ایام و لیالی کی یہ تبدیلی، ہر روز شمس و قمر کا طلوع و غروب ہوتے دیکھنا، ماحول کا اس طرح سرد و گرم ہونا کہ کبھی تو تن پر کپڑے بوجھ محسوس ہونے لگیں اور کبھی ننگے اجسام ان کپڑوں ہی کو ترسنے لگ جائیں، کھیت جنگل کا کبھی اس طرح سوکھ جانا کہ کسان کو اپنا اصل سرمایہ بھی ختم ہو جانے کا غم کھا جائے اور کبھی اس طرح لہرانا کہ کاشتکار کا دل بلیوں اچھلنے لگے، اسی طرح بارش کا کسی برس اتنی کم مقدار میں ہونا کہ بعض ممالک غذائیت اور اشیاء خوردنی کی کمی کے شکار ہو کر رہ جائیں اور کسی سال اتنی کثرت کے ساتھ ہونا کہ بارش کی زیادتی سیلاب و طوفان کی شکل اختیار کر لے اور ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے اور خطے کے باشندے ہو کر رہ جائیں؛ گویا ان امور کو دیکھ کر بے ساختہ زبان پر یہ آنے لگتا ہےکہ: یہ دنیا رنج و غم اور خوشی و بہار کی آماجگاہ ہے، جس کا بدلتا ہر لمحہ انسان کو اس کی زندگی کی حقیقت سے روشناس اور قدرت کے مناظر کو ادراک کرنے کا بہترین مواقع فراہم کرتا ہے، ساتھ ہی اس کی زندگی کے یہ سب مواقع اسے اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ: "جس طرح کائنات کی کوئی رت، کوئی موسم اور باغ و بہار کے ایام یکساں اور مسلسل نہیں رہتے، ٹھیک ویسے ہی دنیا کی تمہاری یہ زندگی ہمیشہ اور دائمی نہیں ہے؛ اس زندگی کو ایک دن ختم ہو جانا ہے؛ کیوں کہ اس دنیا کا مقدر ہی فنا ہو جانا ہے۔ اور اس بات کا مشاہدہ و تجربہ ہم میں سے ہر شخص اس دن سے کر رہا ہے، جس دن سے قدرت نے اسے احساس و شعور کی دولت سے نوازا ہے اور وہ اپنی عمر رفتہ کے ساتھ ساتھ اس فانی دنیا سے دور اور ابدی دنیا کو قریب تر ہوتے دیکھ رہا ہے۔ جسے ہم بارہ ماہ کے گزرنے پر ایک نئے سال کے بدلنے کا عنوان دیتے ہیں، جسے دنیا کے ہوس پرست اور عیش کوشی کے عادی نیو ائر سے منسوب کرتے ہیں، جسے صاحب ثروت اور اہل مال سال نو پر گفٹ کارڈ کی تقسیم اور گھر آفس میں پرانے کیلینڈر کی جگہ نئے کیلینڈر کی تبدیلی کے دن سے تعبیر کرتے ہیں؛ حالانکہ انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کیلینڈر کے بدلنے سے اور کوئی بھی گفٹ آئیٹم تقسیم کرنے سے زندگی بدلنے والی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے یہ کام کرنے اور نہ کرنے سے موسم و ماحول میں کوئی خوشگوار تبدیلی رونما ہونے والی ہے؟ ہاں اگر تبدیلی رونما ہوگی اور زندگی کی بساط الٹےگی تو وہ ہمارے اعمال و افعال اور اخلاق و کردار کی خوشبو سے رونما ہوگی، سماج کے دبے کچلے اور کمزور و بے سہارا افراد کی سسکیوں کا مداوا کرنے اور ضرورت مندوں کی ضروریات کو بروقت پورا کرنے سے حقیقی تبدیلی واقع ہوگی۔ باقی رہا ماہ و سال کا تبدیل ہونا یا ایک موسم کے بعد دوسرے نئے موسم کا آنا اور اس سے ہمارا واسطہ پڑنا تو یہ سب امور تو دراصل تکوینی طور پر انجام دئے جاتے ہیں اور جب تک یہ دنیا آباد ہے، ایسا ہوتا ہی رہےگا۔ تاکہ مخلوق خدا پر اس ترمیم و تبدیلی سے ایک تو قدرت الہی کے مظاہر و مناظر واضح ہوتے رہیں، دوسرے ان سب امور سے جو اصل مقصود ہے، لوگ ان سے بھی فائدہ اٹھا کر اور ان میں غور و فکر سے کام لے کر خود کو "اولوالالباب” یعنی محقق و دانشور کہلا سکیں، جیسا کہ قرآن کریم کی سورہ آل عمران، آیت 190/191 میں ارشاد فرمایا گیا ہے:”بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کی گردش میں عقل والوں کےلیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر (لیٹ کر) اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور آسمان و زمین کی پیدائش کے سلسلے میں تدبر و تفکر کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ: "اے ہمارے پروردگار! آپ نے ان کو یوں ہی (بےکار و لغو) پیدا نہیں کیا، تیری ذات بڑی عالی شان ہے، بس تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے”۔
