جمہوری ملک میں حکومت جمہوریت کے دائرے میں چلائی جاتی ہے وہی حکومت ایک ٹھوس اور پختہ حکومت کہلائے گی جس میں اپوزیشن کو اختلاف واحتجاج کرنے کا حق دیا جاتا ہے انکی باتوں کوبغور سماعت کیا جاتا ہے ناکہ آواز کو دبایا جاتا ہے اور نہ ہی کہنے کی آزادی سلب کی جاسکتی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ ملک اور اسکی حکومت جمہوریت کو داغدار بنارہی ہے بھارت ایک جمہوری ملک ہے جتنے حقوق حکومت کو حاصل ہے اتنے ہی حقوق اپوزیشن کو بھی حاصل ہے یہ بھارتی آئین کی خوبصورتی ہے لیکن موجودہ حکومت کی حکمرانی میں ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جو ماضی میں کسی نے نہیں دیکھا حالانکہ اپوزیشن کا وجود ہی جمہوریت کی بنیاد ہے کیونکہ ایک وقت ایسا بھی تھاجس وقت پورے ملک پر کانگریس پارٹی حاوی تھی اپوزیشن کا کوئی تصور دور دور تک نہیں تھا لیکن اپوزیشن کے تصور کو بحال کرنے کیلئے قصداً اور عملاً اپوزیشن کی بحالی کے مواقع فراہم کیئے گئے تاکہ جمہوریت کی بقاءکو یقینی بنایا جاسکے لیکن آج ہم ایک ایسی حکمرانی میں ہے جو سرے سے اپوزیشن کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے جو جمہوریت کو مٹانے کے مترادف ہے اگر حکومت ایک ملک اور ایک حکمرانی کا خواب سجارہی ہوتو اس خواب کو حقیقت میں بدلنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا آسمان سے تارے توڑ لانا،خواب وہی دیکھے جائیں جو ملک اور قوم کی بھلائی کیلئے ہو لیکن ہماری موجودہ حکومت اور حکمران ایسے خواب دور دور تک بھی نہیں دیکھتے اور نہ دیکھ بھی سکتے۔
پارلیمنٹ میں بجٹ سیشن کا جب دوسرے دور کا آغاز ہوا تو عجیب وغریب منظر نامے سامنے آئے اپوزیشن جماعتیں پوری طرح سے تیار تھیں کہ وہ بجٹ سیشن میں اڈانی ہنڈن برگ کی رپورٹ،سی بی آئی و ای ڈی کی چھاپے ماری،مہنگائی اور بے روزگاری پر حکومت سے جوابدہی حاصل کریں گے لیکن معاملہ اپوزیشن کی سونچ سے برخلاف ہوگیا اور خود مودی حکومت اسکے وزراءاور اراکین راہل گاندھی کے لندن میں دیئے گئے بیان کو لیکر شور غل و نعرے بازی کرنے لگے مودی حکومت کے وزراءنے راہل گاندھی کو اپنا دیا ہوا بیان واپس لینے اور غیر ملک میں جاکر بھارت کی توہین کرنے پرمعافی مانگنے کا مطالبہ کررہے تھے دراصل راہل گاندھی نے لندن میں کہا تھا کہ بھارت میں جمہوریت سرے سے ختم ہوچکی ہے اور غیر ممالک سے کہا کہ وہ بھارت کی جمہوریت کو بچانے کی پہل کریں یہاں تعجب دونوں باتوں پر ہے ایک تو یہ کہ حکومت کی طرف سے ایوانوں میں تمام اپوزیشن جماعتوں کا تعاون لیتے ہوئے پر سکون انداذ میں کاروائی چلائی جائے لیکن حکومت نے خود اپوزیشن پر ہلہ بول دیا اور ایوانوں کے نظم کی پامالی کی دوسری تعجب خیز بات یہ کہ بھارت کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حکومت شور و غل مچاکر ایوانوں کی کاروائی میں خلل ڈالے یہ ایک غیر اخلاقی برتاؤ کہلائے گا کیونکہ اسمیں اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی اور اپنے دفاع کیلئے خود حکومت اپوزیشن کا بھی کردار ادا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی آواز کو کون سنیں؟کیا یہ اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش نہیں ہے؟کیا یہ ہنڈگ برگ رپورٹ کا دفاع نہیں کررہے ہیں؟کیا حکومت کے پاس ای ڈی اور سی بی آئی ایجنسیوں کی کاروائیوں کا ٹھوس ثبوت نہیں ہے؟ کیا حکومت اڈانی کے دفاع کیلئے اورجوابدہی سے بچنے کیلئے خود شوروغل پر اترآئی ہے؟یہ وہ سوالات ہے جو حکومت کے شور و غل پر اٹھ رہے ہیں کیونکہ راہل گاندھی نے لندن میں جو کچھ کہا وہ ایک حق بیانی ہے جس سے ملک کی اکثریت کو اتفاق ہے جس طرح ملک میں جمہوریت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں جس پر حکومت بھی خاموش تماشائی بنی ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ بھارت کے حالات سے دنیا بے خبر ہے بلکہ دنیا بھارت میں پھیل رہی نفرت کی وباءسے واقف ہے راہل گاندھی وہی تو کام کررہے ہیں کہ ملک سے نفرت کی وباءکو ختم کیا جاسکے وہ مودی حکومت کے خلاف ایک آہنی دیوار بن چکے ہیں جس سے بی جے پی تلملارہی ہے