شعیب رضا فاطمی
راجستھان ،چھتیس گڈھ اور مدھیہ پردیش میں شکست کے بعد کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ "نظریے کی جنگ’ جاری رہے گی۔ ہم عاجزی کے ساتھ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے مینڈیٹ کو قبول کرتے ہیں”
یقینا راہل گاندھی کو یہ جملہ ادا کرتے ہوئے کافی تکلیف ہوئی ہوگی لیکن یہ سیاست ہے اور اس میں شکست و فتح کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔
ان انتخابی نتائج کے بعد یہ بحث چل پڑی ہے کہ کیا ان انتخابات میں کانگریس کی حکمت عملی ناکام ہوئی ہے؟عام طور پر کہا یہی جارہا ہے لیکن اس کا جواب اتنا آسان نہیں ہے۔کیونکہ حکمت عملی بنانا ایک بات ہے اور اسے زمین پر اتارنا بالکل دوسری بات ۔کیونکہ حکمت عملی بنانے والی اتھارٹی ریاستی سربراہ کو حکمت عملی کا بلیو پرنٹ دیتی ہے اب اس نقشہ میں رنگ بھر کر ووٹر تک پہنچانے کا کام ریاستی ذمہ داروں کا فرض ہے چہ جائکہ وہ ریاستی سربراہ یہ سمجھے کہ وہ اس پورے کارواں کا ایک پہیہ ہے انجن نہیں ۔اور اسے انجن کی حرکت کے مطابق ہی حرکت کرنا ہے ۔یہاں مدھیہ پردیش کے کمل ناتھ ہوں ،چھتیس گڈھ کے رمن سنگھ ہوں یا راجستھان کے گہلوت ان سب کو یہ خوش فہمی ہو گئی تھی کہ ہم اپنی ریاست کے مالک کل خود ہیں اور کسی اور کے مشورے پر انتخاب کی حکمت عملی بنانا ان کی شان کے خلاف ہے ۔ جیسے جیسے نتائج کے غبار چھٹنے لگے ہیں ان ریاستوں کے کانگریسی ورکر یو ٹیوبر وغیرہ کے سامنے آکر اب یہ بات کہنے لگے ہیں کہ کانگریس کے اعلی کمان کے مشورے کو اندیکھا کر کے انتخاب میں کامیابی کے سہرا صرف اپنے سر پر سجانے کے چکر میں یہ شکست ہوئی ہے ۔جب کہ سچ یہ ہے کہ گاؤں گاؤں تک راہل گاندھی کی مقبولیت کے چرچے تھے اور عام لوگ مدھیہ پردیش میں تبدیلی کے خواہاں تھے لیکن وہاں تک نہ تو یہ لیڈر پہنچے اور نہ کوئی ایسا سسٹم ہی بنا سکے جو ان کانگریسی ووٹر کو سنبھال سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ دلت اور آدی واسی تک بی جے پی کی طرف لوٹ گئے ۔پانچ برس تک فری راشن کی گارنٹی نے بھی غریب لوگوں کو بی جے پی کو ووٹ کے لئے راغب کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ ایسے میں لوگ جب یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا راہول گاندھی اب اپنی حکمت عملی بدلیں گے؟
جبکہ سب کو معلوم ہے کہ راہل گاندھی نے اپنی حکمت عملی کے لئے اپنی چمچماتی جوانی کو سڑکوں کے لئے وقف کر دیا ہے ۔اب راہل گاندھی کوئی فلمی ہیرو تو ہیں نہیں کہ وہ ایسے سوال کرنے والوں کو یہ جواب دے سکیں کہ اپنی جوانی کے کئی قیمتی برس دے کر میں نے جو بیباکی اور سچ بولنے کی جرات حاصل کی ہے تم اس سے دستبردار ہونے کو کہہ رہے ہو ،اگر تمہاری ضد یہی ہے تو اپنا ووٹ اپنے پاس رکھو اور مجھے اپنے شفاف نظریہ کے ساتھ تنہا چھوڑ دو ۔لوک سبھا انتخابات میں اب چھ ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ ایسے میں انڈیا الائنس کی پارٹیاں بھی تذبذب کی شکار ہیں کیونکہ انہیں اقتدار سے کم پر کوئی سودا منظور نہیں ۔حالانکہ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ راہل گاندھی اب جس راہ پر چل پڑے ہیں اس راہ کی منزل اقتدار نہیں اس سے بھی بڑی چیز نظریہ ہے ۔اقتدار تو اس راہ میں چلنے پر مل ہی جائیگا ۔لیکن اس راہ پر چلنے کے لئے سب سے پہلے جس قربانی کی ضرورت ہے وہ انا کی قربانی ہے اور راہل گاندھی وہ قربانی دے چکے ہیں ۔کمال یہ بھی ہے کہ اس سچ کو نریندر مودی تو سمجھ چکے ہیں لیکن خود کو مودی مخالف کہنے والے ہی ابھی تک سمجھ نہیں پائے ہیں ۔نریندر مودی کا راہل گاندھی پر جارحانہ حملہ ان کی اس کھسیاہٹ کو ظاہر کرتا ہے کہ پورے ہندوستان کو جیت لینے کا عزم کرنے والے کے سامنے یہ معمولی سا نظر آنے والا شخص ہمالیہ بن کر کیوں کھڑا ہے ؟نریندر مودی کی جھنجھلاہٹ اس لئے بھی شدید ہو جاتی ہے کہ کانگریس پارٹی کو راہل گاندھی نے نئی زندگی دے دی ہے ۔ اقتدار میں دس سال رہنے کے بعد ،تمام ایجنسیوں کو اپنے اشارے پر نچانے والے نریندر مودی جب بھی انتخابی نتائج کے ووٹ شئیر کو دیکھتے ہیں تو ان کی جبین شکن آلود ہوجاتی ہے کہ وہ راہل گاندھی کی حق گوئی کے آگے کتنے بونے ہیں ۔ ان دنوں راہل گاندھی کو نیک مشورہ دینے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔وہ انہیں مودی جی کے خلاف کچھ بولنے سے منع کر رہے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ
