حامداورماجد دونوں سگے بھائی تھے……متوسطہ گھر انے سے کچھ نیچے ہی ان کی طرز رہائش کا معیار تھا۔ والد کا سایہ بچپن سے اٹھ چکا تھا۔ گھر پر ایک ماں اور ایک بہن تھی… والد کا کل اثاثہ ایک چھوٹا ساگھر تھا جس پر پختہ چھت تو نہیں تھی لیکن تین کمرے اورآنگن کی سہولت بھی تھی۔ ایک کنواں بھی تھا…اس غربت میںیہ چھوٹا ساگھر ان کے لیے بہت بڑی نعمت بن چکاتھا۔ کہاجاتاہے کہ اپنا گھر ہو تو بھوکا پیاسا آدمی بھی گھر کی چاردیواریوں میںعزت کی زندگی اور عزت کی موت کا حقدار بن جاتاہے۔ زندگی کی بیش تر آسائیش حامد اور ماجد کے ساتھ ان کی ماں اوربہن کو میسر نہ تھیں لیکن عزت کی جو چادر ان پر سائبان بن کر قائم تھی۔ وہ ان کی بہت سی محرومیوں کی دورکردیتی تھی…حامد کی اماّں بڑی خدا ترس اور نیک عورت تھی… بیوگی کی دکھ اٹھانے کے بعد گھر کا خرچ اٹھانے کے لیے وہ کپڑے سینے اور آس پاس کی بچیوں کو دینی تعلیم دینے کا کام کرنے لگی تھیں۔ ان کے جو رشتے دار اورملنے جلنے والے تھے وہ سب اسی طرح تنگدستی اور مفلسی کے شکار تھے۔ حامد کی اماّں کے لیے ان لوگوں کی ہمدردی کے دو بول ہی کافی تھے وہ کسی پر خود بوجھ بننا نہیں چاہتی تھیں۔ خود داری اور شرافت ان کے خون میں رچ بس گئی تھی… وہ بغیر کوئی واویلا مچائے اللہ کی رضا پر شاکر ہو گئیں اور دن رات محنت کر کے کفایت شعاری سے اپنا گھر چلانے لگیں۔ وقت تو گذرجاتاہی ہے۔ سو ان کے گھر میںبھی سورج نکلتااور ڈوبتا رہا…بچے بڑے ہوگئے ۔ حامد کی اماّں اب محلے والو ں کے لیے بھی اماّں بی ہو گئی تھیں۔ گھر گھر جا کر دینی مسائل پر لوگوںکو سمجھانے کا کام بھی وہ کرتی تھیں۔ انہوںنے کچھ فرائض کو معاشی ضروریات سے الگ کر رکھاتھا۔کچھ اصول تھے جوان کی زندگی کے خاص مشاغل بن چکے تھے… دونوں بیٹوں کو زیادہ تعلیم نہ دلا سکیں ۔ بڑا بیٹا حامد کو انہوںنے ہنر میں لگا دیا۔ ایک کو گھڑی بنانے اور دیگر بجلی کی چیزوں کی مرمت میںلگادیا۔ دوسرا ابھی چھوٹا تھا وہ پاس کے سرکاری اسکول میں جانے لگا۔بیٹی سیانی ہو گئی تھی… اسے محلے میںہی ایک شریف گھرانہ میں بیاہ دیا… اماّں بی نے اپنے حساب سے پورا گھر سنبھال لیاتھا… لیکن اب عمر کے تقاضوں نے انہیں بھی ستانا شروع کردیاتھا۔ لوگ کہنے لگے کہ بیٹا کی شادی کردو ،بہو گھر میں آجائے گی… لیکن حامد میاں کہتے کہ ایک اور ذمہ داری بڑھ جائے گی ایک دکان پر وہ ملازمت کرنے لگے تھے۔ لیکن اماّںبی کے ذریعے جو آمدنی گھر میںآجاتی تھی وہ اب ختم پر تھی اماں بی کو سینے پرونے میںدقتیں ہونے لگی تھیں۔ بچوں کو پڑھانے میںاب وہ تھک جاتی تھیں۔ اور بیچ بیچ میں کھانسنے لگتی تھیں۔فاقوں کے دن اثردکھانے لگے تھے۔ اکثر ایسا ہو تاتھا کہ وہ خود بھوکی رہ کر بچوں کا پیٹ بھر دیتی تھیں… اور کسی کو پتہ بھی نہ چلتاجب سے بیٹی کو بیاہ دیا تب سے ان کی بھی خواہش گھر میں بہو لانے کی شدت اختیار کر چکی تھی… سوا ب تلاش شروع ہوئی اور ان کی خواہش پایہ تکمیل کو پہنچی ۔ حامد میاں کو انہوںنے منالیا اللہ رازق ہے یہ وہ ہمیشہ سے کہتی آتی تھیں۔ آج بھی انہوںنے اس کا حوالہ دے کر بیٹا کو راضی کر لیا ویسے بھی حامدمیاں تو ماں کو دیکھ کر جیتے تھے۔بچپن سے وہ ماں کی قربانیوں کو ان کی محنت ومشقتوں کو دیکھتے آتے تھے ۔ماں کی اس خواہش کو کیسے ٹھکرادیتے… پھر یہاں بھی ماں کے آرام کا سوال تھا۔ بوڑھی ماں کو اب گھر کے کام کاجوں سے فراغت کی ضرورت تھی… انہوںنے کہہ دیا کہ اماں لڑکی سیر ت کی اچھی ہونی چاہئے ۔ جو آپ کو آرام دے اورمجھے کچھ نہیں چاہئے۔
اماں بھی تو ہمیشہ سے اپنے بچوں پر نہال تھیں۔ شوہر کے جانے کے بعد اب یہی بچے ان کے سرمایہ تھے۔ اِدھر اُدھر کھوج بین کے بعد ایک سیدھی سادہ لڑکی سلمی تو بہو بناکر لے آئیں۔ سلمی بھی نیک سیرت تھی ۔نئے گھر میں آکر وہ رچ بس گئی ۔ گھر کا سارا کام اس نے سنبھال لیا… صبح وشام اماں بی بچوں کو پڑھاتیں اور اللہ اللہ کرتیں۔ حامد میاں بھی مطمئن تھے۔ ماجد میاں بھی اپنی پڑھائی میںمگن تھے… گو آمدنی اب بھی محدود تھی۔ لیکن گھر کے اصول خوش اسلوبی سے رواں تھے۔جاڑ ے کا موسم اماں بی کو زیادہ تنگ کرتا۔ گھر کی چھت پختہ نہ تھی آنگن کا کھلا حصہ دن میں تو دھوپ کی تمازت بخشتا تھا لیکن رات میں ٹھنڈک کا احساس بڑھادیتا سرد برفیلی ہوا ئیں تیرکی طرح لگتی تھیں …اماں بھی برابر کہتیں پیسے ہوجاتے تو کم از کم ایک چھت بنوالتیں تب ہوائیں نہ لگتیں لیکن یہ خواہش بھی بہت ساری تمنائوں کی طرح اپنی تکمیل کی منتظر تھیں۔ حامد میاں ناشتہ کرکے کھانا لیکر دکان جاتے تھے ۔ اور رات دس بجے ہی لوٹتے تھے گرمی برسات کا کوئی مسئلہ نہیںتھا لیکن جاڑے کی کپکپاتی رات اورسرد برفیلی ہوائوں کے تھپیڑے بڑے تکلیف دہ ثابت ہوتے تھے…
