ڈاکٹر آصف لئیق ندوی
عربی لیکچرر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
صوبہ اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ کےمشہورومعروف علاقہ حضرت گنج کے وزیر حسن روڈ پر کل بروز منگل بتاریخ ۲۴ جنوری ۲۰۲۳ ء بوقت شام ساڑھے چھ بجے کثیر منزلہ عمارت کے زمین دورہونے کا جو المناک حادثہ پیش آیا!جسکو دیکھ کر قیامت صغری کا منظر ذہن میں گردش کرنے لگا،چشم دید گواہوں کے مطابق یہ ایک بھیانک اور تباہ کن منظر تھا، جس کو دیکھ کر مشاہدین کا کلیجہ منہ کو آگیا، عین شام کے وقت رات کاسماں قائم ہو گیا، چاروں طرف گردو غبار سے اندھیرا چھا گیا،اس تباہ کن منظر کو دیکھ کر قریب کے لوگوں کے ہوش اڑ گئے،یہ ایک ایسا حادثہ تھا،جس میں درجنوں افراد منہدم شدہ عمارت کے ملبے میں دب گئے ، نیوز ایجنسی رپورٹ کے مطابق تقریباپچاس سے ساٹھ لوگوں کے ملبے میں پھنسے رہنے کا اندیشہ ظاہر کیا گیاہے،یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عمارت بہت مضبوط اورپائیدار تھی، اسکی تعمیر کو ابھی صرف پندرہ سال ہی گزرے تھے، مگران تمام خوبیوں کے باوجود عمارت اسطرح منٹوں میں تباہ و برباد ہوگئی کہ گویا پھسپھسے مٹی سے بنی ہوئی بچوں کا گھروندہ تھی، آس پاس کے لوگوں میں خوف وہراس کا ماحول چھا گیا، انہدام کا سبب زلزلہ کا جھٹکہ بتایا جارہاہے،جو کل لکھنؤ میں محسوس کیا گیا، کئی لوگوں کو اب تک نکالا جاچکا ہے، جو بہت زخمی اور شکست خوردہ ہیں، جنہیں ہاسپیٹل بھیجا گیا اور وہ زیر علاج بھی ہیں، زندگی اور موت کی کشمکش میں کتنے لوگ دم توڑ چکے ہیں؟ کتنی انسانی جانوں کا ضیاع ہواہے، اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ بہت کم ہے۔
واقعتا یہ حادثہ بڑا دردناک حادثہ ہے، جس پر تمام برادران وطن بشمول تمام مسلمانوں کو بھی اس پر بہت افسوس ہے اور بلا امتیاز مذہب وملت اس حادثہ پر اپنے گہرے دکھ درد کا اظہار کررہے ہیں، ہر فرد اور خاندان کی مصیبت و پریشانی کے عالم میں ہم بھی انکے ساتھ کھڑے ہیں اور انکی راحت و عافیت کیلئے پروردگار عالم سے دعائیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس منہدم بلڈنگ اور اسکے ملبے میں دبے تمام افراد کو سلامتی کیساتھ باہر نکالے، پھنسے ہوئے اشخاص کی ہر طرح سے مدد فرمائے، زخمیوں کو جلد شفایاب کرے۔ مصیبت زدہ کی پریشانیوں کو مکمل دور فرمائے، ہلاک شدہ افراد کے خانوادوں کو صبر جمیل اوربلند حوصلہ کی طاقت وقوت عطا کرے۔ ظاہر ہے اتنی بڑی بلڈنگ کے گرنے سے آس پاس کی عمارتوں کو بھی بھاری نقصان پہونچا ہے، قیمتی جان کے ضیاع کے علاوہ مال وزر کی بھی تباہی و بربادی ہوئی ہے، سرکاری عملہ رسکیو کے کاموں میں مشغول ہیں اور پھنسے ہوئے لوگوں کوزندہ نکالنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں، بڑے بڑے افسران اور وزراء بھی پریشان نظر آرہے ہیں،سبھوں کو اس حادثہ پرافسوس وملال ہے اور اپنے گہرے دکھ درد کا اظہار بھی کررہے ہیں اور یہ سلسلہ تھمنے کے بجائےدراز ہوتا جارہا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ ہم پروردگار عالم سے اس بات کی بھی درخواست کرتے ہیں کہ( وہ پالنہار جن کی ہم رات ودن نافرمانیاں کررہے ہیں، انکی زمین پر رہ کر اصلاح کے بجائے فساد وبگاڑ پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں، کتنے مظلوم ہیں جنکے گھروں پر قصداً بلڈوز چلوا دیا گیاہےاور انکی دہائی کو بھی سنا نہیں گیا ہے، آج جن کواپنا ایک گھر تھا، کتنوں کوکل بے گھر بنادیاگیا ہے)۔ اللہ ہمیں مظلوموں کی آہ وبکاکے انجام سے بچائے، کیونکہ انکی آہ اور پروردگار کی مدد میں کوئی دیوار حائل نہیں ہے، عرش بھی ان کی آہ سے ہل جاتا ہے، اسلئے ہمیں وہ عقل سلیم عطا فرمائے کہ جس کے بعد ہم سب پھر سے بھائی بھائی بن جائیں، یکجہتی و یگانگت اور اخوت و مودت کیساتھ زندگی بسر کرنے لگیں، ملک کونفرت و عداوت کے ماحول سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارہ دلائیں، جسکی نحوست نےآج ہمیں کہاں پہونچا دیا ہے، جسکا وبال آج ہمارے سامنے ہے، یہی وجہ ہے آج قوم وملک کی جو حالت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، ہر طرح سے ملک کمزور وبرباد ہوتا جارہا ہے، کہیں معیشت کمزور پر کمزور ہورہی ہے تو کہیں بے روزگاری عام ہوتی نظر آرہی ہے، سب سے بڑا وبال تومہنگائی کا ہے جو آسمان چھوتی جارہی ہے، اسکا اثر اب انسانی جانوں کے ضیاع اور اندوہناک حادثوں سے بھی ظاہر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
مگر گودی میڈیاظاہری عیوب ونقائص کو بیان کرکے حادثے اور نقصانات کی اصلی وجوہات سےلوگوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال رہے ہیں اور اصل وجہ بتانے سے گریز کررہے ہیں، ارباب اقتدار اورطاقتوروں کاکمزوروں اور اقلیتوں کے خلاف ظلم وستم اور جبرواستبداد کا رویہ بھی ملک کی تباہی وبربادی کا بہت بڑا سبب ہے جن سے لوگوں کو معمولی وجوہات بتا کر اصل وجہ سے غافل بنایا جارہا ہے، کسی خاص طبقے کے خلاف ملک کے کونے کونے میں ظلم وستم کا جو معاملہ روا رکھا جارہا ہے،اسکو روکنا اقلیتوں کیساتھ ساتھ برادران وطن کی بھی بڑی ذمہ داری بنتی ہے اور انکا اخلاقی فریضہ بھی ہے،مگر افسوس! کہ ہم مظلوموں اور کمزوروں کا ساتھ دینے کے بجائے ظالموں کو ظلم وستم سے نہیں روک رہے ہیں ، بلکہ انکی مدد کرتے نظر آرہے ہیں، انہی گناہوں اور کرتوتوں کے وبال کے ہم بھی شکار بنتےجارہے ہیں ، دوسروں پر ظلم وستم ہماری آنکھوں کے سامنے ہو اور ہمارا خاموش تماشائی بنے ر ہنا بھی ظلم کو پروان چڑھانے کی ایک شکل ہے ،جس میں ہماری کھلی غفلت اور لاپرواہی ہمیں بھی ظالموں اور گنہ گاروں کی فہرست میں شامل کررہی ہے،جبکہ برادران وطن اور ملک کے ہر ہر فرد کا یہ اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ وہ ظلم وستم کے خلاف بلا امتیاز مذہب وملت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں ، اور اسکے خلاف آواز بلند کریں۔ ظالم خواہ ہمارا بڑا اور طاقتور بھائی ہی کیوں نہ ہو اسکا ہاتھ پکڑنا اور ظلم وستم سے اسکو روکنا ہمارا انسانی اور ایمانی فریضہ ہے۔
