اسلام قرآن وحدیث کا نام ہے۔ قرآن کریم کی وہ تفسیر وتشریح جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مستند طریقے سے سامنے آئے وہی تفسیر وتشریح قابل قبول ہے اور نصوص قرآن وسنت کو سمجھنے کا وہی طریقہ سب سے معتبر طریقہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام، ان کے شاگرد تابعین عظام اور ان کے شاگرد تبع تابعین کا طریقہ ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اور فرمایا کہ سب سیبہتر زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر میرے بعد والوں اور پھر ان کے بعد والوں کا۔
”ہم اصل دین پر جمع کیوں نہیں ہوتے ” کے زیر عنوان ممتاز میر صاحب کا گیسٹ کالم مطبوعہ ہمارا سماج مورخہ 14 جنوری 2024 پڑھنے کو ملا۔ محسوس ہوتا ہے کہ موصوف نے مسئلے کو اس سنجیدگی سے نہیں دیکھا مضمون جس سنجیدگی کا متقاضی ہے۔انہیں دیوبندیوں اور بریلیوں سے شکایت ہے کہ وہ تقلید کے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں اور اس معاملے میں اس حد تک جا چکے ہیں کہ اب اپنے بزرگوں کی بھی نہیں مانتے۔انہوں نے بجا طور پر شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی اور مولانا انظر شاہ کشمیری کے واقعات بیان کیے ہیں اور دیوبند جانے پر مولانا توقیر رضا خان کو جو مخالفت کا سامنا ہوا، اس کا ذکر کیا ہے۔لیکن ان تمام باتوں میں وہ بھول گئے ہیں کہ وہ خود بھی اسی غلطی میں پڑے ہوئے ہیں جس میں وہ لوگ پڑے ہوئے ہیں جن سے انہیں شکایت ہے۔
اپنی پوری تحریر میں انہوں نے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی تعریف کی ہے اور یہ باور کرانا چاہا ہے کہ در اصل مولانا مودودی اور جماعت اسلامی ہی نے لوگوں کو اصل دین پر جمع ہونے کی دعوت دی اور کسی مسلکی تنگنائے کو جگہ نہیں دی، جب کہ سچائی اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ اب جماعت اسلامی خود ایک خاص مسلک کا درجہ رکھتی ہے۔
مولانا مودودی نے تشریح دین کا کام کیا تو یہ امت کے علماء کی ذمہ داری تھی کہ ان کے کام کو قرآن وسنت کے نصوص اور فہم سلف کی میزان پر رکھ کر پرکھیں اور دیکھیں کہ وہ صحیح بھی ہیں یا نہیں۔ خلافت وملوکیت، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، خطبات اور تفہیمات میں جہاں جہاں خرابیاں نظر آئیں انہوں نے ان خرابیوں کو بیان کیا اور اسے اپنی دینی ذمہ داری سمجھی۔جماعت اسلامی کے منسلک ہمارے اخوان کی یہ شکایت ناروا ہے کہ علماء نے مولانا مودودی اور ان کی تحریروں کو سنجیدگی سینہیں لیا۔
مولانا مودودی نے جب تحریک شروع کی، 1941 میں جماعت اسلامی بنائی تو ان کا ساتھ دینے والے بڑے بڑیعلماء تھے۔ ان میں مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا منظور نعمانی، مولانا وحید الدین خان، مولانا عبد الغفار حسن، مولانا امین احسن اصلاحی اور دوسرے بڑے بزرگ شامل تھے اور سب کو یہی لگ رہا تھا کہ اس پلیٹ فارم سے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت ہوسکے گی۔کمال کی بات یہ ہے کہ جن بزرگوں نے مولانا مودودی کا ساتھ دیا تھا رفتہ رفتہ وہ بزرگ جیسے جیسے مولانا مودودی کے افکار و تشریحات کی کمزوری کھلتی گئی،ان سیالگ ہوتے گئیاور الگ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اختلاف کو لکھ کر ملت کے سامنے پیش بھی کیا۔ مولانا منظور نعمانی نے باضابطہ کتاب لکھی ” مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگذشت”، مولانا ابوالحسن علی ندوی نے ”ارکان اربعہ ” لکھ کر چار بنیادی اصطلاحوں کی حقیقت بیان کی اور ”عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح” کے ذریعہ انہوں نے اسلام کی سیاسی تفسیر کی حقیقت واضح کی، مولانا وحید الدین خان نے ” تعبیر کی غلطی ” لکھ کر بہت ہی تفصیل سے واضح کیا کہ مولانا مودودی سیتشریح دین کے معاملے میں کہاں کہاں غلطی ہوئی ہے۔اتنا ہی نہیں مودودی صاحب کی کتاب” خلافت وملوکیت” کے رد میں مولانا صلاح الدین یوسف صاحب نے ” خلافت وملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت ” لکھی اور دلائل کی روشنی میں مولانا مودودی کے موقف کی تغلیط کی۔ احادیث کے باریمیں ان سے جہاں جہاں چوک ہوئی اس کا علمائے اہل حدیث نے نوٹس لیا۔ مولانا ثنائاللہ امرتسری، مولانا اسماعیل سلفی گوجرانوالہ اور مولانا داؤد راز وغیرہ نے دلائل سے ان کے موقف کی کمزوری واضح کی۔
