روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے ۔اور یہ دھیمی دھیمی سلگنے والی آگ کب بھڑک اٹھے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔اور اس کا بھڑکنا تیسری عالمی جنگ کا آغاز بھی ہو سکتا ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ سمیت نیٹو کے کئی سرپرست ممالک ہوکرین کو نیٹو کا باضابطہ ممبر بنانے سے ہچکچا رہے ہیں ۔ جبکہ ماضی میں وہ یوکرین سے اس کا وعدہ کر چکے ہیں۔روس یوکرین جنگ کے درمیان یوکرین کو نیٹو (شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم )میں شامل کرنے میں سب سے بڑا خطرہ نیٹو کا ’’اجتماعی سلامتی‘‘ فارمولہ ہے، جس کی جڑ اس کے آرٹیکل 5 میں ہے۔ آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ، ’’فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ یورپ یا شمالی امریکہ میں ان میں سے ایک یا زیادہ کے خلاف مسلح حملہ ان کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا۔ اور اس کے نتیجے میں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ، اگر ایسا مسلح حملہ ہوتا ہے، تو ان میں سے ہر ایک اس ملک یا ممالک کی مدد کرے گا جس پر حملہ کیا گیا ہو… ایسی کارروائی کر کے جو ضروری سمجھے، بشمول مسلح قوت کا استعمال…‘‘ جیسا کہ اجتماعی سلامتی نیٹو کے مرکز میں ہے، اگر یوکرین کو اب تسلیم کر لیا جائے، تو یوکرین کی جنگ بطور ڈیفالٹ نیٹو کی جنگ بن جائے گی- دوسرے لفظوں میں، تیسری عالمی جنگ۔ اور نیٹو اور خاص طور پر امریکہ یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔اور یہی وجہ ہے کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی رکنیت نہ ملنے پر مایوس ہیں۔حالانکہ یوکرین کو نیٹو کی جانب سے فوجی حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے لیکن یوکرین کی اس جنگ کو نیٹو ممالک اپنی جنگ سمجھ لے یہ مشکل ہے ۔اسی ماہ گیارہ اور بارہ جولائی کو لتھوانیا میں جو سربراہی کانفرنس ہوئی ہے اس کی رپورٹ کے مطابق اجلاس کے آغاز سے عین قبل، امریکہ کے بعد نیٹو کی دوسری سب سے بڑی فوجی طاقت ترکی نے اتحاد میں سویڈن کی شمولیت کی مخالفت ختم کر دی۔ سربراہی اجلاس نے رکن ممالک کے لیے نئے اخراجات کے اہداف کی بھی منظوری دی اور یوکرین کو طویل مدتی مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ اس کے باوجود، ایک مسئلہ جس نے ولنیئس سربراہی اجلاس کو زیر کیا وہ اتحاد میں یوکرین کی وعدہ شدہ رکنیت تھا جس پر کوئی وضاحت یا ٹائم فریم نہیں تھا۔ 2008 کے بخارسٹ سربراہی اجلاس میں، نیٹو نے بحیرہ اسود کے طاس کے دو ممالک یوکرین اور جارجیا کو حتمی رکنیت کی پیشکش کی تھی جو روس کے ساتھ زمینی سرحدیں بانٹتے ہیں۔ اس کے بعد اتحاد نے کہا کہ دونوں ممالک "نیٹو کے رکن بن جائیں گے”۔ پندرہ سال بعد، ولنیئس سربراہی اجلاس سے پہلے، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اپنے ملک کے لیے نیٹو سے مزید ٹھوس عزم کا مطالبہ کیا یعنی رکنیت کا مطالبہ کیا لیکن ولنیئس کمیونیک نے کہا، "ہم اس وعدے کو کو اس وقت وفا کر سکینگے جب اتحادی متفق ہوں اور شرائط پوری ہو جائیں تو ہم یوکرین کو اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دے سکتے ہیں”۔ لہٰذا، یوکرین نے گزشتہ 15 سالوں میں نیٹو کی رکنیت کے لیے اپنے دباؤ میں کچھ زیادہ حاصل نہیں کیا ہے۔ لیکن 2008 میں جب رکنیت کی پیشکش کی گئی تو فرانس اور جرمنی سمیت کئی ممالک نے یوکرین کے اتحاد میں شامل ہونے کے اس خدشے کی وجہ سے مخالفت کی کہ اس طرح کے اقدام سے روسی ریچھ کو دھکیل دیا جائے گا۔ لیکن اب، یوکرین پر روس کے جاری حملے کے درمیان، مزید رکن ممالک یوکرین کے نیٹو میں شمولیت کے خیال سے اتفاق کرتے ہیں، جو کہ ایک نمایاں تبدیلی ہے۔ یوکرین نیٹو کے ساتھ یوکرین نیٹو کونسل کے ذریعے تعاون جاری رکھے گا۔ گروپ آف سیون (G-7) ترقی یافتہ صنعتی معیشتوں نے نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے فوجی تربیت اور ادارہ جاتی مدد فراہم کر کے جنگ سے تباہ ہونے والے یوکرین کے دفاعی اڈے کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ سربراہی اجلاس سے پہلے، فرانس نے یوکرین کو اپنے SCALP طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بھیجنے پر بھی اتفاق کیا۔ جرمنی نے ایک نئے فوجی امدادی پیکج کا اعلان کیا اور نیٹو کے دیگر ارکان جنگی طیاروں کی تربیت فراہم کریں گے۔ یعنی یوکرین کو نیٹو کا ممبر نہ بنائے جانے کے باوجود اسے نیٹو کے ارکان کی جانب سے فوجی سپلائی کی یقین دہانی ملی ہے۔اب دیکھنا ہوگا کہ یوکرین نیٹو کے وعدوں کے سہارے روس سے اپنی جنگ کتنے دنوں تک مزید جاری رکھ سکتا ہے۔اور اب جب روس کو یہ خبربمل چکی ہے کہ نیٹو روس یوکرین جنگ میں براہ راست مداخلت نہیں کر رہا ہے تو اس کا رویہ کیا ہوگا ۔
(شعیب رضا فاطمی )