روزہ کی فرضیت کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:”اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔ گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کرلے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لئے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو۔ ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہئے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے، اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو“۔ ( البقرہ: ۳۸۱-۵۸۱)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے، اس بات کی گواہی دنیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکات دینا، بیت اللہ کاحج کرنا اور رمضان کا روزہ رکھنا“( بخاری ومسلم) اوردنیا کے تمام مسلمانوں کا اس بات کا اجماع ہے کہ رمضان کا روزہ فرض ہے، جو اس کے روزے کا انکار کرتا ہے وہ مرتد اور کافر ہے۔ ایسے منکر شخص سے روزہ کی فرضیت کا اقرار کرایا جائے گا، اگر توبہ کرتا ہے تو ٹھیک ورنہ اس کفر کی وجہ سے اسے قتل کردیا جائے گا۔
روزہ کی فرضیت ۲ہجری میں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کُل نو رمضان کا روزہ رکھا۔ روزہ رکھنے کے لئے آدمی کا مسلمان، بالغ، عقلمند ،مستطیع اور رکاوٹوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی کافر سے روزہ رکھنے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا،اوراگر رکھتا بھی ہے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔ ایسے ہی بچہ جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے اس پر روزہ واجب نہیں ہے۔ علماءنے لڑکا اور لڑکی کی بلوغت کی پانچ نشانیاں بیان کی ہیں: ۱- پندرہ سال کی عمر۔ ۲- زیرناف پر بال اگنا۔ ۳- احتلام کا ہونا۔ ۴- حیض کا آنا( یہ علامت لڑکی کے ساتھ خاص ہے)۔
بچوں پر تو روزہ فرض نہیں ہے مگر بطور عادت بچوں سے چند روزے رکھوائے جاسکتے ہیں بشرطیکہ بچے کو کوئی جسمانی ضرر لاحق نہ ہو۔ اس سے جہاں عمل صالح کی عادت بنے گی وہیں بچے کے دل میں نیکی کا جذبہ پیدا ہوگا۔ صحابہ کرام اپنے بچوں سے مذکورہ مقاصد کے پیش نظر روزہ رکھواتے تھے۔ لیکن افسوس ہمارے گارجین یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہمارا جگر گوشہ روزہ رکھے گا تو دبلا اور بیمار پڑجائے گا، حالانکہ مشاہدے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوتا،بلکہ بچہ روزہ رکھ کرخوش نظرآتا ہے۔ جب کہ بچپن میں روزہ نہ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے ہونے کے بعد بھی مشکل سے روزہ رکھتا ہے۔
دیوانے(پاگل) پر روزہ فرض نہیں ہے۔ ایسے ہی کسی کا دماغ شراب وغیرہ پینے یا بوڑھاپے کی وجہ سے ماو¿ف ہوگیا ہو تو اس پر بھی روزہ نہیں ہے۔شراب سے مراد صرف شراب ہی نہیں ہے بلکہ اس نوع کی تمام چیزیں اس میں داخل ہیں جن سے عقل کام کرنا بند کردیتی ہے۔ اور اس شخص سے بدترین کون ہوگا جو رمضان جیسے مبارک مہینے میں شراب نوشی میں مبتلا ہوتا ہے۔لیکن افسوس ایسے بدقماش لوگ بھی آج مسلم سماج میں مل جاتے ہیں۔جن کے اوپر سماج میں کوئی تادیبی کارروائی بھی نہیں ہوتی۔ آج کل نوجوانوں میں شراب کی لت حد سے بڑھ گئی ہے، یہاں تک کہ رمضان کی قدر ومنزلت کو بھی وہ خاطر میں نہیں لاتے، اور پوری بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
