سپریم کورٹ نے قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضی پر مانگا جواب، جنوری میں ہوگی اگلی سماعت
سپریم کورٹ نے پیر کو مرکزی حکومت کو عبادت گاہوں (خصوصی انتظامات) ایکٹ- 1991 کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضی پر اپنا موقف پیش کرنے کے لیے 12دسمبر تک کا وقت دیا ہے ۔اس ایکٹ کے تحت اجودھیا کے رام جنم بھومی کے علاوہ ملک کے تمام مذہبی مقامات کی 15اگست 1947سے پہلے کی حیثیت کو برقرار رکھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پاردی والا کی بنچ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی عرضی کو منظور کرتے ہوئے 12دسمبر تک اپنا جواب داخل کرنے کے لئے کہا۔مرکز کا موقف پیش کرتے ہوئے مسٹر مہتا نے بنچ کو بتایا کہ اس معاملے پر ‘اعلیٰ ترین سطح پر بات چیت ہو رہی ہے ۔ اس کے لیے اضافی وقت درکار ہے۔ سپریم کورٹ گزشتہ سال مارچ سے اس معاملے میں مرکزی حکومت کے جواب کا انتظار کر رہی ہے ۔مسٹر مہتا نے 12 اکتوبر کو عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ اجودھیا کے رام جنم بھومی تنازعہ کیس میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے ذریعہ سنائے گئے 2019 کے فیصلے میں عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991کی صداقت سے متعلق سوالات شامل نہیں ہیں۔اس مذہبی مقامات کے قانون کو ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے نے چیلنج کیا ہے ۔ ان کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل راکیش دویدی نے بنچ کو بتایا کہ 1991کا ایکٹ برائے مذہبی مقامات کی حیثیت کو پارلیمنٹ میں ناکافی بحث کے بعد منظور کیا گیا تھا۔اس میں ایسے معاملات شامل ہیں جن میں قومی اہمیت کے اہم سوالات شامل ہیں اور ان کا فیصلہ عدالت کو کرنا چاہیے ۔مسٹر اشونی کمار اپادھیائے کی عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک بار پھر دلیل دی ہے کہ درخواستوں پر ان کا موقف مرکزی حکومت کے داخل کردہ جواب پر منحصر ہوگا۔سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ اس معاملے کی اگلی سماعت اگلے سال جنوری کے پہلے ہفتے میں کرے گی۔