رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینے میں بعض ایسی بدعتیں رواج پاچکی ہیں، جو دن بدن پھیلتی جارہی ہیں۔ انہیں بدعات میں ’’جمعۃ الوداع‘‘ بھی ہے، جو رمضان کے آخری ہفتے میں تزک واحتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ عوامی زبان میں جمعۃ الوداع رمضان المبارک کے آخری جمعے کو کہتے ہیں، چونکہ رمضان خیر وبرکت کا مہینہ ہے ، اس لئے مسلمان اس کو اس اہتمام سے رخصت کرتے ہیں جیسے کوئی اپنے عزیز مہمان کو الوداع کہتا ہے۔ ماہِ رمضان کے اس آخری جمعہ کو زیادہ سے زیادہ افراد نماز جمعہ ادا کرتے ہیں اور اس روز عید کاسا سماں ہوتا ہے۔قارئین حضرات! جمعہ کی اہمیت وفضیلت سے کسی بھی صاحب ایمان کو انکار نہیںہے۔ بلاشبہ یوم جمعہ بابرکت اور ہفتے کے دنوں میں سب سے بہتر دن ہے۔ حدیث شریف میں اس کی فضیلت بایںالفاظ وارد ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا :سب سے بہتر دن جس پر سورج طلو ع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن اللہ نے آدمؑ کو پیدا کیا ، اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے، اسی دن جنت سے نکالے گئے اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔(صحیح مسلم ، موطا امام مالک ، سنن ابی دائود، جامع الترمذی) نیز حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے اللہ کے رسولؐنے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن ایک وقت ایسا ہے کہ اگر مومن بندہ اسے پالے تو اس میں جو بھی دعا کرے قبول ہوگی(حوالہ مذکور) ۔یہ ساری روایتیں بالعموم سال کے ساتھ ایام جمعہ کی اہمیت وفضیلت کو محیط ہیں، لیکن وہ جمعے جو رمضان مبارک کے مہینے میں آتے ہیں، رمضان کی اہمیت وفضیلت کی وجہ سے ان کی اہمیت اور دو چند ہوجاتی ہے، پھر وہ جمعہ جو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں پڑے تو رمضان کے آخری عشرے کی اہمیت وفضیلت کی وجہ سے وہ اور زیادہ اہم ہے، رمضان کا آخری عشرہ ان ایام میں سے ہے جن میں اللہ کے رسولؐ کثرت سے عبادات واطاعات کا اہتمام کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ : جب رمضان کا آخری عشرہ آجاتا تھا تو آپ اپنی بیویوں سے کنارہ کش ہوکر عبادات میں مشغول ہوجاتے اور اپنی بیویوں کو بھی بیدار رہنے اور عبادت وریاضت میں مشغول رہنے کی تلقین فرماتے۔ ان تفصیلات سے یہ واضح ہوگیا کہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ رمضان کے آخری عشرے میں آنے کی وجہ سے دیگر ایامِ جمعہ کے مقابلے میں اہمیت کا حامل ضرور ہے، لیکن یہ چند سوالات ہیںجن پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے۔ کیا رمضان کے اخری جمعہ کو جمعۃ الوداع کہنے کا ثبوت شریعت میں موجود ہے؟ کیا رمضان کا آخری جمعہ ادا کرنے کیلئے قریب کی مسجدیں چھوڑ کر شہر کی مسجدوں کا قصد کرنا جائز ہے؟ کیا رمضان المبارک کی فرقت اور جدائی پر غم وافسوس اور صدمے کا اظہار شرعی امور میں ہے؟ یہ چند نکات ہیں جن پر ذیل میں روشی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔رمضان کے آخری جمعہ کو ’’جمعۃ الوداع‘‘ سے تعبیر کرنا بذاتِ خود ایک بدعت ہے، شریعت اسلامیہ کے اندر اس اصطلاح کا کہیں بھی سراغ نہیں ملتا ، اس اصطلاح کو نہ صحابہ کرامؓنے استعمال کیا اور نہ تابعین اور نہ اتباعِ تابعین نے اور نہ بعد کے دور کے ائمہ کرام ، بلکہ یہ دورِ جدید کی اصطلاح ہے جو غالباً برصغیر کی ایجاد ہے۔ رمضان کے اس آخری جمعہ کو لوگ خاص اہتمام کرتے ہیں ، اس کے لئے خصوصی تیاریاں کرتے اور نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ایک مومن پر پنج وقتہ نمازوں کی طرح جمعہ بھی فرض ہے اور ترک جمعہ پر احادیث نبویہ کے اندر وعیدیں موجود ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے ایک حدیث کے اندر ارشاد فرمایا : لوگ جمعہ چھوڑنے سے بعض آجائیں ورنہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگادیگا ، پھر وہ غافلوں میں سے ہوجائینگے‘‘، معلوم یہ ہوا کہ نماز جمعہ کا اہتمام ہر وقت ضروری ہے، صرف رمضان کی آخری جمعہ کااہتمام کرنا اور دیگر جمعہ سے غفلت برتنا سخت وعید کا باعث ہے۔ ایسے لوگ جو رمضان کا صرف آخری ایک جمعہ پڑھ لینا کافی سمجھتے ہیں انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے۔ جو لوگ جمعۃ الوداع ادا کرنے کیلئے اپنے قریب کی مسجدیں چھوڑ کر دور دراز شہروں کی مسجدوں کا قصد کرتے ہیں ، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا یہ عمل خلاف سنت ہے، اللہ کے رسولؐ نے صاف اور صریح لفظوں میں ارشاد فرمایا ہے :تین مسجدوں کے علاوہ دنیا کی تمام مسجدیں ثواب کے اعتبار سے برابر ہیں، ان میں سے کسی کو کسی پر فوقیت وبرتری حاصل نہیں ہے، ساری مسجدوں میں نماز پڑھنے کا ثواب برابر ہے، جس کو جہاں موقع ملے وہاں نماز پڑھے، بغرض ثواب ان تین مسجدوں میں مسجدِ حرام ، مسجدِ نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی بھی مسجد کا قصد نہ کرے، اور ہاں جس مسجد میں جگہ ملے وہاں پڑھے، مسلکی مولویوں کے چکر میں پڑکر ایک مسجد کو آباد اور دوسری مسجدوں کو ویران کرکے سڑکوں کو آباد نہ کریں جیسا کہ آج کل دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ مسلک کے نام پر مولویوں کے جھانسے میں آکر اپنی اپنی مسلکی مسجدوں میں پڑھتے ہیںاور جب جگہ نہیں ملتی تو سڑک پر نماز پڑھنا گنوارا کرلیتے ہیں مگر کسی دوسرے مسلک کے مسجد میں نماز پڑھنا گنوارا نہیں کرتے۔ مسجد اللہ کا گھر ہے کسی مسلکی مولوی کی جاگیر نہیںہے اس لئے ہر مسجد میں وقت کے مطابق نماز ادا کرنا فرض ہوجاتا ہے اور یہ فرض کی ادائیگی کے لئے کسی خاص مکتبِ فکر کی مسجدوں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔آج کل اکثر مسجدوں میں جمعۃ الوداع کے مو قع پر کہیں کہیں یہ رواج بھی ہے کہ امام خطبے میں رمضان کے گذرنے پر افسوس اور صدمے کا اظہار کرتا ہے، نیز ’’الوداع یا شہر رمضان‘‘یا ’’الفراق الفراق‘‘کی صدا لگاتا ہے، یا الوداعیہ اشعار پڑھتا ہے، امام کا یہ عمل بھی خلاف سنت اور غیر شرعی ہے، مناسب یہ ہے کہ امام لوگوں کو یہ بتا ئے کہ یہ رمضان جس کا بیشتر حصہ ہم سے گذرگیا ہے ، ہم نے اس مبارک مہینے میں عبادت واعمال صالحہ اور صدقہ وخیرات کی جو عملی مشق کی ہے، ہمیں چاہئے کہ پورا سال اس پر قائم رہے گااور جن لوگوں نے