اگر کوئی بیمار ہے تو اس پر روزہ فرض نہیں ہے۔ کچھ بیماری دائمی ہوتی ہے، ایسے مریض روزہ کے بدلے روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گے۔ جیسے کینسر کا مریض اس کے ٹھیک ہونے کی کوئی امید ہی نہیں ہوتی۔ انس رضی اللہ عنہ جب بوڑھے ہوگئے تو یومیہ ایک مسکین کو کھانا دیا کرتے تھے۔ کھسٹ بوڑھا شخص بھی دائمی مریض کے حکم میں ہوگا۔ان لوگوں کی بیماری کا کوئی اعتبار نہیں جو صرف روزہ نہ رکھنے کے ڈر سے کسی ڈاکٹر سے جاکر سرٹیفکیٹ تیار کرالیتے ہیں، تاکہ لوگوں کو دکھلا سکیں کہ ان کو ڈاکٹر نے روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ روزہ عبادت ہے اور عبادت ہم اللہ کےلئے کرتے ہیں کسی انسان کو خوش کرنے کےلئے نہیں۔ اور روزہ نہ رکھنے کا گناہ ہمیں ہوگا،کسی ڈاکٹر یا حکیم کو نہیں۔
وقتی بیمار؛ جس کے ٹھیک ہونے کی امید ہوتی ہے۔ جیسے کہ کسی کو بخار،سردی،کھانسی یا معمولی مرض ہو۔ تو ایسے شخص کے روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کی تین صورتیں ہیں: ۱- روزہ رکھنے میں کوئی مشقت اور ضرر نہ ہوتو اس کا روزہ رکھنا واجب ہے، اس لئے کہ اس کا معمولی مرض عذر شرعی میں داخل نہیں ہوگا۔ ۲- مرض کی حالت میں روزہ رکھنا شاق تو ہو مگر ضرر رساں نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ اس لئے کہ وہ رخصت کو چھوڑ کر سختی کو اختیار کرتا ہے۔ ۳- روزہ رکھنے سے اسے ضرر پہنچنے کا امکان ہو۔ایسی صورت میں اس کا روزہ رکھنا حرام ہے، اس لئے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں جان کو خطرے میں ڈالنے سے منع فرمایاہے۔
روزہ رکھنے کے لئے آدمی کا جسمانی عوارض سے بھی صحیح سالم ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی کو حیض ونفاس کا عارضہ لاحق ہے تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے۔اسی طرح اگر کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اسے خوف ہے کہ اگر روزرکھنے کی وجہ سے دودھ کم یا ختم ہوجائے تو ایسی عورت کےلئے روزہ چھوڑنے کی گنجائش ہے، لیکن بعد میں وہ فوت شدہ روزہ رکھے گی۔
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام’ حکیم ‘ہے ۔ یعنی ایسی ذات جس کے سارے کاموں میں حکمت پائی جاتی ہو۔ اس نام کا تقاضہ ہے کہ اس کے تمام حکموں اور فیصلوں میں غایت درجہ کی حکمت پائی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا کوئی ایسا حکم نہیں ہے جس میں حکمت نہ پائی جاتی ہو۔ یہ اور بات ہے کہ اس حکمت کو کبھی لوگ سمجھ جاتے ہیں اور کبھی کوشش کے باوجود نہیں سمجھ پاتے۔لیکن نہ سمجھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی کا وہ حکم حکمت سے خالی ہے۔یہی صورت حال روزہ کی ہے۔بے شمار حکمتوں اور فائدوں کے پیش نظر اللہ پاک نے اپنے بندو ں پر روزہ کو فرض کیا ہے۔ ذیل کے سطور میں ان حکمتوں میں سے چند کو اختصار کے ساتھ قلمبند کیا جاتا ہے:
۱- روزہ ایسی عظیم عبادت ہے جس کے ذریعہ بندہ اپنے محبوب اور پسندیدہ اشیا جیسے کھانا،پینا ، اور شادی بیاہ کو ترک کرکے اللہ رب العزت کے تقرب کو حاصل کرتا ہے ۔ بندہ اپنے پسند پر اللہ عزوجل کے پسند کو اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتا ہے تاکہ اسے رب کی خوشنودی اور جنت جیسی عظیم ترین دولت حاصل ہوجائے۔
