نئے سال کی ابتداءہلدوانی اتراکھنڈ میں 4000 خاندانوں پر بلڈوزر کے چلنے کے معاملہ سے ہوئی۔ جبکہ پچھلے سال اس طرح کے واقعات مستقل سامنے آتے رہے۔ انسان فطرتاً تنوع پسند ہے، اسے یکسانیت سے وحشت ہوتی ہے۔ اس لئے خود کو فطری تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سب کچھ بھلا کر خوشی حاصل کرنے کا چھوٹے سے چھوٹا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ چاہے پھر نیا سال ہی کیوں نہ ہو۔ جبکہ وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہے کہ دن بدلنے کے ساتھ زندگی کا ورق پلٹ جاتا ہے۔ لیکن وہ اس سچائی کو نظر انداز کر زندگی سے لطف اندوز ہونے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ جبکہ وقت اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ہر گزے ہوئے دن، مہینے اور سال کا احتساب کیا جائے، تاکہ آگے آنے والا وقت بہتر بنایا جا سکے۔ اس لحاظ سے سال گزشتہ کا جائزہ لینا اور نئے سال کے امکانات پر بات کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔
بھارت کی معیشت 20-2021 میں جس پستی میں گئی تھی 2022 میں بھی اوپر نہیں اٹھ سکی۔ بڑھتی مہنگائی، گھٹتا روزگار، صنعتی روکاوٹیں، آمدنی اور جائیداد میں مسلسل بڑھتی نابرابری اس کی واضح علامات ہیں۔ سال کے زیادہ تر وقت میں افراط زر 7 فیصد سے اوپر رہا۔ صنعتی پیداوار گزشتہ سال کے دسمبر کے مقابلہ 4 فیصد کم رہی۔ پبلک سیکٹر یونٹوں کی نجکاری کی مہم اس سال بھی حکومت نے جاری رکھی۔ لائف انشورنس کارپوریشن کے آئی پی او سے اس وسیع بیمہ کمپنی میں حکومت کی حصہ کم ہو گئی۔ مرکزی حکومت ملک میں بجلی کی تقسیم کو پرائیویٹ کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں ایک بل بھی لائی ہے۔ اس سے بجلی تقسیم کرنے والی سرکاری کمپنیوں کو نقصان پہنچے گا۔ بڑے کارپوریٹس کے 10.01 لاکھ کروڑ روپے کے بینک قرضوں کو معاف کر دیا گیا۔ جبکہ معمولی قرض نا چکا پانے کی وجہ سے چھوٹے کسان خود کشی کر رہے ہیں۔ انکی جان بچانے کی طرف حکومت نے گزرے ہوئے سال میں بھی کوئی توجہ نہیں دی۔
سال 2022 نے یہ انکشاف کیا کہ اب صرف کسان خودکشی نہیں کرتا بلکہ خودکشی کے معاملہ میں بے روزگار اور دہاڑی مزدوروں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ سال کے آخر تک بے روزگاری کا آنکڑا پانچ کروڑ سے اوپر پہنچ گیا۔ نوکری چھننے کی وجہ سے پی ایف کا پیسہ نکالا جا رہا ہے۔ عام آدمی کا بجٹ ڈگمگا چکا ہے، جیب خالی ہے اور رسوئی سے سامان غائب ہو رہا ہے۔ دال، نون، روٹی کے لالے پڑ رہے ہیں۔ مگر دوسری طرف ملک کی کل دولت کا 40.6 فیصد حصہ ایک فیصد کے پاس ہے۔ جبکہ 2000 میں یہ صرف 32 فیصد تھا۔ اس کا اثر سماجی عدم مساوات کی چوڑی ہوتی کھائی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ مگر حکومت کی نظر میں سب چنگا سی۔ بھارت کی معیشت دنیا کے تمام ممالک سے بہتر ہے۔ خود وزیراعظم نریندرمودی نے ملک کو پانچ ٹرلین ڈالر کا خواب دکھایا تھا۔ مگر بجٹ میں وہ اس کا کوئی خاکہ پیش نہیں کر پائے۔ بس اتنا ہی کہہ سکے کہ اگلے 25 برس میں بھارت دنیا کا ڈولپ ملک ہو جائے گا۔ اس خواب میں کھوئے اڈانی نے کہا کہ 2050 تک بھارت نہ صرف ڈولپ ملک بن جائے گا بلکہ اس کی معیشت 30 ٹرلین ڈالر ہو جائے گی۔ امبانی نے آگے بڑھ کر اور بڑا دعویٰ کیا اور کہا کہ اگلے 25 برس یعنی 2047 تک بھارت کی معیشت 40 ٹرلین ڈالر کی ہو جائے گی۔
