فاروق تانترے
سرینگر ،سماج نیوز سروس:جموں و کشمیر کی زمین، روزگار، تعلیم، دریائوں، جنگلات او ردیگر وسائل پر حق صرف ایک کروڑ40لاکھ لوگوں کا تھا لیکن 5اگست2019کو ہمارے حقوق جبری طور پر چھین کر ایک ارب 40کروڑ لوگوں کو یہ حقوق دیئے گئے اور بی جے پی موجودہ انتخابات میں کسی طرح سے حکومت میں آکر یہاں کی اسمبلی سے اپنے ان کارناموں پر مہر ثبت کرنا چاہتی ہے۔تفصیلات کے مطابق ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے آج چنائوی مہم جاری رکھتے ہوئے ٹنگمرگ، لولاب اور کپوارہ میں بھاری چنائوی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پروگراموں کا انعقاد پارٹی اُمیدواروں فاروق احمد شاہ، قیصر جمشید لون اور ناصر اسلم وانی نے بالترتیب کیا تھا۔ اُن کے ہمراہ رکن پارلیمان آغا سید روح اللہ مہدی، ٹریجرر شمی اوبرائے، ایڈوکیٹ شوکت احمد میر اور دیگر عہدیداران بھی تھے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ جموںوکشمیر میں اسمبلی انتخابات 10سال بعد ہورہے ہیں اور ان 10برسوں میں بہت کچھ بدلا، ہم سے بہت کچھ چھینا گیا، ہمارا وقار، ہماری عزت، ہماری پہچان ہم سے چھینی گئی۔ 10سے پہلے جب اسمبلی کے انتخابات تھے تب ہمارا اپنا جھنڈا تھا، ہمارا اپنا آئین تھا، لداخ ہمارا حصہ تھا، ہماری اپنی ریاست تھی، ریاست میں اپنی زمین کا حق تھا، اپنے روزگار کا حق تھا، دریائوں، پہاڑوں اور جنگلات پر حق تھا۔ لیکن پی ڈی پی نے یہاں بھاجپا کیلئے دروازے کھول دیئے اور بالآخر 5اگست2019کو ایک کروڑ 40لاکھ لوگوں کے حقوق چھین کر ایک 1ارب40کروڑ لوگوں کو دیئے گئے اور اس کے بدلے یہاں کے عوام کو کچھ نہیں ملا۔ تباہی بربادی، بے روزگاری، مایوسی کے سوا یہاں کے لوگوں نے کچھ نہیں دیکھا۔ گذشہ10سال جموں وکشمیر کے عوام پر بہت بھاری پڑے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ آج ہماری آواز کو تقسیم اور بے وزن کرنے کیلئے بھاجپا اپنا پورا زور لگا رہی ہے۔ پارلیمانی الیکشن میں شمالی کشمیر کے لوگوں سے جذبات کی بنیاد پر ووٹ مانگے گئے اور لوگوں نے جذباتی ہوکر ووٹ دیئے،یہ بات الگ ہے کہ اُن کے ووٹوں سے انجینئر رشید جیت تو گیا لیکن اُسے رہائی نہیں ملی، آج شمالی کشمیر کے لوگ سرینگر کے ممبر پارلیمنٹ اور اننت ناگ کے ممبر پارلیمنٹ کی پارلیمنٹ میں تقریریں سُن تالیاں بجاتے ہیں لیکن اُن کا ممبرپارلیمنٹ ایوان میں نہیں جاسکتاہے۔ انہوں نے شمالی کشمیر کے لوگوں سے مخاطب ہوئے ہوئے کہا کہ اُس وقت بھاجپا کی سازش تو کامیاب ہوگئی، لیکن آپ کو زیادہ نقصان نہیں ہوا، بس آپ کی آوازپارلیمنٹ تک نہیں پہنچ پائی لیکن اگر موجودہ الیکشن میں بھاجپا کی تقسیمی سازش کامیاب ہوئی تو اس کا نقصان نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کی آنے والے نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ انجینئر رشید کو جنوبی کشمیر کی نمائندگی کرنے کیلئے نہیں بلکہ 20دن کیلئے صرف اس لئے چھوڑا گیا ہے تاکہ ہو یہاں کے لوگوں کے ووٹ تقسیم کرسکے، پہلی تاریخ کو یہاں ووٹ ڈالے جائیں گے اور اگلے روز وہ واپس چلا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جس ایف آر آئی میں رشید کو گرفتار کیا گیا ہے اُسی ایف آئی آر میں یاسین ملک، شبیر شاہ، مسرت عام اور آسیہ اندرابی صاحبہ کا نام بھی شامل ہے، پھر باقی لوگوں کو باہر آنے کی اجازت کیوں نہیں؟یہ سوچنے والی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ انجینئر رشید کہتا ہے کہ وہ حریت کی آواز بننے اور یاسین ملک کو پھانسی سے بچانے کی باتیں کرتا ہے لیکن دوسری جانب اُس شخص کے ساتھ بغلگیر ہوتا ہے جس نے حریت کے دفتر سے بورڈ اُتار کر اُسے نذرِ آتش کر ڈالا اور جو لالچوک کے بیچوں بیچ یاسین ملک کی پھانسی کا مطالبہ کرتاہے۔ اب ہم انجینئر رشید کے کہنے پر جائیں یا کرنے پر جائیںکیونکہ عملی طور پر وہ سب کچھ اُس کے برعکس کررہا ہے جو وہ کہہ رہا ہے۔ ایک طرف انجینئر رشید کہتا ہے کہ وہ مودی کے نیا کشمیر ماڈل کا مخالف ہے جبکہ دوسری جانب سوناواری ،بیروہ اور دیگر حلقہ انتخابوں میں ایسے اُمیدوار کو میدان میں اُتارتا ہے، جن کے سرپر بی جے پی کا ہاتھ ہے اور جو گذشتہ5سال سے یہاں مودی کا ایجنڈا چلا رہے ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ حیران کن طو رپر انجینئر رشید نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اُسے جولائی2018میں ہی مودی نے اپنے گھر بلا کر ایک گھنٹے بیس منٹ کی ملاقات کے دوران کہاکہ جموں و کشمیر سے دفعہ370ہٹانا چاہتے ہیں اور ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے اور انجینئر رشید انٹرویو میں صاف کہتے ہیں کہ ’’جموں وکشمیر کیلئے جو اچھا آپ کریں گے میں اُس کیساتھ ہوں‘‘۔ رشید سے میرا سوال ہے کہ آپ کو معلوم تھا تو آپ نے کسی سے یہ بات کیوں نہیں کہی؟ کسی تقریر میں اس بات کا ذکر کیوں نہیں کیا؟کم از کم ایک وکیل کے ذریعے سپریم کورٹ میں حکم امتناع لانے کی کوشش ہی کی ہوتی ، ممکن ہے سپریم کورٹ حکومت کو ایسا کرنے سے روکتی، آپ خاموش کیوں رہے؟عمر عبداللہ نے جنوبی کشمیر کے ووٹروں سے اپیل کی کہ اس بات غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، اسمبلی انتخابات میں ووٹ کا تعلق براہ راست آنے والی نسلوں سے ہے، اگر خدا نہ خواستہ ووٹ کا غلط استعمال ہو اتو اس ریاست کا مستقبل مخدوش ہوجائے گا۔