یوں یہ شکایت بے جا ہے کہ ملت کے علماء نے مولانا مودوی صاحب کی تحریروں پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا، غور بھی کیا، اس کا ضعف بھی واضح کیا اور جماعت اسلامی کے وابستگان کے سامنے یہ راہ بھی کھولی کہ وہ مولانا مودودی کی اندھی تقلید سے باہر آئیں لیکن انہوں نے بھی وہی روش اختیار کی جو عام طور سے مقلدین اختیار کرتے ہیں، یوں خود یہ ایک نئے فرقے کی شکل میں سامنے آگئے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اؒتحاد و اتفاق کی بات کرنے والی جماعت اسلامی کا بنیادی موقف کسی بھی سنی جماعت سیمیل نہیں کھاتا؟
موصوف کو شکایت ہے کہ علماء نے مودودی صاحب کو حریف کیوں بنا لیا، ان کے حلیف کیوں نہیں ہوئے؟ کمال یہ ہے کہ انہوں نے علماء پر ”منافقین ”کی صحبت اختیار کرنے کی وجہ سے علماء سوء تک کہہ دیا ہے۔ اندھی تقلید سیاسی قسم کی جذباتیت رونما ہوتی ہے۔ مولانا مودودی غلط تشریح کریں پھر بھی ان کا ساتھ دیا جائے، یہ کس اسلام میں کہاں لکھا ہوا ہے؟وہ غلط راہ اختیار کریں پھر بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی جائے اور اگر کسی کو غیر ت دینی روکے اور وہ غلط تشریح وتعبیر کا غلط ہونا واضح کرے تو اس پر علمائے سو ء کا لیبل لگا دیا جائے۔” علمائے سو” اور ” منافقین ” کیا یہ آسان اور بے ضرر اصطلاحیں ہیں کہ موصوف ان کا بے دریغ استعمال کرتے جارہے ہیں۔یقین جانیں کہ تحریر پڑھ کر صاحب تحریر پر حد درجہ افسوس ہوا۔
مولانا مودودی نے اس دعوی کے ساتھ جماعت اسلامی بنائی تھی کہ وہ نبوی منہج پر خلافت قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور خالص اسلامی حکومت قائم ہوگی۔تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ مولانا مودودی نے ” اسلامی سیاست ” میں نہ صرف یہ کہ کانگریس کے قومی نظریے کی مخالفت کی تھی بلکہ وہ مسلم لیگ کے بھی خلاف تھے اور مانتے تھے کہ جو خود ٹھیک سے مسلمان نہیں وہ کیا اسلامی مملکت قائم کریں گے۔وہ جمہوریت کو طاغوت سے تعبیر کرتے تھے اور جب تقسیم ہوگئی تو اسی جمہوری نظام کے تحت نہ صرف یہ کہ وہ عملی سیاست کا حصہ ہوئے بلکہ فاطمہ جناح کی امیدواری کی تائید کی اور اس کے لیے اپنے پرانے موقف ” کوئی عورت سربراہ نہیں ہوسکتی ” کی ایسی مضحکہ خیز تشریح وتاویل کی کہ عقل حیران ہوکر رہ گئی۔اتنا ہی نہیں غلاف خانہ کعبہ کو لے کر جماعت اسلامی نے جو رویہ اپنایا اس نے تو سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور کھل گیا کہ جماعت اسلامی اقتدار کے لالچ میں کس حد تک جا سکتی ہے۔
مولانا مودودی نے جب نماز، روزہ، حج اور زکوۃ جیسی عبادتوں کو مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ بتایا تھا اور کہا تھا کہ اصل تو خلافت قائم کرنا ہے اور یہ سب اس کے لیے ٹریننگ کی حیثیت رکھتے ہیں تو بڑے بڑے علماء کے کان کھڑے ہوگئے تھے اور بعد کو رونما ہونے والے واقعات نے بتلا دیا کہ علماء کے اندیشے بے جا نہیں تھے۔
امت کو قرآن وسنت سیجوڑنے کا کام ہونا چاہیے۔ یہی اصل میں دینی کام ہے۔ ہر زمانے میں معتبر علماء نے یہ کام کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنے زمانے میں قرآن کریم کا فارسی میں ترجمہ کیا، شاہ صاحب کے دو فرزندوں نے کلام اللہ کا ترجمہ اردو میں کیا، تب سے یہ سلسلہ برابر جاری ہے، مولانا محمود الحسن دیوبندی، اشرف علی تھانوی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد جوناگڑھی، ڈاکٹر محمد لقمان سلفی،احمد رضا حان اور بہت سے دوسرے علماء کے ترجمے معروف اور متداول ہیں۔
درس قرآن اور درس حدیث کا سلسلہ ہونا چاہیے، اس کے لیے مختلف سطحوں پر کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ مولانا مودودی کے ” تفہیم القرآن ” پر ہی اصرار کیا جائے بلکہ تمام تر اختلاف سے بچنے کیلیے بہتر یہ ہوکہ تفسیر طبری، تفسیر بغوی اور تفسیر ابن کثیر میں سے کسی ایک کو مرجع بنا کر درس قرآن دیا جائے۔بخاری و مسلم کے دورس عام کیے جائیں، شروع میں ریاض الصالحین اوربلوغ المرام جیسی مختصر اور منتخبات پر اکتفا کرنا چاہیے۔
ہمارے یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ لوگوں کو دین سے محبت نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے خاص اکابر کے خاص مواقف سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، اس میں اہل دیوبند بھی ملوث ہیں اور جماعت اسلامی کے وابستگان بھی، جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین کے فہم کے مطابق قرآن وسنت کو معیار بنایا جائے اور ان دونوں کے مقابلے میں کسی کی بھی بات ہو، اسیترک کردینے کا حوصلہ رکھا جائےؒ۔یہی دین ہے اور اسی کی دعوت مسلمانوں کا نصب العین ہونا چاہیے۔
اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن
ثناء اللہ صادق تیمی، مکہ مکرمہ