نئی دہلی:سابق مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کے رحمن نے الزام لگایا کہ وقف املاک کے تئیں مرکزی حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے ۔ آج یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رحمن خان نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ وقف ڈیولپمنٹ کارپوریشن کو ختم کیا جارہا ہے ۔ یہ کا رپوریشن وقف املاک کو ترقی دینے کے لئے ان کے دور وزارت میں قائم کی گئی تھی۔ دہلی کی 123 وقف املاک کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے کہا کہ دہلی وقف بورڈ کو اس کے لیے پوری مستعدی سے کام کرنا چاہیے ۔ انہوں نے دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا جس میں انہوں نے کہاکہ تھا کہ کانگریس نے ان جائیدادوں کے سلسلے میں مسلمانوں سے دھوکہ کیاہے ۔رحمن خان نے کہا کہ دہلی وقف بورڈ کے سربراہ حقائق سے بے خبر ہیں انہیں تمام چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے ۔123وقف املاک کے بارے میں انہوں نے تفصیل سے سلسلہ واقعات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسوقت کی برٹش گورنمنٹ نے نیا دارالحکومت تعمیر کرنے کی غرض سے 1911میں بہت ساری وقف املاک کو اپنے تصرف لیا تھا ان میں سے بہت سی املاک کو دہلی وقف بورڈ کو واپس کرنے کی غرض سے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور حکومت میں اس وقت کے ہوم سیکرٹری ایم ایچ برنی کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے دوسو زیادہ املاک کی نشاندھی کی تھی ۔ بعد ازاں ایچ کے ایل بھگت کمیٹی نے 123املاک دہلی وقف بورڈ کو واپس دینے کی سفارش کی تھی۔ انہوں نے کہاکہ یہ جائیدادوں کو ایک روپیہ پٹہ پر دائیمی طور وقف بورڈ کو دینے کا فیصلہ ہوا تھا کہ اچانک اندر پرست وشو ہندو پریشد کے نام سے ایک تنظیم نمودار ہوئی اور اس نے اس فیصلہ کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا اور کہا کہ وہ ان جائیدادوں کے لئے زیادہ پیسہ دینے کے لیے تیار ہے ۔ معاملہ طول پکڑتاگیا۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ اقلیتی امور کے وزیر بنے تو انہوں نے ترجیحی بنیاد پر اس معاملہ کو لیا اور ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جس نے بتایا کہ ان وقف املاک کا کوئی معاوضہ دینے کا ریکارڈ نہیں ہے اس لیے انہیں بلا تردد دہلی وقف بورڈ کو دیا جائے ۔ چنانچہ یو پی اے کی حکومت نے ان جائیدادوں کو ڈی نوٹی فائی کرنے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس نوٹیفیکشن کا اجراء اس دن ہوا جب پارلیمانی انتخابات کا اعلان کیا گیا ۔ اور ضابط اخلاق کو بنیاد بنا کر اس کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیاگیا ۔ انہوں نے دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین کے اس بیان کو غلط بتایا کہ یہ املاک پٹہ پر نہیں دی گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی وقف املاک کے تئیں منشا صحیح نہیں ہے ۔ وہ ان جائیدادوں کو واپس نہیں لے سکتی ۔انہوں نے کہا کہ اس کے لیے اسے پھر سے پورے ضوابط پر عمل کرنا ہوگا۔ سابق مرکزی وزیر نے کہا کہ دہلی وقف بورڈ کو چاہیے کہ وہ اس معاملہ کی پیروی اچھے انداز سے کرے ۔وقف ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے بارے میں کہا کہ اسے عضو معطل بناکر رکھ دیا گیا ہے ۔اسے اب بند کرنے کو شش کی جارہی ہے ۔ جبکہ پچھلے نو سال میں ایک وقف املاک کو بھی ڈیولپ نہیں کیاگیا ۔ انہوں نے اقلیتی امور کے بجٹ میں مسلسل کٹوتی پر بھی تشویش کا اظہار کیا ۔ اور کہا کہ یو پی اے کے دور حکومت میں اس کا بجٹ پانچ ہزار کروڑ تھا جو اب کم ازکم دس ہزار کروڑ روپیے ہوناچاہیے تھا۔انہوں نے کہاکہ ایک خاص سیکشن کو خوش کرنے کے لئے اقلیتی اسکیمو ں ختم یا کمزور کیا جا رہا ہے ۔