دعویٰ جو بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2022 نے گوتم اڈانی کو دنیا کا دوسرا سب سے امیر شخص بنا دیا ہے۔ جبکہ ہنگر انڈیکس میں بھارت 119 ممالک کی فہرست میں 107 ویں پائیدان پر ہے۔ جبکہ 13-2014 میں 56 ویں مقام پر تھا۔ ہمارے پڑوسی ممالک میں سری لنکا 64 ویں، نیپال81 اور پاکستان 99 ویں نمبر پر ہے۔ دنیا بھر میں 82 کروڑ لوگ غذائی قلت کے شکار ہیں ان میں سے 22 کروڑ بھارت میں رہتے ہیں۔ 80 کروڑ لوگ مفت راشن اسکیم پر منحصر ہیں۔ 8 لاکھ طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بھارت چھوڑ کر بیرون ممالک چلے گئے۔ گزشتہ سال میں حکومت 22000 سے زیادہ نوکریاں نہیں دے سکی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری تو دور خود ملک کے صنعت کار و کاروباری اپنے سرمایہ کے ساتھ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ تمام وعدے اور خواب ہوا ہو چکے ہیں۔ کسانوں کی آمدنی دوگنی نہیں ہوئی، بلکہ انہیں اپنی زمین اور زراعت بچانے کیلئے لئے کئی ماہ آندولن کرنا پڑا۔ جس میں کئی کسانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ بلٹ ٹرین چلنی تھی نہیں چلی، ہر شہری کا 2022 تک اپنا گھر ہوگا نہیں ہوا۔ بلکہ جن کے پاس سر چھپانے کا آسرا تھا بلڈوزر چلا کر انہیں بے گھر کیا گیا۔ ساتوں دن 24 گھنٹہ بجلی ملے گی نہیں ملی۔ خواتین کے خلاف جرائم نہیں رکے، بلکہ عصمت دری کے واقعات میں برسراقتدار جماعت سے تعلق رکھنے والے ملوث پائے گئے تو انہیں بچانے کی کوشش کی گئی یا پھر ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ 13 ہزار کروڑ روپے خرچ ہو گئے مگر گنگا صاف نہیں ہوئی۔ جن ممبران پارلیمنٹ نے گاو¿ں گود لئے تھے 90 فیصد نے گاؤں کی شکل تک نہیں دیکھی۔
یہ ایک ایسا سال بھی رہا جس میں ہندوتوا وادی طاقتوں کی جانب سے ریاست اور سیاست کو نئی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔ دھرم سنسد اور پنچایتوں میں کھلے عام مسلمانوں کو مارنے، کاٹنے کا حلف اٹھایا گیا اور قابل اعتراض نعرے لگائے گئے لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ تب بھی نہیں جب دہلی میں اور پارلیمنٹ کے ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے دائرے میں یہ نعرے لگے۔ رام نومی نئے بنائے گئے ہنومان جینتی جلوس جیسے مذہبی تہواروں کے دوران اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ ان حملوں کے خلاف مسلمانوں کے کسی بھی احتجاج کی وجہ سے ان کی گرفتاریاں ہوئیں۔ قانون کے غلط بلکہ غیر انسانی استعمال کے ذریعہ گھروں کو بلڈوزروں سے تہس نہس کر دیا گیا۔ ملک کے شہریوں کے کھانے پان، لباس، طرز معاش پر یلغار اور کمزور طبقات کو ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے بجائے انہیں سماج کے حاشیہ پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ کثرت میں وحدت کے تصور پر حملہ ہنوز جاری ہے۔ حد تو تب ہو گئی جب الیکشن جیتنے کے لئے بلقیس بانو کے مجرموں کو رہا کر 2002 کے فساد کو اپنا کارنامہ بتایا گیا۔ الیکشن کمیشن سمیت سرکار کی کسی بھی ایجنسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ نفرتی سیاست کی بنیاد پر بی جے پی اترپردیش، اتراکھنڈ اور گجرات میں اپنا اقتدار قائم رکھنے میں کامیاب رہی مگر دہلی اور ہماچل اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔
آزادی کا امرت مہتسو یعنی 75 ویں سالگرہ ’نیو انڈیا‘ کے لئے استعمال کیا گیا۔ جو ہندو اکثریتی ریاست کے تصور کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ملک کے سیکولر و وفاقی ڈھانچے اور ریاستوں کے حقوق پر حملہ کیا گیا۔ اس سے ملک کے تکثیری تانے بانے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ غیر بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کے گورنر بے شرمی سے ایسے معاملات میں مداخلت کرتے رہے جو ریاستی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے تھے۔ منتخب حکومت کو جان بوجھ کر غیر مستحکم کیا گیا یا پھر برسراقتدار جماعت کو توڑ کر بی جے پی نے اپنی سرکار بنا لی۔ مہاراشٹر کی شیوسینا سرکار اس کی مثال ہے۔ لیکن بہار میں مشن لوٹس کامیاب نہیں ہوا اور بغیر ٹوٹ پھوٹ کے بھاجپا اقتدار سے بے دخل ہو گئی۔ اس دور میں سپریم کورٹ کے فیصلے، انتخابی کمشنروں کی تقرری، سی وی سی، سی ڈبلیو جی کا کام، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، ڈالر کے مقابلہ روپے کا گرنا اور ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ پر سی بی آئی اور ای ڈی کے چھاپے قابل ذکر ہیں۔ البتہ اس دور کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ وسیع ٹیکہ کاری مہم نے ملک کو کووڈ -19 سے بچا لیا۔
فلم میں ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب سامع دم بخود ہو کر یہ سوچتا ہے کہ بہت ہو گیا اب کوئی آئے جو اس صورتحال کو تبدیل کرے۔ 2022 نے یہی تاثر پیدا کیا، انہیں حالات میں کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا شروع ہوئی۔ جو نفرت کی جگہ محبت کا پیغام دے رہی ہے۔ اس میں مہنگائی، بے روزگاری، عدم مساوات، غربت اور عام آدمی سے جڑے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اقتدار کے ذریعہ آئینی اداروں کے ہاتھ باندھے اور میڈیا پر کارپوریٹ کے قبضہ کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ کثرت میں وحدت یعنی سماجی اتحاد کو توڑنے کی کوششوں کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ یاترا کے ذریعہ ایسی سیاسی بساط بچھنے والی جو منڈل، کمنڈل، ہندوتوا، او بی سی کے ذریعہ سادھی جانے والی سیاست کو بدل دے۔ 2023 یہ بتا دے گا کہ ملک کی سیاست روایتی طور پر چلے گی یا یہ بدل جائے گی۔ باتیں، وعدے، نعرے، خواب قومی سیاست کے مرکز میں ہوں گے یا بنیادی سوال۔ سیاست بدلتی ہے تو یہی اس سال کا نیا اور مثبت پیغام ہوگا۔