وہ مسلسل وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں اچھی اور بری باتیں کہتے رہتے ہیں، انہیں اسے روکنا ہوگا۔
راہل گاندھی کو سمجھنا ہوگا کہ وہ پی ایم مودی کے بارے میں برا بھلا کہہ کر آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ ان مشورہ بازوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ‘رافیل’، ‘چوکیدار’ جیسے مسائل اٹھا کر نقصان اٹھایا ہے۔ ساتھ ہی بی جے پی نے ان مواقع سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایسے میں راہل گاندھی کو جلد از جلد اپنی حکمت عملی بدلنی چاہیے، ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
یعنی راہل بھی پرمود کرشنم کی طرح مودی جی کی شان میں قصیدے پڑھنا شروع کر دیں ۔راہل گاندھی پر یہ بھی الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ شمالی اور جنوبی ہندوستان میں بہت فرق کرتے ہیں۔حالانکہ سب جانتے ہیں کہ راہل گاندھی کیرالہ کے وائناڈ سے رکن پارلیمنٹ ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی ریاست کی تعریف کریں۔ لیکن اب اس کا کیا علاج ہے کہ اس سے بھی شمالی ہندی پٹی کی آستھا کو ٹھیس لگتا ہے ۔اور جب کوئی جنوبی ہندوستان کی تعریف کرتا ہے تو ان جیسے مشیروں اور راجہ سمیت ان کے وزیروں کو یہ لگتا ہے کہ راہل گاندھی شمالی ہندوستان کی ریاستوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان کوڑھ مغز مشیروں کو ابھی تک یہ اندازہ ہی نہیں ہو پایا ہے کہ کانگریس کی پالیسیاں کیا ہیں اور یہ پالیسیاں عام لوگوں کی زندگیوں میں کیسے تبدیلی لا سکتی ہیں؟ یہ لوگ تو یہانتک کہنے لگے ہیں کہ ذات پات کی مردم شماری پورے ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔ راہل گاندھی نے پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے دوران اس مسئلہ کو زور سے اٹھایا لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔بی جے پی کی طرح یہ مشورہ دینے والے بھی کانگریس اور راہول گاندھی کو پرو ڈیولپمنٹ اور این جی او پالیسی دوست بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ وہ انہیں سرزنش کر رہے ہیں کہ راہل گاندھی کو سمجھنا ہوگا کہ انتخابات سوشل میڈیا پر نہیں، زمین پر ہوتے ہیں۔
شاید ایسے ہی کسی موقع کے لئے مشہور کہاوت ہے کہ ستر چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ۔
یعنی راہل گاندھی کو اب زمین پر اترنے کی ضرورت ہے ۔نریندر مودی کو نہیں جنہوں نے دس سالوں سے ایک پریس کانفرنس نہ کیا ہو ،جو ووٹ بلاک سطح کی سیاست کے بل پر نہیں بلکہ ملک کے اسی فیصد لوگوں کو پانچ کیلو مفت اناج دے کر ووٹ لیتا ہو ،جس کے دور اقتدار میں پورے مین اسٹریم میڈیا کونگودی میڈیا کہا جاتا ہو ،جس سرکار پر یہ الزام ہو کہ وہ بولنے کی آزادی دینے کی مخالف ہے ،جس سرکار پر تمام سرکاری اداروں کو پارٹی کے پرچار کا آفس بنا دیا گیا ہو،جس سرکار میں ہر کالج اور ہر یونیورسٹی کو یہ حکم دیا جائے کہ وہ سرکاری خرچ سے ایک ایسا سیلفی پوائنٹ بنائیں جس کے بیک ڈراپ پر مودی کی تصویر ہو ،جس دور میں پہلوان لڑکیوں کا ریپ وزیر کرے اور اس پر کوئی کارروائی نہ ہو جس کی سرکار میں کسانوں کی بھیڑ کو گاڑی سے کچلنے والا وزیر کا فرزند ہو ۔لیکن اس دور میں جب سر پر کفن باندھ کر کوئی شخص اس سرکار کو ان مظالم کا ذمہ دار قرار دے تو اسے یہ کہہ کر ڈرایا جائے کہ اس سے اسے ووٹ نہیں ملنے والا تو پھر بھلا اس ملک کا مستقبل کیسے تابناک ہوگا؟ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے ۔
ReplyForward |