۲- روزہ تقوی کے حصول کا سبب ہے، بشرطیکہ کے روزے کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:”اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقوی اختیار کرو“۔( البقرہ: ۳۸۱) بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ روزہ رکھنے کا مقصد محض کھانا پینا اور نکاح کا ترک کردینا ہے، حالانکہ روزہ کا یہ بہت محدود معنی ہے۔ روزہ کا صحیح معنی اللہ تعالی کے اوامر کی بجاآوری اورنواہی سے اجتناب ہے، اور اسی کا نام تقوی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جو جھوٹ،اس پر عمل اور جہالت کو (بالخصوص روزے کی حالت میں)ترک نہ کرے۔تو اللہ کو اس کے کھانا پینا ترک کی کوئی حاجت نہیں“( صحیح بخاری)۔ ’ جھوٹ‘ میں تمام حرام کام داخل ہے۔ چاہے وہ جھوٹ بولنا ہو، غیبت کرنی ہو یا کسی کو گالی دینی ہو۔ جھوٹ پر عمل میں بھی سارے حرام امور شامل ہیں، خاص طور سے ظلم وزیادتی، خیانت وبددیانتی، فریب کاری، چوری و ڈاکہ زنی وغیرہ ،یہاں تک کہ اس میں گانا بجانا اور کھیل تماشوں کے سارے کام بھی داخل ہیں۔جہالت کے ترک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ دارسچی بات اور اچھا عمل کرے، بیوقوفی اور نادانی سے بچے۔اگر کوئی شخص مذکورہ امور کی رعایت کرتا ہے تو اس کا اثر اس کی شخصیت پر مرتب ہوتا ہے۔ اس کے نفس کی کامل تربیت ہوتی ہے۔ اس کے اخلاق وکردار میں مثبت تبدیلی آتی ہے، اور وہ اجر کامل کا حقدار ہوتا ہے۔
۳- روزہ کی وجہ سے مالدار کو اللہ تعالی کی نعمت کا احساس کامل ہوتا ہے۔ وہ غور کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے من پسند طریقے سے کھانے پینے اور شادی کرنے کو اس کےلئے آسان بنایا ہے جو کہ شرعاً اس کے لئے جائز بھی ہیں۔ چنانچہ ان نعمتوں کے حصول پر وہ اپنے رب کا شکر بجا لاتا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنے اس غریب اور نادار بھائی کو یاد کرتا ہے جس کو یہ ساری سہولیات میسر نہیں۔ اور اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ صدقات وخیرات کے ذریعہ اپنے غریب بھائی کی خوشی میں اپنا حصہ ادا کرے۔
۴- روزہ ضبط نفس کا کارگر طریقہ ہے، اور یہ ہر انسان کےلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس پر کنٹرول کرنا سیکھے ، تاکہ وہ اپنے کو دنیا وآخرت کی بھلائی میں مصروف رکھ سکے۔انسان کا ضبط اگر آپ پر نہیں ہوتا تو وہ دیکھنے میں تو انسان رہتا ہے مگر اعمال وکردار کے اعتبار سے جانور ہوجاتا ہے۔ دنیاوی شہوت ولذت اسے اندھا بنادیتی ہے۔ اللہ تعالی کا فضل ہے کہ روزہ کے ذریعہ ہم اپنے اوپر ضبط کرنا سیکھتے ہیں۔روزہ کے اسی فائدہ کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نوجوانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا جو شادی کی استطاعت نہیں رکھتے۔
۵- روزہ رکھنا طبی نقطہ نظر سے بھی بہت مفید ہے۔ ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ ایک خاص مدت تک ہاضمے کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہاضمے کے آرام کا بہتر طریقہ یہ کہ آدمی شب وروز میں کم سے کم خوراک کا استعمال کرے۔ اوراس کےلئے روزہ سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ عبادت کا عبادت اور علاج کا علاج۔بھوک برداشت کرنے سے جسم میں نقصان پہنچانے والی جو رطوبت اور فضلات ہوتے ہیںوہ سب نکل جاتے ہیں۔جس سے جسم کو سکون اور راحت میسر آتا ہے۔ جسم کے اعضا بطور خاص ہاضمہ دوبارہ تندرست وتوانا ہوکر اپنا کام کرنا شروع کردیتا ہے۔