ناظم منصوری
مرادآباد، سماج نیوز سروس:مرادآباد کے تاریخی ادارے ہیوٹ مسلم انٹر کالج کے مسٹن ہال میںمرکزاُردوادب و تحقیق مرادآباد کے زیر اہتمام ڈاکٹر محمد آصف حسین کی برسوں کی محنت کے بعد ۱۸۵۷ء میں انگریزوں سے لوہالینے والے معروف مجاہد آزادی اور بے مثل عاشق رسول حضرت مولاناکفایت علی کاؔفی کے نعتیہ دیوان’دیوانِ کافی ‘کا اجراپدم شری اخترالواسع کے بدست عمل میں آیا۔تقریب کاآغازمفتی محمد اویس نعیمی کی تلاوت سے ہوا، نعت خواں فرحان راشد نے بارگاہِ سرورِ کونین میں مولاناکافی مرادآبادی کی نعت پیش کی۔بعدہ نوجوان شاعر فرحت علی انجینئر نے کتاب اور اُس کے مرتب کا تعارف اور مفتی محمد معز عالم نعیمی نے مولاناکافی مرادآبادی کی شاعرانہ عظمت پر روشنی ڈالی۔کتاب کے مرتب ڈاکٹر محمد آصف حسین نے مہمانوں کااستقبال کرتے ہوئے کتاب کے سلسلے میں پیش آنے والی دشواریوں اور خوش گواریوں کاذکرتے ہوئے بتایا کہ اُنھوںنے پچھلے دس سال کی تلاش وتحقیق کے بعد مولاناکافی کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے چار کتابیں مرتب کی ہیں ۔زیراجرا’دیوان کافی‘اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے بقیہ تین کتابیں عنقریب منظر عام پر آئیں گی۔تقریب کے سرپرست انجینئر حیات النبی خاں نے کہاکہ اپنے اکابر واسلاف کے کارناموں کو یادرکھنانئی نسل کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے لیے اُن کی حیات وخدمات کے تعلق سے مواد کا مہیّاہوناضروری ہے اور اس کام کو ڈاکٹر محمد آصف حسین بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔صدارت کرتے ہوئے معروف شاعر منصور عثمانی نے کہاکہ تحقیق ایک چٹیل اور بنجر میدان ہے ،اُس کو نام و نمود سے دُور رہ کر نخلستان بناناہر کسی کے بس کی بات نہیں سوائے اس کے جسے اللہ توفیق عطافرمائے ۔خوشی ہے کہ یہ توفیق ڈاکٹر محمد آصف حسین کو میسر ہوئی۔مہمان خصوصی پدم شری پروفیسر اخترالواسع نے کہاکہ میں نے دیوان کا مطالعہ کیااور یہ پایاکہ تدوین وتصحیح متن جیسااہم اور مشکل ترین کام ڈاکٹر محمد آصف حسین نے جدیداصول و نظریات کے روشنی میں انجام دے کے مولاناکافی مرادآبادی کے دیوان کو جس سلیقے اور قرینے سے ڈاکٹر محمد آصف حسین نے پیش کیاہے ،وہ انھیں کا حصہ تھا،ورنہ اب تک کئی لوگوں نے یہ کام کرنے کا دعویٰ کیالیکن تکمیل کو نہیں پہنچ سکے۔خوشی کی بات ہے کہ یہ سعادت بھی حضرت کافی کے ہم وطن کوہی میسر ہوئی۔اُنھوںنے یہ بھی کہاکہ اگر ان جیسے تذکرہ نگار موجود نہ ہوں تو ہم میں سے اکثراپنی زبان و ادب کی مہتم بالشان روایات سے بیگانہ رہ جائیں گے۔جامعہ ملیہ کے سابق اسسٹنٹ رجسٹرار افضال الرحمٰن صاحب نے کہاکہ ڈاکٹر آصف نے جس نہج پر یہ کام کیاہے وہ بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں بھی نہیں ہورہاہے ۔ معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے کہاکہ ڈاکٹر محمد آصف حسین کامزاج تحقیقی ہے وہ اس وقت تک اپنے قلم سے کوئی جملہ نہیں لکھتے کہ جب تک اُست تحقیق وتنقیدکی کسوٹی پر پرکھ نہیں لیتے۔یہی خوبی اُنھیں معتبر مصنفین کی فہرست میں شامل کرتی ہے ۔صدرشعبۂ اُردو ایم جی ایم کالج سنبھل ڈاکٹر عابد حسین حیدری نے کہاکہ ڈاکٹر محمد آصف حسین کے قائم کردہ مرکزاُردوادب و تحقیق کی لائبریری میں موجود نادر وکمیاب کتب ان کے ذوقِ تحقیق کاثبوت ہیں جن سے استفادے کا موقع مجھے ملتارہتاہے۔مرادآباد کے ادب پر اگر کوئی مستند حوالہ درکار ہوتو آپ ان کی اکمل میموریل لائبریری سے ا ستفادہ کرسکتے ہیں۔صدرشعبۂ اُردوایم ایچ کالج مرادآبادڈاکٹر عبدالرب صاحب نے کہاکہ دیوانِ کافی کاٹائٹل ہی یہ ظاہر کررہا ہے کہ حضرت کافی مرادآبادی کی مطبوعہ کتب کے علاوہ غیر مطبوعہ کتب و مخطوطات تک بھی ڈاکٹر آصف نے رسائی حاصل کرنے کے بعد ہی یہ گراں قدر تحقیقی وتدوینی کارنامہ انجام دیا ہے۔امروہہ کے معروف محقق وعالم ادبیات فارسی ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی نے ڈاکٹر محمد آصف حسین کی کوشش کو سراہنے کے ساتھ ساتھ فارسی غزلوں میں سہوکتابت یاعدم معلومات کی وجہ سے در آئی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سیر حاصل مقالہ پیش کیا۔تقریب کی نظامت کے فرائض اُترپردیش اُردو اکادمی کے سابق رکن معروف صحافی سیّد محمد ہاشم قدوسی نے بحسن و خوبی انجام دیے ۔اس موقع پر راحت مولائی میموریل کمیٹی کی جانب سے پروگرام کے کنوینر اسدمولائی نے ڈاکٹر محمد آصف حسین کو سپاس نامہ پیش کیااور اعزاز سے نوازا۔حاشی اشرف علی نے ایکٹو پریس کلب کی طرف سے مومنٹو پیش کیااور شال اوڑھاکر حوصلہ افزائی فرمائی۔ڈاکٹر مجاہد فرازؔنے گیت غزل سوسائٹی کی طرف سے اعزاز پیش کیا۔تقریب کے اختتام پر زاہد پرویز صدیقی اور مفتی دانش قادری نے سبھی مہمانوں کا شکریہ اداکیااور مرکز اردوادب وتحقیق کی جانب سے سبھی مہمانوں کی خدمت میں نشانِ یادگار پیش کیے۔ سیّدیوسف علی قدوسی، ضیاضمیر ایڈوکیٹ، تنویر جمال عثمانی ، مفتی فیض عالم نعیمی ،شارق عثمانی ، ، ماسٹر رئیس احمد،مفتی محمد ہارون نعیمی، زبیر اسماعیلی محمد سرور حسین اور علی سعدتقریب کے انتظام وانصرام میں شریک رہے۔تقریب کے شرکاء میں مسلم کالج کے منیجر مفتی محمداعظم، ساہتیک مرادآبادکے بانی ڈاکٹر منوج رستوگی، مسرت حفیظ ایڈووکیٹ، ڈاکٹر تہذیب ریاضی، اسلام عرشی، احسان عباسی ، مرزاارشد بیگ،ماسٹر محمد مز مل ،چھوٹے نواب معظم علی ،راحد علی قدوسی، قاسم مرادآبادی،محمد عدنان وغیرہ موجود رہے۔