مگر افسوس! ہمارا رویہ قدرت کی نظر میں بھی مشکوک ہے، ہم ٹی وی چینلوں کی رپوٹوں اور انکی کذب بیانی پر یقین کرتولیتے ہیں،مگر زمینی حقائق و شواہد جاننے اور معلوم کرنے سے بالکل اپنامنہ موڑ لیتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ ہم مظلوموں کے آنسووں کو پوچھنے کے بجائے اپنی چادر اور دوپٹّوں میں منہ چھپا کر مظلوموں کی مصیبتوں پر ہنستے رہتے ہیں، کمزوروں کی مدد کرنے کے بجائے ہم انکو اور کمزور کرتے جارہے ہیں، کہیں انکی جان ومال اور عزت وآبرو سے کھلواڑ ہوتا ہے تو ہم تماشائی بنے رہتے ہیں اور ایک لفظ بھی اسکے خلاف منہ سے نکالتے ہوئے نظر نہیں آتے، رویش کمار اور نوین کمار جیسے حق گو اور بیباک افراد کی ملک میں بڑی کمی نظر آرہی ہے، ایسے لوگوں کے منہ پر طرح طرح سے تالا لگایا جاتا ہے اور ہم صرف خبر پڑھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں، ہماری یہ تسلی اب ہمارے لئے نقصاندہ ثابت ہورہی ہے،آخر ظلم وستم کا شکوہ کوں سنے؟رب تو آسمان سے سب کچھ دیکھ رہا ہے،انکی شریعت پر حملے ہورہےہیں، ناپاک سازشوں اور خطرناک پروپیگنڈوں کا وسیع جال پھیلایا جارہا ہے، اور ہم اسکو کاٹنے کے بجائے اسمیں حصہ دار بن رہے ہیں،ظاہر ہے کہ جب ہم دوسروں کے لئے برا سوچیں گے تو ہمارا یقینا کسی دن نقصان ہوگا، ہم تو اپنے ملک کو مضبوط کرنے کے بجائے اسکو اپنے ہاتھوں سے توڑنے کے کاموں کوکسی نہ کسی طرح سے فروغ دےرہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسی کے ساتھ ساتھ ہماری اور ملک ترقی ہوجائے، پروردگار کا کھلا اصول ہے چاہ کن را چاہ درپیش۔ہم اگر اپنے بھائی کیلئے کنواں کھودیں گے تاکہ وہ اس میں گر کر مرجائے تو قدرت ہمارے ہی لئے گرنے کا دوسری طرف انتظام کردے گا، ہم پہلے اس کنواں میں گرنے کے شکاری بن جائیں گے، آج یہی ہمارے ملک میں عام ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جسکی وجہ سے ملک ترقی و عروج کے بجائے پستی وزوال کا شکار بنتا جارہا ہے اور ہم بھی اخلاقی پستی، سیاسی انارکی اور طبقاتی کشمکش کیوجہ سےاس دلدل اورغارمیں گرتےجارہے ہیں، جسکا ظہور قدرت کی پکڑ اوراسکی تنبیہات سے ہورہاہے، زلزلے، قہر اور پھیلتی بیماریاں اسی ناانصافی اور حقوق تلفیوں کی علامت ہیں، جن سے ہم لوگوں کو یا تو بالکل غافل رکھا جارہا ہے یا ہم تجاہل عارفانہ کی روش اختیار کرکےظالموں کے فہرست میں شامل ہوتے جارہے ہیں، قبل اسکے کہ کوئی بڑی مصیبت اورخدا کی پکڑہم پر نازل ہو ہمیں اپنے گناہوں اور کرتوتوں سے توبہ کر کے مظلوموں کا ہم نوا بن جانا چاہیے اور اپنے اچھے برتاؤ وسلوک سے انسانیت کا ہمدرد اور غم خوار بن جانا چاہیے۔۔۔ اور ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ مظلوموں کی آہ سے بچا جائے تاکہ پھر کوئی دوسرا اندوہناک واقعہ اور سانحہ رونما نہ ہوجائے جس کے ہم بھی شکار نہ بن جائیں۔ خدا کا فرما ن ہے ، ڈرو اس فتنے سے جو اترے گا تو کسی برے بھلے کی تمییز نہیں کرے گا بلکہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لےگا۔ اللہ ہمیں ہر فتنے اور مصیبتوں سے نجات دے، اور ہمیشہ اچھے روش پر چلائے۔آمین۔