ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی
ناظم جامعة الحسنات،دوبگا،لکھنو¿
8175818019
علا مہ اقبال کی پیدائش 1877ئ9 نومبر برو ز جمعہ سیال کوٹ میں ہوئی۔ آپ کے دادا سہج رام سپرو ( جو قبول اسلام کے بعد شیخ محمد رفیق کے نام سے پہچانے گئے) کا تعلق کشمیرکے ایک معزز پنڈت گھرانے سے تھا آپ کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا جن شمار سیالکوٹ کے مشہور تاجروں میں ہوتا تھا۔آپ نے ابتدا ئی تعلیم اپنے آبائی وطن میں دینی مدرس سے حاصل کی اور اس کے بعد1889ءمیں اسکاش مشن ہائی اسکول سیال کوٹ سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر یہیں سے مولا نا میر حسن کی رہنمائی میں میٹرک1893ءاور 1895ءمیں ایف- اے پاس کیا۔1895ءمیں انہوں نے گورنمنٹ کالج،لا ہور میں بی- اے میں داخلہ لیا۔ جہاں انہیں آرنلڈ جیسے معلم سے بھر پور استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ علامہ اقبال اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کی بے حد تکریم کرتے تھے جن کی شان میں انہوں نے انگلستان کی واپسی پر ایک الوداعی نظم”نالہ¿ فراق“ تحریر کی۔جس میں آپ نے اپنے استاد کی اعلیٰ خصوصیات، خوش اخلاقی، الفت و محبت اور شفقت کی بے حد تعریف کی ہے۔شاعری سے دلچسپی رکھنے والے سبھی افراد جانتے ہیں کہ ڈاکٹر علامہ اقبال کا شمار اپنے عہد کے نام ور شعرا میں ہوتا تھا۔انہوں نے غزل اور نظم دو نوں ہی اصناف میں طبع آزمائی کی مگر ایک نظم نگار کی حیثیت سے وہ اردو ادب میں خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔
علامہ اقبال اردو اور فارسی زبان کے ایک ایسے شاعر ہیں جن کا شمار دنیا کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے۔ان کی شاعری نے نو جوان نسل کے اندر ایک نئی روح پھونکنے کا کام کیا علامہ کا مقصد اپنی شاعری کے ذریعہ نوجوان نسل کو بیدار کرنا تھا اور آپ نے اس کے لئے اپنی پوری زندگی صرف کردی آپ نے اپنی شاعری میں نہایت بلیغ اور فلسفیانہ انداز نوجوان نسل کے لئے ایک پیغام چھوڑا ہے اور انھیں خواب غفلت سے جھنجھوڑنے کی بھر پور سعی کی ہے۔ان کی شاعری ایک مخصوص فکری و تہذیبی پس منظر میں سانس لیتی ہے۔ وہ ایک غیر معمولی فہم و فراست رکھنے والے شاعر تھے۔علامہ نے ایک ایسے دور میں شاعری کی ابتداءکی جب ہندوستان برطانوی استعمار کے زیر اقتدار تھا اورملک میں ظلم و جور بام عروج پر تھا اور ہر طرف خوف و ہراس اور مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ علامہ اس حالت زار سے بے حد متاثر ہوئے ان کا دل وطن کی محبت سے سرشار تھا اور قومی غیرت سے لبریز تھا۔ انہوں نے ابتدائی دور میں چند انتہائی متاثرکن حب الوطنی پر مبنی نظمیں لکھیں۔ جیسے ہمالہ ، صدائے درد ، ترانہ ہندی ، نیا شوالہ اسی نوعیت کی مقبول نظمیں ہیں۔
بیسویں صدی پوری دنیا میں نئے ہنگامے اور نئے انقلابات لے کر آئی۔ دنیا کے سیاسی نقشے میں کئی واقعات رونما ہوئے اور کئی تبدیلیاں ہوئیں جس سے ہندوستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ان متاثر کن حالات میں علامہ وہ پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے مسلمانوں کی بے بسی اور گمراہی کو دور کرنے کی کوشش کی اور فلسفہ خودی ، عشق و عقل،مرد مومن ، حرکت و عمل جیسے تصورات پیش کیے اور قرآن و احادیث کی روشنی میں مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل تلاش کیا اور ایک نئی تعبیر پیش کی۔پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستان میں رولٹ ایکٹ،گاندھی جی کی عدم تعاون کی تحریک، جنرل ڈائر کا مارشل لا اور قتل عام جیسے واقعات سے ملک میں افراتفری کا ماحول تھا اور ایسے وقت میں ہی اقبال کو نوجوان نسل کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی فکر لاحق ہوئی جس کے نتیجے میں آپ نے یہ نظم ”خضر راہ “تحریر کی ۔آپ نے نئی نسل کیلئے ایک ایسا نسخہ کیمیا پیش کیا جس کے اجزا حوصلہ مندی اور خودداری پر مبنی تھے وہ اپنی نظموں کے ذریعہ اپنی قوم کی توجہ مادہ پرستی سے ہٹا کر خدا پرستی کی طرف لے جانا چاہتے تھے تاکہ قوم اپناصحیح سیاسی اوراخلاقی مستقبل طے کرسکے اورذہنی وسیاسی غلامی سےآزادی حاصل کرسکے اور دنیا میں ایک کامیاب زندگی گزارنے کے قابل ہوسکے۔