بھی رمضان کے اس سنہری موقع کو گنوادیا ، اب بھی ان کے لئے چند ایام باقی رہ گئے ہیں، انہیں چاہئے کہ ان ایام میں اب بھی زیادہ سے زیادہ اعمال صالحہ کریں، ورنہ نیکیوں کا یہ موسم بہار رخصت ہوجائیگا، نا معلوم کہ دوبارہ یہ موقع نصیب آئے کہ نہ آئے، لیکن افسوس ائمہ مساجد خطبے کا بیشتر وقت غیر ضروری غم وافسوس اور صدمے کا اظہار یا الوداعیہ اشعار پڑھنے میں گذاردیتے ہیں، واضح ہو کہ دین اسلام کی تعلیمات بالکل واضح اور دن کی سفید کی طرح بالکل روشن ہے۔ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس نے آخری رسول محمد ﷺکو ہمارے لئے بہترین نمونہ اور مثالی شخصیت بناکر دین کوآپ پر مکمل کردیا، اللہ کے رسولؐ نے قیامت تک پیش آنے جملہ مسائل کا حل پیش فرما دیا ہے، مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جملہ اعمال وافعال میں اللہ کے رسولؐکے اقوال ، افعال اور سیرت کو نمونہ بنائیں اور دیکھیں کہ جن اعمال کو وہ کررہے ہیں ، دورِ نبوی میں ان کا وجود تھا یا نہیں؟ اگر ان اعمال کا تعلق خیر سے ہے تو اللہ کے رسول کی زندگی میں یا آپ کے اصحاب کی زندگی میں ان کا ثبوت ضرور ہوگا اس لئے کہ اللہ کا رسولؐ شریعت اسلامیہ کے امین تھے، آپ نے دین کی باتوں کو بلا کم وکاست صحابہ کرامؓ تک پہنچادیا اور صحابہ کرامؓ نے ان کو پوری دنیا میں عام کیا۔ طبرانی میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت موجود ہے ، اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: میں نے کوئی بھی ایسی چیز نہیں چھوڑی ہے جو تمہیں اللہ سے قریب کرنے والی ہے مگر میں نے اس کا حکم دے دیا ہو اور کوئی بھی ایسی چیز نہیں چھوڑی ہے جواللہ سے تمہیں دور کرنے والی ہو مگر میں نے تمہیں اس سے منع کردیا ہو، اسی طرح ایک حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ ’’جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز پیداکریگاجو اس میں سے نہیں ہے تو اس کا وہ عمل مردود ہے‘‘۔ مذکورہ باتوں کو ذہن میں رکھ کر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس دور میں رمضان کے آخری جمعے کو جو اعمال وافعال انجام دیئے جاتے ہیں اگر وہ شریعت کا حصہ ہوتے تو دورِ نبی اور دورصحابہ یا خیر القرون میں ان کا ثبوت ضرور ملتا ، صحابہ کرام خیر کے ہم سے زیادہ حریص تھے وہ ان اعمال کو ضرور انجام دیتے لیکن ایسا نہیں ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دورِ نبوی اور دورِ صحابہ میں رمضان کا اخری جمعہ عام جمعے کی طرح ادا کیا جاتا تھا۔خلاصہ کلام یہ کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ عبادات وطاعت ، تلاوتِ قرآن، صدقہ وخیرات اور دیگر اعمال صالحہ بکثرت انجام دینے کے اعتبار سے تو بہت اہم ہے لیکن رمضان کے آخری جمعہ کی ادائیگی کیلئے شہرکی مسجدوں کا قصد کرنا ، اس میں رمضان کے رخصت ہونے پر غم وافسوس اور صدمے کا اظہار کرنا یہ سب کے سب بدعت اورمنکر اعمال میں سے ہیںاور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا نتیجہ جہنم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت کا عامل بنائے اور بدعت ومنکرات سے بچے رہنے کی توفیق دے۔آمین