ہندوستان میں مسلم طلبہ تعلیمی کامیابی کی روایت کو ایک نئی شکل دے رہے ہیں، خصوصاً پیشہ ورانہ شعبوں میں رکاوٹوں کو توڑ کر تعلیمی معیار بلند کر رہے ہیں اور مقابلے کے امتحانات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں ۔ یہمعمولی طلبہ نہ صرف دیہی مدارس بلکہ شہری کوچنگ مراکز سے بھی آگے بڑھ رہے ہیں اور دیرینہ تعصبات اور دقیانوسی تصورات کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں ۔ ان کی کامیابی کا راز ذاتی عزم، مضبوط معاشرتی حمایت اور سماجی تصورات کو چیلنج کرنے کے جذبے میں پوشیدہ ہے۔حال ہی میں منعقدہ نیٹ یو جی (NEET-UG) کے نتائج اس تبدیلی کی ایک مؤثر مثال پیش کرتے ہیں ۔ گوہاٹی سے تعلق رکھنے والے مسلم طالبعلم موسیٰ کلیم نے 99.97 پرسنٹائل حاصل کر کے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ؛جو آسام میں 42 ہزار سے زائد امیدواروں میں سب سے بلند اسکور تھا ۔سال 2024 میں نیٹ کے امتحان میں 20.8 ملین سے زائد طلبہ نے شرکت کی، جن میں سے تقریباً 1.15 ملین نے کامیابی حاصل کی۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہر پس منظر سے تعلق رکھنے بشمول بڑی تعداد میں مسلم نوجوان، اعلیٰ سطح پر مقابلہ کر رہے ہیں۔ آمنہ عارف کڑی والا، جو ممبئی کے ایک کمزور معاشی پس منظر رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور اردو میڈیم کی طالبہ ہیں، نے بھی نیٹ یو جی 2024 میں نمایاں نمبر حاصل کی ہیں ۔ ان کی کامیابی نے نہ صرف بہت سے افراد کو متاثر کیا بلکہ یہ ایک طاقتور پیغام پیش کیا کہ نہ زبان رکاوٹ ہے اور نہ ہی سماجی حیثیت، کامیابی کا راستہ محنت سے ہموار ہوتا ہے۔ ایسی کامیابیاں محض اتفاق نہیں بلکہ مسلسل محنت ،استقامت اور کمیونٹی کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہیں ۔ مبشرہ انجم ناگپور سے تعلق رکھنے والی ایک مسلم طالبہ ، نے مدرسے اور روایتی اسکول دونوں میں تعلیم حاصل کر کےکامیابی کا پرچم لہرایاہے ۔یوپی کی مریم عفیفہ مشکل راہیںکرتے ہوئے بارہویں جماعت کے امتحانات میں نمایاںکامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی کامیابی اس بات کی واضح مثال ہے کہ جب خاندان، طلبہ ، کمیونٹی اور ادارے باہمی تعاون سے کام کریں تو زبان جیسی رکاوٹیں بھی عبور کی جا سکتی ہیں۔ کامیابی کی یہ داستانیں جتنی متنوع ہیں، اُتنی ہی متاثر کن بھی ہیں۔اریبہ عمر ہنگورا اور مومن معاذ نے مہاراشٹرا کے ایچ ایس سی امتحانات میں شاندار کامیابی حاصل کی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دینی تعلیم اور عصری تعلیمی امتیاز ایک ساتھ فروغ پاسکتی ہے، ان کامیاب زندگیوں کی داستانیں اس مفروضے کو چیلنج کرتی ہیں کہ مذہب اور جدید تعلیم ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتی۔ انصاری جیسی رہنما شخصیات جو بھارت کی پہلی مسلم خاتون نیورو سرجن ہیں اس بات کی روشن مثال ہیں کہ مسلم خواتین کس طرح باوقار اور تخصصی پیشوں میں جرأت مندانہ راہ ہموار کر رہی ہیں ۔ یوگل کشور مشرا، پرنسپل سروسوتی ودیا مندر کی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں مسلم طلبہ کے داخلوں میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو مسلم برادری کی بڑھتی ہوئی تعلیمی دلچسپی اور بلند نگاہی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس بات کے شواہد بڑھتے جا رہے ہیں کہ ہندوستانی تعلیمی ادارے ان باحوصلہ طلبہ کی معاونت کر رہے ہیں ۔ حکومتی اسکیمیں، وظائف اور ریزرویشن (تحفظات) کی پالیسیاں خاص طور پر اقلیتی اور پسماندہ طبقات کے فائدے کے لیے ترتیب دی گئی ہیں ۔2016 سے 2021 کے درمیان، مرکزی حکومت کے اقدامات کے تحت مسلم طلبہ کو 2.3 کروڑ سے زائد وظائف دیے گئے، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 9,904 کروڑ روپے تھی۔ یہ اقدامات ایک وسعت پذیر مالی تحفظی نظام کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگرچہ اعلیٰ تعلیم میں مسلم طلبہ کی نمائندگی اب بھی کم ہے – داخلہ شدہ طلبہ میں ان کا تناسب صرف 4.6 فیصد ہے، جو او بی سی اور ایس سی طبقات کے مقابلے میں کہیں کم ہے ،مگر نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے مسلم طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ ثابت قدمی، حکمتِ عملی اور دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرنے کے جذبے کے ساتھ کامیابی کو نئے معانی دیے جا سکتے ہیں ۔حکومت، غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) دینی اداروں کے باہمی تعاون سے تعلیم تک رسائی بہتر ہو رہی ہے اور طلبہ کے اندر اعلیٰ عزائم کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ مسلم طلبہ کی بڑھتی ہوئی کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت کی اقلیتی برادریوں سے متعلق روایتی بیانیے میں ایک مثبت تبدیلی رونما ہو رہی ہے ۔ آج کے طلبہ پختہ عزم اور مؤثر معاونت کے ساتھ توقعات کو چیلنج کر رہے ہیں، اور زبان، مذہب اور معاشی پس منظر جیسی رکاوٹوں پر قابو پا رہے ہیں۔ شمال مشرقی بھارت جیسے خطوں میں، موسیٰ کلیم جیسے کامیاب نوجوان مقامی سطح پر مثالی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، جنہوں نےاسکولوںاور پالیسی سازوں کو زیادہ جامع ماحول تشکیل دینے کی ترغیب دی ہے۔ اگرچہ بعض عدم مساوات اب بھی موجود ہیںاور شمولیتی تعلیم مثلاً 2022 میں کامیاب یو پی ایس سی امیدواروں میں مسلمانوں کا تناسب صرف 2.9 فیصدہے ، لیکن نیٹ اور بورڈ امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے مسلم طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کا اشارہ ہے کہ بنیادی سطح پر مثبت پیش رفت ہو رہی ہے۔ کوچنگ اور وظائف سے متعلق مسلسل حکمت عملیوں کا نفاذ ایک امید افزا سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ بھارت اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے، جہاں ہرپس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو بااختیار بنانا ملک کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔آمنہ، موسی، مبشر اور دیگر کئی طلبہ کی کامیابیوں کو انفرادی فتوحات کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ ایک نئے تعلیمی ماحول کے ظاہر ہونے کی علامت ہیں، جو رہنمائی، معاونت اجتماعی یقین اور بے پناہ عزم جیسے عوامل سے متحرک ہو رہا ہے۔ مسلم طلبہ نہ صرف بھارت میں تعلیمی کامیابی کے مفہوم کو ازسر نو متعین کر رہے ہیں، بلکہ وہ اس تصور کو بھی نئی جہت دے رہے ہیں کہ ایک کثرت پسند اور اہلیت و قابلیت پر قائم معاشرے میں حقیقی شمولیت کیا معنی رکھتی ہے۔ ان کے تعلیمی سفر اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب مواقع ،عزم و ہمت سے جا ملیں، تو کامیابی کسی بھی گوشے سے ابھر سکتی ہے ۔ یہ طلبہ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ بھارت جیسے متنوع اور جمہوری ملک کا مستقبل اسی وقت روشن ہو گا جب کسی بھی پس منظر کے بچے کوان کی صلاحیت کے مطابق نکھرنے کاپورا موقع دیا جائے۔