تب ہی وہ راہل گاندھی کے خلاف کچھ بھی کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں ہاں راہل گاندھی کے بیان سے حکومت کو حزب اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ہنگامہ کھڑا کردیں شائد حکومت بھول رہی ہیکہ وہ حکومت میں ہے ورنہ اسطرح کا اقدام نہیں اٹھایا جاتا بات تو یہ بھی ہے کہ جس طرح حکومت راہل گاندھی سے معافی طلب کررہی ہے تو حکومت کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہنڈن برگ رپورٹ کے حوالے سے اڈانی پر سرکاری ایجنسیز کی خاموشی پر اپوزیشن کو جواب دے لیکن مودی حکومت اپنے دولتمند تاجر اڈانی کے دفاع کیلئے ہی راہل گاندھی کونشانے پر لے رہی ہے حکومت کو خدشہ ہے کہ کہ وہ اڈانی معاملہ میں اگر ڈٹ کر مقابلہ نہیں کرے گی تو اڈانی کی قلعی کھل جائے گی جسکا واضح مفہوم یہ کہ اڈانی کی قلعی کھلنا حکومت کی قلعی کھلنے کے مترادف ہے تب ہی حکومت ای ڈی اور سی بی آئی کا استعمال اپوزیشن کی آواز کو دبانے کیلئے کررہی ہے۔
اپوزیشن میں اگر مضبوطی کے ساتھ مودی حکومت کا مقابلہ کررہی ہوتو وہ صرف واحد ایک کانگریس پارٹی ہے جس میں کانگریس کے سرکردہ قائدین مودی حکومت سے آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کررہے ہیں اور سوال کررہے ہیں جبکہ راہل گاندھی پوری استقامت سے اور بے خوف و بے باک طریقے سے حکومت کا گریبان پکڑ کر رکھے ہیں وہ مودی حکومت کو ایک موقع بھی نہیں دینا چاہتے ہیں راہل گاندھی جس راستے پر چل رہے ہیں وہ راستہ بہت کٹھن وپرخار ہے لیکن راہل گاندھی ملک کی سلامتی وسالمیت کیلئے ہر قربانی پیش کررہے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ملک سیکولرزم کی راہ سے بھٹک جائے وہ نہیں چاہتے کہ بھارت ہندو راشٹر کی طرز پر قائم ہوجائے وہ نہیں چاہتے کہ طبقات کے درمیان بھید بھاؤ کیا جائے وہ چاہتے ہیں تو بس یہ کہ یہ ملک گاندھی امبیڈکر نہرو اور آزاد کی طرز پر چلایاجائے جنھوں نے سیکولرزم کیلئے جو محنتیں مشقتیں کی ہیں جسکی بقاءکو یقینی بنایا جائے بدھ کی روز پولیس نے اس وقت اپوزیشن کا محاصرہ کرلیا جب اپوزیشن جماعتیں جس میں کانگریس کے علاوہ 18 پارٹیاں شامل تھی جو مارچ کرتے ہوئے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ جانا چاہتے تھے جسکا مقصد یہ تھا کہ اڈانی گروپ کے خلاف الزامات کی تحقیقات کیلئے ای ڈی کو ایک یاداشت پیش کی جائے لیکن پولیس نے ایسا ہونے نہیں دیا حکومت کا یہ کھلا تضاد حقیقت کی منظر کشی پیش کررہا ہے کہ حکومت جن پر الزامات عائد نہ بھی ہوں تو ای ڈی اور سی بی آئی کو تعاقب کیلئے چھوڑدیتی ہے اور ملک کے سب سے دولتمند تاجر اور الزامات میں گھرے فرد کیلئے ابھی تک کوئی پوچھ گچھ بھی نہیں ہوتی جس سے یہ پس نظر سامنے آتا ہے کہ کیا ای ڈی اور سی بی آئی حکومت کے اشاروں پر کام کررہی ہے؟یہ سوالات تو اپوزیشن پارٹیوں میں ہی نہیں بلکہ عام آدمی میں بھی عام ہوچکے ہیں حکومت کی جانبدار کاروائی نے عام افراد کو بھی مشکوک میں ڈال دیا ہےراہل گاندھی نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ بتایا کہ میں نے لندن میں بھارت مخالف کوئی بات نہیں کی بس ملک جاننا چاہتا ہوںکہ حکومت اور اڈانی کے درمیان کیا رشتہ قائم ہے؟میں اپنا جواب پارلیمنٹ میں رکھنا چاہتا ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ مجھے بولنے نہیں دیا جائے گا مودی حکومت اور اسکے وزراءصرف یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح اڈانی کے معاملہ کو دبادیا جائے جس کیلئے حکومت اپنا پورا زور لگارہی ہے حکومت کو ڈر ہے کہ اگر اڈانی معاملہ ملک میں منظر عام پر آجائے گا تو اسکے منفی اثرات مودی سرکار کیلئے لوک سبھا انتخابات پر مرتب ہوسکتے ہیں لیکن اپوزیشن کی جانب سے مودی حکومت پر جس طریقے کی یلغار کی جارہی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شائداپوزیشن نے یہ عزم کرلیا ہے کہ حکمران جماعت کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا جائے گا مودی حکومت اور اپوزیشن میں جاری کشمکش کی جنگ سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتا پائے گا۔