سید مجاہد حسین
نئی دہلی : قانون کا مندر کہے جانے والے پارلیمنٹ کی نئی عمارت بن کر نئی دہلی میں تیار ہو چکی ہے جس کااسی ماہ28 مئی کو وزیر اعظم نریندر مودی افتتاح کریں گے ۔لیکن اس تعلق سے سے اپوزیشن جماعتیں سخت بپھری نظر آرہی ہیں ۔اپوزیشن کی 19جماعتوں نے اس افتتاح کے پیش نظر ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جسمیں افتتا حی تقریب کے بائیکاٹ اعلان کیا گیا ہے ۔ملک کی19حزب اختلاف جماعتوں نے کہا ہے کہ ’’وزیر اعظم مودی کی قیادت والی حکومت نے نئی عمارت کی تعمیر میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی اور انہیں نظر انداز کیا گیا‘‘۔ اپوزیشن نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ’’ ہمارے اس یقین کے باوجود کہ یہ حکومت جمہوریت کے لیے خطرہ ہے اور جس آمرانہ انداز میں نئی پارلیمنٹ تشکیل دی گئی تھی، اس سے ہماری ناراضگی کے باوجود، ہم اختلافات کو ختم کرنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار تھےلیکن نئے پارلیمنٹ کی عمارت کے افتتاح کے موقع پر صدر جمہوریہ ہند دروپدی مرمو مکمل طور سے نظر انداز کرکے افتتاح کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے ، یہ نہ صرف صدر کے عہدہ کی توہین ہے بلکہ یہ ہماری جمہوری روایت پر سیدھا حملہ ہے ‘‘۔
قابل ذکر ہے کہ سبھی 19 ہم خیال اپوزیشن جماعتوں کا ماننا ہے کہ حکومت جمہوریت کے لئے خطرناک صورتحال پیدا کررہی ہے۔موجودہ حکومت نے آمرانہ انداز میں نئی پارلیمنٹ بنائی ہے جو کہ وبائی امراض کے دوران خطیر اخراجات سے تعمیر کی گئی ہے ۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک کے عوام یا ارکان پارلیمنٹ تک سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا ۔انہوںنے کہا کہ جب پارلیمنٹ سے جمہوریت کی روح ہی نکال دی گئی تو ہمیں اس عمارت کی کوئی اہمیت نظر نہیں آتی۔اس لئے ہم نئے پارلیمنٹ ہائوس کے بائیکاٹ کے اجتماعی فیصلے کا اعلان کرتے ہیں۔بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ہم اس ظالم وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے خلاف اپنے الفاظ اور جذبات میں لڑتے رہیںگے اور اپنا پیغام براہ راست عوام تک پہنچائینگے‘‘۔بیان میں کہا گیا ہے کہ’’ آئین کے آرٹیکل 79 کے مطابق یونین کے لیے ایک پارلیمنٹ ہوگی جس میں ایک صدر اور دو ایوان ہوں گے جنہیں بالترتیب ریاستوں کی کونسل اور عوام کی اسمبلی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔حزب اختلاف کی جماعتوں نے کہاکہ صدر ہندوستان میں نہ صرف ریاست کے سربراہ ہیں بلکہ پارلیمنٹ کا ایک اٹوٹ حصہ بھی ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کو طلب کرتی ہیں ، ملتوی کرتی ہیں اور خطاب کرتی ہیں ۔ مختصر یہ کہ پارلیمنٹ صدر کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اس کے باوجود وزیراعظم نے ان کے بغیر نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ غیرمعمولی عمل صدر جمہوریہ کے اعلیٰ عہدے کی توہین ہے بلکہ آئینی روح کی خلاف ورزی ہے ۔ یہ وقار کے ساتھ جامعیت کے جذبے کو مجروح کرتا ہے جس نے ملک کی پہلی خاتون قبائلی صدر کے استقبال کی بنیاد رکھی‘‘۔وزیر اعظم پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کو مسلسل کھوکھلا کرنے والے وزیر اعظم کے لیے غیر جمہوری حرکتیں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن ارکان کو عوامی مسائل اٹھانے پر نااہل، معطل اور خاموش کر دیا گیا ہے ۔ حکمران جماعت کے ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں خلل ڈالا۔ کئی متنازعہ بل بشمول تین زرعی قوانین تقریباً بغیر بحث کے منظور ہو چکے ہیں اور پارلیمانی کمیٹیوں کو عملی طور پر غیر فعال کر دیا گیا ہے ۔غور طلب ہے کہ کانگریس کے علاوہ جن اپوزیشن جماعتوں نے یہ مشترکہ بیان جاری کیا ہے ان میں ترنمول کانگریس، دراوڑ منیترا کزگم، جنتا دل یو، عام آدمی پارٹی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، شیو سینا- ادھو بالا صاحب ٹھاکرے ، مارکسی کمیونسٹ پارٹی، سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، انڈین یونین مسلم لیگ، جھارکھنڈ مکتی مورچہ، نیشنل کانفرنس، کیرالہ کانگریس-مانی، ریوولیوشنری سوشلسٹ پارٹی، ودوتھلائی چروتھیگل کاچی مارومالارچی دراوڑ منیترا کزگم اور راشٹریہ لوک دل شامل ہیں۔