فرانس :فرانس کے وزیرِ خارجہ نے بدھ کو کہا کہ شام پر یورپی یونین کی پابندیاں تیزی سے ہٹائی جا سکتی ہیں جو انسانی امداد کی فراہمی اور ملک کی بحالی میں حائل ہیں۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد انسانی امداد کی روانی بہتر کرنے کی کوشش میں امریکہ نے پیر کو چھے ماہ کے لیے ملک کے حکومتی اداروں سے لین دین کے لیے پابندیوں سے استثنیٰ جاری کیا۔
فرانس انٹر ریڈیو سے بات کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ ژاں نول باروٹ نے کوئی قطعی وقت بتائے بغیر کہا، یورپی یونین بھی جلد ہی ایسا ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔نیز انہوں نے کہا کہ مزید سیاسی پابندیاں اٹھانے کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ شام کی نئی قیادت اقتدار کی منتقلی کو کیسے سنبھالے گی اور شامی عوام کی شمولیت کو کیسے یقینی بنائے گی۔
جرمن وزیرِ خارجہ کے ہمراہ جمعے کو شام کے ڈی فیکٹو لیڈر احمد الشرع سے ملاقات کرنے والے باروٹ نے کہا، "ایسی دیگر (پابندیاں) ہیں جو آج انسانی امداد تک رسائی اور ملک کی بحالی میں حائل ہیں۔ یہ فوری طور پر اٹھائی جا سکتی ہیں۔آخر میں اور بھی پابندیاں ہیں جن پر ہم اپنے یورپی شراکت داروں کے ساتھ بات کر رہے ہیں اور انہیں ہٹایا جا سکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ اس پر منحصر ہے کہ شام کے لیے خواتین اور سلامتی کے حوالے سے ہماری توقعات کس رفتار سے پوری ہوتی ہیں۔”
تین یورپی سفارت کاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یورپی یونین 27 جنوری کو برسلز میں بلاک کے 27 وزرائے خارجہ کے اجلاس تک بعض پابندیاں ہٹانے پر رضامندی کی کوشش کرے گی۔
دو سفارت کاروں نے کہا، ایک مقصد مالیاتی لین دین میں سہولت فراہم کرنا تاکہ ملک میں رقوم واپس آئیں، ہوائی نقل و حمل میں آسانی ہو اور بجلی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے توانائی کے شعبے پر سے پابندیاں کم کی جائیں۔
شام کو بجلی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور زیادہ تر علاقوں میں سرکاری بجلی روزانہ صرف دو یا تین گھنٹے دستیاب ہوتی ہے۔ نگراں حکومت نے کہا ہے کہ اس کا مقصد دو ماہ کے اندر روزانہ آٹھ گھنٹے تک بجلی فراہم کرنا ہے۔
امریکی رعایت سے سات جولائی تک شام کو توانائی کے کچھ لین دین اور ذاتی ترسیلات کی اجازت مل گئی ہے لیکن یہ کوئی پابندی نہیں ہٹاتی۔