ دل”کے رومانی حسن کو اس خوبی سے اجاگر نہ کر سکے۔ جب بی.آر.چوپڑا نے "نیا دور”شروع کی اس فلم کے مرکزی کرداروں کے لئے مدھوبالا اور دلیپ کمار کو لیا ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ان دونوں کا رومانس عروج پر تھا جبکہ عطاء اللہ خان نہیں چاہتے تھے کہ سونے کی چڑیا ان کے ہاتھ سے اُڑ جائے۔ ان کی جانب سے مدھوبالا پر آۓ دن نئ پابندیاں عائد کی جانے لگیں ۔ جس کا اثر "نیا دور”کی فلم بندی پر بھی پڑنے لگا ۔ اب دلیپ کمار اور مدھوبالا میں اختلاف رونما ہونے لگے ۔ ایک دن دونوں نے فیصلہ کرلیا کہ اب انہیں مزید انتظار کۓ شادی کر لینی چاہیے ۔ کہتے ہیں دلیپ کمار نے مدھوبالا کو انگوٹھی بھی پہنادی تھی ۔ اس نے مدھوبالا کے گھر اپنی بہنوں کو رشتہ طے کرنے کے لئے بھیجا تو وہاں صورت حال مختلف ہو گئ ۔ عطاء اللہ خان نے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ دلیپ کمار کی بہنوں کی توہین بھی کی ۔ دلیپ کمار یہ سب کچھ برداشت نہ کر سکا ،اس نے مدھوبالا سے قطع تعلق کر لیا اور حالات کی تلخیاں اس حد تک بڑھیں کہ بی.آر. چوپڑا نے "نیا دور” سے مدھوبالا کو الگ کر کے اس کی جگہ وجنتی مالا کو لے لیا ۔ عطاء اللہ خان نے دلیپ کمار کو نوردِ الزام ٹھہرایا اور اسے اپنی بے عزتی جانا ۔ جس کے سبب مدھوبالا کی ساکھ پر اثر پڑنے لگا ۔ انہوں نے بی.آر. چوپڑا کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ۔ اس مقدمے کی کاروائی کے دوران دلیپ کمار نے بھری عدالت میں مدھوبالا کو طمانچہ مار دیا ۔ یہاں سے ان کے رومانس کی بازگشت دنیا بھر میں پھیل گئی ۔
اس طرح دلیپ کمار نے مدھوبالا سے اپنے ہر تعلقات کو توڑ دیا تھا ۔ کہتے ہیں کہ مدھوبالا نے تجدید وفا کے لئے پریم ناتھ اور شمی کپور سے محبت کے ناٹک کھیلے ، لیکن وہ دلیپ کمار کو اپنی طرف مائل کرنے میں پھر بھی ناکام رہی ۔ ان ہی دنوں عطاء اللہ خان نے اپنا فلمساز ادارہ مدھوبالا پرائیویٹ لمیٹیڈ کے نام سے بنایا ۔ وہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت جمع کر لینے کی جستجو میں گرفتار تھے ، لیکن اب باپ بیٹی کے درمیان بات بات پر ٹھننے لگی تھی ۔ عطاء اللہ خان حالات کا بدلتا ہوا رخ دیکھ رہے تھے ۔ مدھوبالا اکثر بیمار رہنے لگی تھی ۔ کشور کمار جیسا تیسرے درجے کا اداکار مدھوبالا کی ہمدردیوں کے ناتے "ڈھاکا کی ململ” میں اس کے مقابل کام کر کے مدھوبالا کے قریب آچکا تھا ۔ وہ مدھوبالا کے پرستاروں میں تھا ۔ مدھوبالا کی خدمت کر کے اسے ایک سکون حاصل ہوتا تھا ۔ انہیں دنوں "مغل اعظم” کی فلم بندی کا سلسلہ بھی جاری تھا ، پھر بھی دلیپ کمار اور مدھوبالا ایک دوث سے چپ اور دور دور رہتے ۔ ان کے درمیان صرف کام کے سلسلے ہی میں بات چیت ہوا کرتی تھی ۔