اقبال کو جب یورپ جانے کاموقع ملا تو وہاں بھی وطن پرستی کے نغمے گنگناتے رہے۔1905ءسے لے کر1908ءتک کا زمانہ قیام یو رپ کا زمانہ ہے جہاں آپ نے یورپی تہذیب و تمدن اورکلچر کابڑے قریب سے مشاہدہ کیا،اس وقت اقبال کی شاعری ہمیں ایک نئے رنگ میں نظر آتی ہے۔ اس پر فارسی کا غلبہ زیادہ ہے مگر خیال خاصا مو ثر اور تحریر پرکشش اور خوش رنگ ہے۔وہاں ٹیگور کے فلسفیانہ خیالات نے اقبال کے فکری اور نظری اصولوں کو سائنٹفک طرز عطا کیا۔ جہاں یورپ کے کلچر، تہذیب و ثقافت اور فکر و خیال کو متاثر کیا وہیں ان کی باریک بینی سے وہاں کی خامیاں اور کھوکھلا پن بھی پو شیدہ نہیں رہ پایا جنہیں دیکھ کر اقبال کی قومی غیرت بیدار ہوئی اور وہ دل سے اسلامی تعلیم اور اصولوں کے قائل ہو گئے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کی پو ری اردو شاعری انہیں اپنے فن کا ایک بڑا مصور بنا دیتی ہے۔ ان کی کلیات کواگر شاعری کا انسائیکلو پیڈیا کہا جائے تو غلط نہ ہو گا جس میں انہوں نے اپنے ہنر قلم اور جذبات شدت سے اپنے کلام میں مختلف قسم کی تصا ویر اجاگر کی ہیں جن کے ذریعے اپنی سو ئی ہوئی قوم کو بیدار کیا۔ ان کے مردہ جسم میں نئی روح پھونکی اور ان میں جدو جہد کا جذبہ بیدار کیا اور21 اپریل1938ءکو اپنی ذخیرہ¿ شاعری کو اپنی قوم کیلئے چھوڑ کر یہ رہبر قوم ہمیشہ ہمیش کیلئے اس دار فانی سے کوچ کر کے مالک حقیقی سے جا ملا۔ یوں تو اقبال کی شہرت اور مقبو لیت اردو اور فارسی زبانوں میں کسی تعارف کی ہر گز محتاج نہیں مگر اقبال نے جو منفرد رنگ اور لب و لہجہ اردو زبان کو بخشا وہ اردو ادب کیلئے انمول تحفہ ہے۔
حکیم الامت علامہ اقبال نے نوجوان نسل کیلئے جو تصورات پیش کئے ،ان میں خودی، شاہین ،مرد مومن اور ملت شامل ہیں ۔ علامہ اقبال ایک ایسے شاعر تھے جو با ہمت ،ذی حوصلہ، عالی فکر، اوردینی غیرت کے جذبہ سے سرشار رہنے والے مر د مومن تھے۔علامہ اقبال کے بارے میں یہ بات عیاں ہے کہ وہ ایک فلسفی شاعر تھے۔ زندگی اور مقصد زندگی کے حوالے سے جتنے فکر انگیز خیالات اقبال نے پیش کئے ہیں، اردو ادب کی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اس انقلابی فکر کی آبیاری میں ان کے والدین کا خصوصی کردار رہا ہے۔ان کے والد شیخ نور محمد متقی ایک خدا ترس شخصیت حامل انسان تھے۔ ان کی تربیت ہی کا اثر تھا کہ اقبال کے اندر بچپن سے ہی اخلاق کریمانہ اور بزرگوں کی تکریم کا عنصر نمایاں تھا آپ کو قدرت کی طرف سے تخلیقی ذہن عطا ہوا تھا۔اور آگے چل کر آپ نے اپنی قوم کی صلاح و فلاح کے لئے شاعری کو اپنا ہتھیار بنا یا اور اپنی شاعری کے ذریعہ نوجوان نسل کے اندر مایوسی و نہ امدی کو دور کیااور اُن کے اندر امید کی کرن پیدا کی ۔چناچہ آپ نے جب دیکھا کہ مسلمان اپنی اس حالت زار کی وجہ سے نا امیدی کا شکار ہو رہے ہیں تو آپ نے ان کو حوصلہ دینے کی بھر پور کوشش کی۔
کلام اقبال کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے شاعرانہ تخیل میں انقلابی افکار کی آمد تعلیم قرآن کے مرہون منت ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں پنہاں فکر و آگہی انہیں تمام شعراءمیں ممتاز کرتی ہے۔ اپنے وقت میں وہ مظلوم اقوام کی سب سے مضبوط آواز بن کر ابھرے اورقوم کے رگ وریشے میں ملی جذبہ پیوست کردیا۔اور آج بھی ان کی انقلابی شاعری ہمارے لئے مشعل راہ ہے ہماری ہر موڑ پر رہنمائی کرتی ہے زندگی کے ہر شعبہ میں علامہ کی شاعری کے ذریعہ ایک پیغام ملتا ”اقبال کا سارا کلام پڑھنے کے بعد اسکا جو لب لباب نکلتا ہے اور جو ان کی ساری زندگی کا خلاصہ ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو پہچانے اور ان سے کام لے۔خدا اور اس کے رسول کے عشق میں سر شار رہے۔اسلامی تعلیمات کی روح کو سمجھے اور اس پر ہمیشہ عمل پیرا رہے اور دنیا میں اپنے آنے کے مقصد کو ہمیشہ پیش نظر رکھے تو وہ دنیا و آخرت کی تمام کامیابیاں حاصل کر کے حقیقی معنوں میں خدا کا جانشین بن سکتا ہے اور اپنی تقدیر کا آپ مالک بن سکتا ہے“۔