تل ابیب(ہ س)۔یہودی مذہب کے حوالے سے انتہائی کٹر خیالات رکھنے والی اسرائیلی جماعتوں نے ایک بار پھر انتباہ کیا ہے کہ نیتن یاہو کی مخلوط حکومت سے الگ ہونے جا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک کے ارکان پارلیمان نے استعفے بھی دے دیے ہیں۔ حکومتی اتحاد سے نکلنے کی وجہ مذہبی یہودی نوجوانوں کے لیے لازمی فوجی خدمات سے استثنا کا زیر التوا بل منظور نہ کیا جانا بتائی گئی ہے۔اسرائیل میں آباد کٹر یہودی آبادی مجموعی آبادی کے 13 فیصد کے قریب ہے۔ یہی وہ یہودی کمیونٹی ہے جس کی آبادی میں اضافہ سب دیگر اسرائیلیوں کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔ ان کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اپنے یہودی نظریات کی وجہ سے ان میں دوسرے مذاہب کے افراد کے لیے نرمی کم ہے اور اسرائیلیوں کو جنگ پر ابھارنے میں پیش پیش رہتے ہیں مگر اپنے نوجوانون کو جنگوں میں جھوکنے کو تیار نہیں ہوتے۔اب ان کا یہی مطالبہ نیتن یاہو کی حکومت سے راستہ جدا کرنے کا سبب بتایا گیا ہے۔یاد رہے ان آرتھوڈاکس اور کٹر مذہبی یہودی آبادی کو اسرائیل میں لازمی فوجی خدمات سے استثنا ملا رہا ہے۔ لیکن غزہ جنگ کے طویل اور سنگین تر چیلنج کی وجہ سے اسرائیلی عدالت نے ان کا یہ استثنا ختم کر دیا ہے۔ لیکن یہ حکمران اتحاد میں شامل انتہا پسند جماعتیں چاہتی ہیں کہ ان یشوا سٹوڈنٹس پر یہ لازمی فوجی بھرتی کی پابندی ختم کی جائے۔ان انتہا پسند جماعت یونائٹڈ تورہ جوڈزم کے سات ممبران پارلیمنٹ میں سے چھ ارکان پارلیمنٹ نے ایک خط لکھ کر اپنے استعفے پیش کر دیے ہیں۔ اس جماعت کے سربراہ نے ایک ماہ قبل استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان استعفوں کے بعد نیتن یاہو کو 120 کے ایوان میں حاصل 61 ارکان کی حمایت مزید کم ہو جائے گی۔تاہم ابھی نیتن یاہو کی دیگر انتہا پسند اتحادی جماعت شاس کے بارے میں یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ بھی حکومتی اتحاد سے نکل جائے گی یانہیں۔تاہم چھ ارکان کے مستعفی ہونے والی جماعت کے ترجمان نے تصدیق کر دی ہے کہ ان کے مستعفی ارکان حکومت چھوڑ رہے ہیں۔ان ناراض جماعتوں سے نیتن یاہو کی حکومت نے 2022 میں وعدہ کیا تھا کہ وہ یہودی انتہاپسند مذہبی سٹوڈنٹس کی تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے فوجی خدمات سے استثنا کا بل پارلیمنٹ میں پیش کر کے منظور کرائے گی مگر آج تک اس وعدے پر عمل نہیں کیا گیا ہے۔