17 جون ،(پریس ریلیزپٹنہ) : 29 جون کو گاندھی میدان پٹنہ میں منعقد ہونے والی ’’وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس” کی تیاریاں بڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ و مغربی بنگال کے زیر اہتمام ہونے والی اس تاریخی کانفرنس کی مجلس استقبالیہ کی جانب سے پٹنہ میں امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر کی صدارت میں 17 جون 2025 کو ایک اہم پریس کانفرنس منعقد کی گئی ،جس میں ملی تنظیموں کے ذمہ داران خانقاہوں کے سجادگان، ائمہ کرام، استقبالیہ کمیٹی کے اہم ذمہ داران اور متعدد مسالک و مکاتب فکر کے قائدین نے شرکت کی اور متفقہ طور پر ’’وقف بچاؤ دستور بچاؤ” کانفرنس کوہرطرح کامیاب بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اس اجلاس کی کامیابی کے لیے ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں ساتھ ہی پٹنہ سمیت مختلف شہروں اور قصبوں میں کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، جن میں ائمہ کمیٹی، خواص کمیٹی، مجلس استقبالیہ کمیٹی، میڈیا کمیٹی، نشر و اشاعت کمیٹی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان تمام کمیٹیوں نے یک زبان ہو کر یہ پیغام دیا ہے کہ "پٹنہ کی سرزمین وقف بچاؤ تحریک کی امین بنے گی”۔ ماضی میں دین بچاؤ دیش بچاؤ تحریک کے دوران جس طرح پٹنہ نے خدمت، ضیافت اور نظم و ضبط اور اہتمام کی مثال پیش کی تھی، اس بار بھی وہی نقش دہرانے کا اعلان کیا گیا۔
اس موقع پر شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ وقف ترمیمی قانون نہ صرف آئینی خلاف ورزی ہے بلکہ وقف املاک پر منظم قبضے اور لوٹ کھسوٹ کی راہ ہموار کرتا ہے۔اس قانون کے نفاذ کے بعد وقف کا بنیادی اسلامی تصورِ اور اس کی اصل اسلامی تعریفات ختم کر دی جائیں گی۔ وقف بورڈ کو ایک حکومتی ایجنسی میں تبدیل کرنے، لوگوں کے وقف کرنے کے اختیارات کو محدود تر کر دیا جائےگا۔ ہمارے خیر کی 1400 سالہ تاریخ کو مٹا دیا جائے گا اور ہمارے مدارس، مساجد، مقابر و قبرستان سب کو برباد کر دیا جائے گا۔
یہ تمام تبدیلیاں دراصل ایک منصوبہ بند سازش ہیں جس کے ذریعے مسلمانوں کے مذہبی، تعلیمی، سماجی و تاریخی ورثے کو مٹانے کی راہ بنائی جا رہی ہے۔ کانفرنس کا مقصد ان تمام سازشوں کو ناکام بنانا اور ایک متحد آواز میں حکومت ہند کو یہ پیغام دینا ہے کہ "ہم دستور کے ساتھ ہیں، اور اپنے وقفی اداروں پر کسی قسم کی سیاسی یا قانونی شب خون کو برداشت نہیں کریں گے۔”پریس کانفرنس کے اختتام پر تمام جماعتوں کے قائدین اور امارت شرعیہ کے نمائندگان نے عوام سے اپیل کی کہ وہ 29 جون کو اپنے گھروں سے نکلیں، اور گاندھی میدان کو تاریخ کے سب سے بڑے پرامن، باوقار اور دستور پرست اجتماع میں بدل دیں۔
واضح رہے کہ جب سے وقف ترمیمی بل کا مسئلہ اٹھا ہے اسی وقت سے ہی امارت شرعیہ دیگر تمام ملی جماعتیں اور خانقاہیں اس بل کو یکسر مسترد کرنے کی جدو جہد میں ہمہ تن مصروف ہے۔ سب سے پہلے جب جے پی سی نے وقف ترمیمی بل پر عوامی رائے طلب کی تو امارت شرعیہ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے لیے جے پی سی کو بذریعہ ایمیل رائے بھیجنے کا مکمل نظام تیار کر کے دیا جس کے ذیعہ 3 کروڑ 65 لاکھ 7ہزار 963 رائے جے پی سی کو بھیجی گئی۔ اس کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران سے ملاقات اور انہیں مفصل و مدلل میمورینڈم پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جس کا حکومت پر نمایاں اثر ظاہر ہوا۔ پھر پٹنہ کے باپو سبھا گار آڈیٹوریم میں ایک عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس منعقد کی گئی جس میں بہار، اڈیشہ، جھاکھنڈ و مغربی بنگال کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی خواص نے بڑی تعداد میں شرکت کر کے وقف ترمیمی بل کے خلاف اپنی للکار کے ذریعہ مضبوط احتجاج درج کرایا۔ اسی طرح اس مہم کو ڈی ایم سے سی ایم و پی ایم تک رائے پہنچانےاور بل کے خلاف احتجاج درج کرانے کے لیے حضرت امیر شریعت نے بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ نےتمام قضاۃ کو ہدایت دی کہ وہ اپنے علاقہ کے ڈی ایم سے ملاقات کریں انہیں آئینی نقطہ نظر کے ساتھ بل کے نقصانات سے آگاہ کریں اور میمورنڈم پیش کریں۔اسی طرح حضرت امیر شریعت نے خود مختلف ملی جماعتوں کے ذمہ داران کے ساتھ اڈیشہ کے وفد کی معیت میں جے پی سی کے چیئرمین و ممبران سے ملاقات کرکے بل کی خرابیوں و خامیوں کی دو ٹوک انداز میں نشاندہی کی۔ اسی طرح بیداری مہم کو پنچایتوں تک پہونچانے کیلئے ورکشاپ کا سلسلہ شروع ہوا جس میں حضرت امیر شریعت نے کئی شہروں جیسے بینگلور، حیدرآباد، کولکاتہ، رانچی وغیرہ کے اسفار کئے اور بڑی تعداد میں مختلف طبقات سے وابستہ افراد کو جمع کر کے وقف ترمیمی بل پر اپنا تحقیقی پریزینٹیشن پیش کیا اور انہیں بل کے منفی نکات و مضمرات سے آگاہ کیا ساتھ ہی انہیں ذمہ داری دی کہ وہ اپنے علاقے کی مساجد میں ورکشاپ منعقد کر کے ہر فرد کو اس سے باخبر کریں۔ یہ سلسلہ خاص طور پر اس طرح بھی جاری رہا کہ امارت شرعیہ اور خانقاہ رحمانی میں مختلف نشستوں میں، علماء، ائمہ، قضاۃ، مختلف خانقاہوں کے سجادگان، مختلف مکاتب فکر کے ذمہ داران اور لیڈران وغیرہ کو جمع کر کے ورکشاپ اور میٹنگ منعقد کی گئی۔