قرآن حکیم کا یہ فرمان؛ جس میں زمین و آسمان کی پیدائش اور رات و دن کی گردش و تبدیلی کا ذکر کیا گیا ہے، اس میں عقل و فہم والوں کےلیے بڑی نشانیاں بتائی گئی ہیں، اور ان نشانیوں میں تدبر و تفکر وہی شخص کرےگا جس نے اپنے آغاز و انجام پر غور کر رکھا ہو اور آغاز و انجام پر غور اس نے کیا ہوگا جس کی جھولی عقیدۂ توحید و عقیدۂ آخرت کی دولت سے لبریز ہوگی، بصورت دیگر نہ جانے کتنے ہر روز اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں؛ رخصت پذیر ہونے والی شخصیات کا تعلق محققین و مبصرین سے ہو یا سائنس و ٹیکنولوجی کے ماہرین اور سیاست و معیشت کو ایک نئی رفتار دینے والوں سے، مگر ان کی جھولیاں بنیادی عقائد اور ایمانی حرارت سے خالی ہوتی ہیں، اور ان کی جھولیوں کا اس دولت سے خالی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے اپنے آغاز و انجام پر کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔الغرض! بات چلی تھی ماہ و سال کی تبدیلی اور موسم و ماحول میں وقفہ وقفہ سے ہونے والی ترمیم سے، تو یہاں یہ بات ذہن نشیں کر لی جائے کہ ماہ و سال کی یہ تبدیلی اور موسم و ماحول کی یہ پیش رفت در حقیقت نظام دنیا کو باسانی چلانے اور اپنے امور سے بروقت فراغت پانے کے واسطے ہے، جس کےلیے دو قسم کی تقویم اور کیلینڈر رائج و عام ہیں:
(۱) قمری تقویم (جس کو ہجری سال سے تعبیر کیا جاتا ہے)
(۲) شمسی تقویم (جس کو عیسوی سال سے منسوب کیا جاتا ہے) اور دونوں ہی تقویموں کا بیان و ثبوت قرآن و حدیث سے ہوتا ہے، اول الذکر تقویم کا آغاز و افتتاح ماہ محرم الحرام سے ہوتا ہے اور اختتام و انتہا ذی الحجہ پر؛ جب کہ ثانی الذکر کا آغاز جنوری سے شروع ہو کر ماہ دسمبر پر اس کا اختتام ہو جاتا ہے۔ ماہ و سال کا یہ افتتاح و اختتام جہاں ہم لوگوں کےلیے باعث خوشی و مسرت تصور کیا جاتا ہے، اس سے کہیں زیادہ عبرت و نصیحت کا مقام رکھتا ہے؛ کیوں کہ سال کا پورا ہونا دراصل ہماری متعینہ عمر میں سے ایک سال کو مزید کم کر دیتا ہے، ہمیں اس دنیا اور دنیا کی اس زندگی سے دور اور ہمیں اپنی موت اور قبر کی زندگی سے قریب کر دیتا ہے۔ یہ دنیا جس کی رنگینی اور چمک دمک نے ہر شخص کو اندھا اور بہرہ کر رکھا ہے، اور اپنے عیش و عشرت کے واسطے زیادہ سے زیادہ مال و متاع اکٹھا کرنے اور دونوں ہاتھوں سے اسے بٹورنے میں لگا ہوا ہے، اور مال کے اس حصول میں وہ اس بات کو بھی سرے سے فراموش کیے ہوئے ہے کہ:
یہ دنیا اور یہاں کی یہ رہائش اس کی چند روزہ نہیں؛ بلکہ دائمی اور ہمیشہ ساتھ رہنے والی ہے، اسے اس بات کا بھی چنداں خیال و احساس نہیں کہ یہاں جو بھی آیا ہے، اسے ایک دن یہاں سے جانا ہے، اور جیسے خالی ہاتھ آیا تھا، ویسے ہی خالی ہاتھ جانا ہے، اور یہاں میری طرف سے کی جانے والی ہر ایک کد و کاوش اور شب و روز کی بھاگ دوڑ اس وقت سکوت و بےوقعت ہوکر رہ جائےگی، جس وقت میری آنکھیں بند ہو جائیں گی اور میرا یہ چست و توانا بدن لاغر و نحیف اور بےجان لاشے کی شکل اختیار کر لےگا۔ آج میں اپنے جن عزیز و اقارب کو راضی کرنے اور اپنے اہل خانہ کی خوشی و مسرت کی خاطر اس بےوفا دنیا کے حصول میں اپنے رب کو فراموش اور اپنی اخروی زندگی کو ذہن و دماغ سے خارج کیے ہوئے ہوں، ان میں سے کوئی ایک بھی شئی آخرت کی مشکلات کو حل کرنے اور وہاں کے دشوار گزار مراحل کو عبور کرنے میں میرے کام آنے والی نہ ہوگی یا کوئی بھی ایک فرد اور میرا عزیز وہاں پہنچنے والی تکالیف کو کم کرنے میں میری مدد کرنے والا نہ ہوگا، وہاں تو جواب دہی کے معاملے کو صرف اور صرف مجھے ہی سمجھنا ہوگا اور مجھی کو وہاں کی ہر سزا و جزا کا مستحق ٹھہرا جائےگا”۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ہر وقت اور ہر دن اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں، ہر ایک کی موت کا ایک دن متعین ہے، کسی کی موت خوشی و مسرت اور رنج و الم سے ملحق و متصف نہیں ہے؛ بلکہ ہر آن وہ ہمارے سروں پہ منڈلاتی اور تعاقب میں لگی رہتی ہے اور زندگی سنوارنے کے واسطے مہلت دیتی رہتی ہے، قبل اس کے کہ ہمارا محاسبہ اور مواخذہ ہو ہم خود ہی اپنا محاسبہ اور فکر کرنے والے ہو جائیں؛ تاکہ یر قسم کی ذلت و رسوائی اور شرمندگی سے بچا لئے جائیں۔