مدھوبالا کی بیماری بڑھتی گئی ۔ جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا ہی گیا ۔ اس نے انتقام کشور کمار سے شادی کر لی ۔ باپ کو مجبور ہونا پڑا ۔ کشور کمار اسلام قبول کر نے کے بعد عبداللہ بن گیا اور دن رات مدھوبالا کی خدمت اور دل جوئی میں لگا رہا ۔ سولہ برسوں تک زیر تکمیل رہنے والی فلم "مغل اعظم ” ۱۹۶۰ء میں نمائش کے لئے پیش ہوئی ۔ اس تاریخ ساز فلم نے اپنی خوبیوں کی بدولت تہلکہ مچادیا ۔ اس فلم میں مدھوبالا انار کلی بن کر شہزادہ سلیم کی محبت میں دیوار سے چنوادی گئی ۔ یہی کچھ مدھٹ کے ساتھ بھی ہوا ۔ اس کی محبت چھین لی گئی ۔ اب حالات کچھ اور تھے ۔ مدھوبالا "مغل اعظم” دیکھنے کے لئے سنیما ہال گئی اور واپس گھر آکر وہ زار وقطار روئی ۔ اس کے بعد بیماری دل اس کا روگ بن گئ ۔ پھر اس نے اپنی چند فلمیں بمشکل مکمل کرائیں ۔ ان فلموں کے کئ مناظر میں اس نے بستر پر لیٹے ہوئے ہی مکالمے ادا کئے ۔ مدھوبالا تقریباً نو سال تک بیماری دل سے نبرد آزما رہی ۔ اس دوران وہ علاج کے لئے لندن بھی گئ ، لیکن وہاں سے بھی وہ مایوس لوٹی۔
مدھوبالا کو بیماری کے دوران بھی فلمیں دیکھنے کا شوق رہا ۔ اپنے انتقال سے ہفتہ بھر قبل وہ فلم "پڑوسن ” دیکھنے کے لئے گئ ۔ یہ فلم اس نے نیچے کی کلاس میں بیٹھ کر دیکھی کیونکہ وہ اوپر نہیں چڑھ سکتی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے برسوں سے سنیما گھر میں اوپر کی کلاس کی شکل نہیں دیکھی تھی ۔چلنے پھرنے اور اوپر چڑھنے سے وہ معذور ہوگئ تھی ۔ سنیما دیکھ کر جب وہ گھر لوٹی تو اس کے پیٹ میں شدید درد پیدا ہوا ۔ پھر وہ بخار میں مبتلا ہو گئی ۔ ڈاکٹروں نے یرقان تشخیص کی ۔ وہ جو برسوں سے تسبیح کے دانوں پر اللہ اللہ کیا کرتی تھی بے ہوشی میں چلی گئی ۔آخری دنوں میں اسے آکسیجن پر رکھا گیا ۔ آکسیجن سلنڈر لگنے کے باوجود بھی وہ اکھڑے اکھڑے سانس لے رہی تھی ۔ ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب اس نے کہا ۔۔۔۔۔۔ "اللہ مجھے بچا لیجئے ، میں ابھی مرنا نہیں چاہتی ۔” وہ آخری لمحوں میں بہت پر سکون نظر آرہی تھی ۔ اس نے موت کی آغوش میں جانے سے قبل کہا ۔۔۔۔۔۔”اب بازی ہاتھ سے نکل چکی ہے ، سب میرا قصور معاف کر دیں”اور اس کے لب بار بار کلمہ کا ورد کر رہے تھے ۔۔
۲۳/فروری ۱۹۴۹ء کو دنیائے فلم کی سحر انگیز ، ذہن اور عظیم اداکارہ منوں مٹی تلے میٹھی اور گہری نیند جا سوئی، جہاں خوابوں کا کوئی گزر نہیں ہوتا ہے۔ اس کے سفر آخرت میں اشوک کمار، سنیل دت، نرگس، ششی کپور، پریم ناتھ، کے آصف، کمال امروہوی اور اس کے ہزاٹ پر ستار اس کی یادوں میں گم تھے۔ ان میں دلیپ کمار شامل نہ تھا وہ مدد اس گیا ہوا تھا۔ اسے جب مدھوبالا کی وفات کی خبر ملی تو وہ اسی شب لوٹ آیا۔ وہ رات گئے اپنے آنسوؤں کا نذرانہ لئے مدھوبالا کی قبر پر پہنچا۔ وہ گھنٹوں اشکئ بار آنکھوں سے مرجھائے ہوئے پھولوں کو اپنی یادوں کے نہاں خانے میں سمیٹتا رہا۔۔
مدھوبالا نے اپنے فنی سفر میں تقریباً ساٹھ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان میں پچاس فلموں کی وہ ہیروئین۔ مدھوبالا کی بیش تر فلموں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ مدھوبالا کی آخری فلم”جوالا” اس کی موت کے دو سال بعد نمائش کے لئے ریلیز ہوئی۔
نثار احمد صدیقی