باورچی خانہ آنگن میںتھا… سلمی کھانا کمرے میں لے آتی اورجب حامد میاں آتے تو پاس رکھی بواسی پر کھانا گرم کرکے دیتی ۔ اماں بی ایک دیگچی میںپہلے ہی پانی گرم کرکے رکھ دیتی تھیں۔ سلمی ان کے فارمولے پر پوری طرح کار بند تھی… سردی میں ٹھٹرتے ہوئے حامدمیاں جب گھر آتے تو سب سے پہلے مان انہیں گرم پانی سے بھرا لوٹا تھما دیتی دونوں کمر ے ملے ہوئے تھے اور کمرے سے باہرباتھ روم تھا اور اسی سے آگے باروچی خانہ تھا وہ سائیکل چلاکر بیٹا کاآنا اورپھر گھر میںآرام نہ پانا اماںہی کو گوارہ نہ تھا۔ نیم گرم پانی سے ہاتھ پائوں دھوکر حامدمیاں گمچھا سے انہیں اچھی طرح خشک کرلیتے اور اماں بی انہیںلنگی پہننے کو دتیں۔ یہ ہمیشہ کا دستور تھا جب سے حامدمیاں نے دکان جانا شروع کیاتھا۔
حامدمیاں کے لیے سرد برفیلی راتوں میںہمیشہ خوشگوار حرارت بخش سوغات تیار رہتے ان میں ایک گرم لنگی بھی تھی ، جنہیں اماں بی اپنے پیٹ سے لگائے بستر میں دبکی رہتیں۔ نیم پختہ کمرے کی دیواروں میں سامان یج زدہ رہتا۔ کھانا اور پانی تو گرم ہوجاتالیکن کپڑوں اور چادروں کی ٹھنڈ ک الگ مسئلہ تھی ۔جب سلمی بیاہ کرنہ آئی تھی تو بیٹی کھانا گرم کرکے بھائی کو دیتی اور اماں بی حامد میاں کے بستر پر لحاف اوڑھے بیٹھی رہتیں۔ اور اپنے کمزورجسم سے لنگی کو چپکائے رکھتیں۔ حامد میاں کھانا کھاکر بستر پر آجاتے تو اماں بی اٹھ جاتیں اور گرم لنگی حامد کو پہننے کو دیتیں۔ جاڑے کی اس ٹھنڈک میںحامد میاں کے لیے لنگی کی گرمی ایک نعمت تھی… وہ کئی بار کہتے اماں آپ کیوں اتنی زحمت کرتی ہیں ابھی اٹھ کر خود جاکر اپنے ٹھنڈ سے بستر پر سوجا ئینگی۔ اورمجھے اس پر سونا ہو گا۔ ‘‘
اماں بی محبت سے انہیں دیکھتیں اورکہتی
’’ میںتو دن بھر گھر پر رہتی ہوں اچھی بھلی دھوپ آنگن میں لے لیتی ہوں اور تم اتنی دور سے برفیلی ہوا سے گذر تے ہوئے آتے ہو تمہارے لیے یہ بے ضروری ہے۔ ‘‘
بیٹی کے جانے کے بعد سلمی آگئی … لیکن اماں کا یہ معمول برقرار رہا۔ ماجد تو سرشام ہی اپنے بستر پر دبک جاتاتھا۔ اوراماں منتظر آنکھوں سے سمٹی ہوئی بیٹھی رہتیں۔محبت شفقت اوررفاقت کا یہ سلسلہ برقرار تھا… شب وروز کی گردشوں نے اس پر کوئی اثر نہ ڈالا… اس روز بھی رات بہت سرد تھی۔معمول سے زیادہ ٹھنڈک کا اثرتھا…حامد میاں کو آج دکان میں دیر بھی ہوگئی تھی۔جلدی جلدی تالا لگا کر وہ سائیکل چلا تے ہوئے گھر کی طرف بڑھنے لگے ۔ آج رات زیادہ ہی تاریک اور خاموش تھی ۔آس پاس کسی کتاکے بھونکنے کی بھی آواز نہیں آرہی تھی۔ حامد میاں کو عجب سالگ رہاتھا… سر پر ٹوپی مفلر لپٹے ہوئے وہ تیز تیز آگے جانے لگے… گھر پر پہنچے تو دستک کی مخصوص آواز کے ساتھ سلمی نے دروازہ کھولا… گھر کے اندر گرم پانی تیار تھا حامدمیاں کا دل چاہ رہاتھا کہ بستر پر لیٹ جائیں وہ آج زیادہ ہی تھک گئے تھے۔لیکن پہلے کھانا بھی ضروری تھا اماں بی کے اصول کے آگے وہ ہمیشہ جھک جاتے تھے…نیم گرم پانی سے ہاتھ پائوں دھوکر وہ کھانے کی چوکی پر بیٹھ گئے… آج اماں نے حسب معمول انہیں آواز نہیں دی تھی… سلمی کیا بات ہے ۔ اماں سوگئی ہیں۔
آج انہیں زیادہ سردی لگ رہی تھی لگتا ہے کہ بستر پر جا کر نیند آگئی ہے۔ ‘‘
’’رہنے دو اٹھانا مت ۔‘‘ حامد بولے۔
آج آپ نے کپڑے نہیں تبدیل کیے۔ ٹھہر ئے میں آپ کی لنگی اماں بی سے مانگ لاتی ہوں۔ ‘‘سلمی نے کہا۔
’’نہیں ابھی چھوڑ دو ، خود اٹھ جائیگی۔ ‘‘ کہہ کر حامد کھانا کھانے لگے۔ کھانے کے بعد انہیں زیادہ سردی لگنے لگی، ہاتھ پائوں جیسے برف زدہ ہو گئے تھے۔کمرے میںخاموشی برقرار تھی ۔ حامد میاں وہیں پر بیٹھ گئے۔
’’اب آپ چل کر سویے تھکے ہوئے ہیں۔ ‘‘ سلمی بولی۔
’’اماں بی ۔‘‘
ٹھہر ئے میںا ن کے پاس سے آپ کی لنگی لا دیتی ہوں وہ تو اپنے پیٹ سے سٹاکر رکھتی ہیں۔
دوسری دے دو اماں کو مت جگائو۔ حامد بولے وہ تو میلی پڑی ہے۔ دھونا بھول گئی تھی۔ کہہ کر سلمی لپکتی ہوئی اماں کے بستر کی طرف چلی گئی۔
امّاںامّاں …
حامد میاں لپکے… کیا ہوا…
اماں بی کچھ جواب نہیںدے رہی ہیں۔ سلمی کہہ رہی تھی۔
لحاف کے نیچے اماں بے خبر تھیں…مگر ایسا تو پہلے نہیںتھا۔ آج تک اماں انہیںکھانا کھلائے بغیر خود نہیں سوتی تھیں…ادھر جب سے عمر کے تقاضے بڑھے تھے تو بسترپر سے ہی ان سے خیریت دریافت کرتیں اور آرام کی نصیحتیں کرتی رہتی… حامدمیاں بے قرار ہو کر آگے بڑھے لحاف کو ہٹادیا ۔ اماں بی بالکل بے سدھ تھیں…حامد کی آوازوں پر بھی آج ان کا دھیان ختم ہو چکاتھا۔…
’’یہ کیا ہوا اماں اماں ‘‘ سلمی رونے لگی۔ سوتا ہوا ماجد بھی آکھڑا ہوا… پتہ نہیں کب اماں موت کی برفیلی وادیوں میں پوشیدہ ہوچکی تھیں … لیکن ان کے پیٹ سے سٹی ہوئی لنگی میںحرارت ابھی باقی تھی۔
٭٭٭
ڈاکٹرکہکشاںپروین
ایسو سی ایٹ پروفیسر
سابق صدر شعبہ اردو ، رانچی یونیورسٹی ،رانچی
Mob:9835724460