شعیب رضا فاطمی
ابھی تو مودی جی کی جئے جئے ہی ہے ۔پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج کے بعد تین ریاستوں میں جیت کا پھریرہ لہرانے کے بعد یہ کہنا کہ مودی ہیں تو ممکن ہے خلاف واقعہ ہرگز نہیں ہو سکتا ۔اور اب جب ان تینوں ریاستوں کے کماندار کا انتخاب انہوں نے کیا ہے اس انتخاب پر تو قربان ہو جانے کو جی چاہتا ہے ،کہ کس خوبصورتی سے موصوف نے اپنی پارٹی کے تمام خود ساختہ سینئیر لیڈروں کو یہ بھی جتا دیا کہ اپنے کارناموں پر زیادہ اترانے کی ہر گز ضرورت نہیں کیونکہ دہلی کی نظر سب پر ہے ،انہوں نے اس کی مثال بھی ان تین ریاستوں میں پیش کر دی کہ ماما کو ان کی بہنوں اور بھانجے بھانجیوں سے الگ کرنا ہمیں آتا ہے ۔اور یہ پیغام زیادہ اچھل کود کرنے والے ہر بی جے پی نیتا کے لئے ہے ،اب اس پیغام کی سطروں کے اندر موجود پیغام کو جو نہ پڑھے اور پھر بھی اگلی صف میں بیٹھ کر اگر یہ جتاتا رہے کہ اس نے عوامی سطح پر اپنی ایک پہچان بنائی ہے تو اسے شیو راج سنگھ کی طرح پھپھک پھپھک کر رونے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے ۔کہا تو یہی جارہا ہے کہ تین ریاستوں میں بے جڑ کے پودوں کو ان کی حیثیت سے بڑے عہدے پر بٹھانے کے بعد اب بابائے سیاست کی نظر اتر پردیش پر ہے اور وہ 2024کے عام انتخاب سے قبل بلڈوزر بابا کو بھی کسی گیرج میں پنہچانے کا انتظام کر چکا ہے بس اعلان باقی ہے ۔اب سیاسی مبصرین اس پر تبصرہ کرتے رہیں کہ مودی جی کے ذریعہ ان نو آموز سیاستدانوں کو اتنی اہم ریاستوں کی ذمہ داری دے کر اچھا کیا گیا ہے یا برا ،لیکن یہ تو کہنا ہی ہوگا کہ یہ قدم اٹھانا ان کی شخصیت اور فطرت دونوں کے لئے ناگزیر تھا ۔کون نہیں جانتا کہ نریندر مودی نام ہے ایک ایسے خود ساختہ لیڈر کا جس کی خواہشات کا سلسلہ لامتناہی ہے ،اور جو کسی کو بھی اپنا شریک کار نہیں بنا سکتا ۔”ہر ہر مودی گھر گھر مودی "کے نعرے گڑھ کر اسے اپنے پارٹی ورکروں کو ورد کرنے کے لئے مجبور کرنا جس فطرت کی غماض ہے اس سے جمہوری اقدار کی پاسداری کیسے ممکن ہے جہاں پارٹی اہم ہے شخص نہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دنیا میں ایسی فطرت کے کسی شخص نے عروج حاصل کی ہے جس کی نظر میں وہ خود تمام غلطیوں سے مبرا ہو اور ساری دنیا غلطیوں کی آماجگاہ تو پھر ایسا شخص غیر معمولی ہوتا ہے اور تاریخ میں اپنا نام ضرور درج کرواتا ہے ۔ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم آج ایک ایسے شخص کے دور کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو مرکز ی حکومت میں بیٹھ کر جمہوری حکومت چلانے کے سارے اصولوں کو مسلسل پامال کرتا جا رہا ہے ۔اس کے سامنے کسی ریاستی سربراہ کی اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں کہ وہ اس کے ہرفرمان پر دستخط ثبت کرتا چلا جائے ۔اسے یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی کہ کوئی یہ بھی کہے کہ بی جے پی کی قوت ہی اس کی قوت ہے کیونکہ اس سے اس کی انا کو ٹھیس لگتی ہے ۔یہ اس کا معمولی کارنامہ نہیں کہ دس برس تک بھارت جیسے ملک میں وزیر اعظم رہنے کے بعد اس نے ایک بار بھی عام پریس کانفرنس نہیں کیا اور نہ کسی کو اجازت دی کہ کوئی اس سے براہ راست سوال کر سکے ۔اور پھر بھی وہ ہر انتخاب میں صرف اپنی مقبولیت کے دم پر بہتر نتائج درج کراتا رہا ۔ایک ایسا سربراہ آزادی کے بعد کم از کم بھارت میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا جس نے ملک میں احتجاج کی روایت کو نیست و نابود کر دیا ۔کسانوں کی تحریک وہ آخری تحریک تھی جس کے دوران کم از کم ساڑھے سات سو کسانوں کی جان گئی لیکن اب وہ تحریک بھی ایک ناکام تحریک میں شامل ہے ،اور اتنی جانی قربانی فے کر بھی اس تحریک نے کچھ حاصل نہیں کیا ۔پھر بھی اس سربراہ کے بھکتوں کی آواز مدھم نہیں ہوئی ۔یقینا یہ کمال ہے اس علاقہ کے عوام کا بھی جسے گوبر پٹی "کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک ایسے سربراہ سے اپنی عقیدت کا حق ادا کر دیا جسے اپنے علاوہ اس دنیا کا ہر شخص بونا نظر آتا ہے ۔تین ریاستوں میں وزیر اعلی کے عہدوں پر اس نے تین مہروں کو بٹھا کر نہ صرف ان کی تمام وفاداریاں خرید لی ہیں بلکہ آر ایس کے اس رنڈی رونے پر بھی بریک لگا دیا ہے کہ بی جے پی میں دوسری لائن کی قیادت جنم نہیں لے پارہی ہے ۔اب ناگپور ان نو آموز سیاست دانوں کی ایک بار پھر نئے سرے سے تربیت کرے ،ممکن ہے وہ سب شاکھاؤں کی تعلیم کو مودی بھکتی کے نصاب کو یاد کرنے میں بھول گئے ہوں ۔