گذشتہ روز عدم اعتماد کے بل پر پارلیامنٹ میں مباحثے کا تیسرا اور آخری دن تھا اور کل ہی وزیر اعظم نریندر مودی جی کو اپوزیشن کے اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب بھی دینا تھا جس کا انتظار سارے ملک کے لوگ کر رہے تھے۔لیکن یہ دیکھ اور سن کر حیرت بھی ہوئی افسوس بھی کہ وزیر اعظم نے اپنے دو گھنٹے سے زیادہ کے خطاب میں یا تو اپنی پارٹی کے نیتاؤں سے مخاطب رہے ،ملک اور بیرون ملک کے اپنے بھکتوں سے مخاطب رہے ،ٹرول آرمی کو ٹپس دیتے رہے یا پھر نہرو فیملی پر بلا جواز حملہ آور رہے ۔انہوں نے نہایت اعتماد کے ساتھ اپنے بھکتوں کو تسلی دی کہ 2024میں وہ پھر وزیر اعظم بنینگے ۔اور لگے ہاتھوں اپنے ووٹرس کو یہ لالی پاپ بھی تھما دیا کہ 2028تک ہم دنیا کی تیسری بڑی طاقت بن جائینگے ۔نہ ان کی باتوں میں کوئی سنجیدگی تھی نہ درد ۔وہ نہایت کھلنڈرے پن کے ساتھ یہ کہتے بھی سنے گئے کہ اس عدم اعتماد کی تحریک میں کوئی مزہ نہیں آیا کیونکہ اپوزیشن کے الزامات میں کوئی تخلیقیت نہیں تھی ،کوئی جدت بھی نہیں تھی ۔لگے ہاتھوں انہوں نے اپوزیشن سے یہ بھی کہدیا کہ 2028میں جب ایک بار پھر عدم اعتماد کا بل لے کر آئیں تو تھوڑا ہوم ورک کر کے آئیں ۔وزیر اعظم کا یہ خطاب اس قدر لیک سے ہٹا ہوا تھا کہ انہیں اس کا احساس بھی نہیں تھا کہ وہ کسی انتخابی ریلی کو خطاب کر رہے ہیں یا پارلیامنٹ میں اپوزیشن کے سوالات کا جواب دے رہے ہیں ۔
آج وزیر اعظم کے خطاب نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ دوسروں کو مغرور کہنے والے وزیر آعظم خود غرور کے گھوڑے پر سوار ملک کے عام لوگوں اور ان کے مسائل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔
حالانکہ آج کا دن اتنا اہم تھا کہ آج اگر وزیر اعظم چاہتے تو منی پور کے عوام سمیت پورے ملک کے عام لوگوں کا دل جیت لیتے لیکن افسوس کہ دل جیتنے کے لئے بھی انہوں نے وہی پرانا گھساپٹا اور ناکام ڈائیلاگ بولا جو انہوں نے کرناٹک میں بولا تھا کہ” مودی تیری قبر کھدیگی ،”ایک اور نہایت پوچ اور بے بنیاد نعرے کا بھی انہوں نے حوالہ دیا کہ کانگریس کے لیڈر اس گروہ کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے جن کا نعرہ ہے "بھارت تیرے ٹکڑے ہونگے "ہمارے قارئین اس جھوٹے نعرے کی تاریخ سے واقف ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس نعرے کو لگانے کا جس نوجوان پر الزام لگایا گیا تھا اس الزام کو دہلی کی پولیس اور بی جے پی سرکار عدالت میں ثابت بھی نہیں کر سکی اور وہ نوجوان آج کانگریس کا نوجوان لیڈر ہے ۔اس طرح کی گفتگو کے ذریعہ وزیر اعظم نے جو ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ اب ملک کے لوگ بی جے پی اور خود نریندر مودی کے چال اور چرتر سے پوری طرح واقف ہو چکے ہیں ۔
آج ان کے دوست اور دشمن سب کو مایوسی ہوئی ۔آج یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ان کی شخصیت اور زبان میں کوئی جادو نہیں ،نہ وہ کوئی بہت بڑے مقرر ہیں ۔نہایت عام سی گفتگو کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کی سیڑھی جواہر لعل نہرو کی خامیوں کو اجاگر کرنے والی اینٹوں پر رکھی ہے ۔عدام اعتماد کی تحریک کے جواب میں انہوں نے اپنی سرکار کی جھوٹی تعریف کرنے میں گنوا دی جس پر عوام پہلے ہی ان سے بد ظن ہے ۔نہ انہوں نے بیروزگاری پر بات کی اور نہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر ۔سب سے بڑی بات یہ کہ منی پور میں 100دن سے جلنے والے گھروں ،200سے زیادہ مرنے والے لوگوں ،ہزاروں کی تعداد میں لوٹ لئے گئے ہتھیاروں ،ننگی عورتوں کے جلوس اور ریپ کی جانے والی عورتوں پر کوئی بات نہیں کر کے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ان کے سینے میں دل کی جگہ پتھر کا کوئی ٹکڑا ہے ۔
اقتدار کا ہوس کانگریس کے اندر ہو یا نہ ہو کروڑوں لوگوں نے یہ ضرور دیکھا کہ تیسری بار وصیر اعظم بننے کے لئے وہ کتنے بیچین ہیں ۔پچاس ہزار سال تک بھارت کی بنیاد کو مظبوط بنانے کی قسم کھانے والے نریندر مودی نے آج کے ہندوستان کو کس قدر مخدوش بنا دیا ہے کہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا ایک ایک فرد خوف کے سائے میں جی رہا ہے ۔کسی اقلیتی طبقہ کی عبادت گاہ محفوظ نہیں ۔اپنے مذہبی شناخت کے ساتھ ٹرین کا سفر کرنے والے مسافر کو گولی مارنے والی پولیس کے چوکیدار کو یہ کہتے ہوئے شرمندگی بھی نہیں ہوتی کہ آنے والے پانچ سال میں بھارت دنیا کی تیسری سب سے بڑی طاقت بن جائے گا ۔آخر وہ طاقت کس کام کی ہوگی ۔لیکن یہ سارے سوالات نریندر مودی سے پوچھیگا کون اور وہ جواب دینگے بھی کیوں ۔جواب دے بھی کیسے سکتے ہیں کہ ان کے پاس سوائے لفاظی کے اور کوئی اثاثہ ہے بھی کہاں ۔
(شعیب رضا فاطمی )