یقین مانیے ! جب اخباروں میں لوگوں کی تصویریں دیکھتا ہوں تو دل مچل جاتا ہے کہ کاش ہماری بھی تصویر اخباروں کے صفحات پر اتر جاتی۔ آخر سب کی تصویریں تو آتی ہی ہیں ،ایک میں ہی ہوں کہ اپنی تصویردیکھنے کے لیے بے تاب رہتا ہوں۔
میں نے بیگم سے مشورہ کیا۔ آخر میری بھی تصویر اخباروں کی زینت کیسے بنے گی۔ تو انھوں نے کہا۔ آپ کو اس کے لیے تھوڑی جدو جہد کرنی پڑے گی۔ امید ہے کہ آپ کی بھی تصویر اخباروں میں آجائے گی۔ ایسا میرا ایقان بولتا ہے۔
میں نے بیگم کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے پوچھا۔ آخر جدو جہد کی نوعیت کیا ہو گی۔ بیگم نے کہا۔ آپ اسپتال کا چکر لگائیں۔ جب بچہ ماں کے شکم سے جیسے ہی دارفانی میں قدم رکھتا ہے ، اس کے گھر والے اس کی تصویر لیتے ہیںاور واٹس اپ ، اسٹیٹس اور فیس بک پر ڈال دیتے ہیں۔ اگر آپ نے اس وقت جوگاڑ لگا لیا تو سمجھ لیجئے آپ کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں گے ۔ گویا آپ کی تصویر بچے کے ساتھ آسکتی ہے۔
دوسرا موقع ہے جب کسی جوان کی شادی ہورہی ہو۔ اس وقت بھی کیمرہ مین لوگوں کی تصویریں اتارتا رہتا ہے۔ تیسرا موقع ہے جب کسی کا انتقال ہوتا ہے۔ اس وقت بھی تصویر کشی بڑی تیز رفتاری سے ہوتی ہے۔ وہاں بھی آپ ایک چانس Chanceلے سکتے ہیں، چوتھا موقع جو سب سے اہم ہے ۔ اصلاح معاشرہ کے جلسہ جلوس میں۔یہاں مائیک اور مجمع دونوں ملتا ہے ۔ جو سب کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ اعلان…………بیگم بولیں۔ سنتے ہیں۔ اعلان سنیے ۔لگتاہے کسی کا انتقال کا اعلان ہورہا ہے ۔ ارے تین بار اعلان ہوا۔ اس کا مطلب ہے شہر کا کوئی خاص آدمی کاانتقال ہوا ہے۔ ورنہ دو سے زیادہ بار کسی عام آدمی کا اعلان نہیں ہوتا۔ شہر کی اہم شخصیت کے انتقال پر ہی مؤذن صاحب دو سے زیادہ بار اعلان کرتے ہیں۔
بیگم بولیں۔ آج اچھا موقع ہے ۔ آج آپ کی تصویر کھینچ ہی جائے گی۔ قبرستان جلد ہی جاکر پہلی صف میں امام کے پیچھے جگہ لے لیںگے۔ آج آپ کی تصویر صاف آئے گی۔ نہادھوکر وضو بناکر ظہر سے پہلے ہی قبرستان میں لگی کرسیوں پر جاکر بیٹھ گیا۔ جنازہ آیا۔ لوگ صف بندی کرنے لگے۔ میں ٹھیک امام کے پیچھے کھڑا ہوگیا ۔ جیسا کہ بیگم نے کہا تھا۔ مگر یہ کیا ؟ ایک صاحب آئے اور کہنے لگے ۔ آپ کو پہچانا نہیںَ میں نے کہا میں بھی اسی شہر کا رہنے والاہوں۔ وہ تو ٹھیک ہے ۔ مگر آپ پچھلی صف میں چلے جائیں ۔ پہلی صف میں میت کے گھر کے لوگ اور شہر کے سماجی کارکن رہیںگے ، اس لیے کہ تصویر کشی ہو گی تو تصویر صاف آنی چاہیے نا !
میں مایوس ہوکر دوسری صف میں لگ گیا۔ اپنے سر کو دائیں بائیں کرتا رہا تاکہ کسی طرح کیمرہ کے سامنے میرا چہرہ آجائے۔ ایڑی اٹھاکر انگلیوںپر بھی کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ حالاں کہ ایڑی میں درد تھا میں نے یہ درد اس لیے برداشت کیا۔ سناتھا کہ ہر دکھ کے بعد سکھ ہے۔ اپنا قد اونچا کرنے کی میں نے پوری کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر آپ قد میں چھوٹا بھی ہیں اور عہدہ میں بڑا ہیں تو آپ کا قد جم غفیر میں بھی اونچا رہے گا۔
بیگم نے مشورہ دیا کہ آپ خود مقرر کیوں نہیں بن جاتے۔ پرکٹس Practiceکریں گے تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ میں نے کہا۔ اس میں Practiceکی کیا بات ہے ۔ گھنٹہ دو گھنٹہ تو میں بول ہی سکتا ہوں۔ توا یسا کیجئے اصلاح معاشرہ کرنے والوں سے رابطہ کریں۔ وہاں چانس مل ہی جائے گا۔ رنگ برنگے لباس زیب تن کرنا ہوگا۔ اسی سے بڑے خطیب ہونے کا رعب جمتا ہے۔ میں نے کہا۔ کچھ کپڑے تو ہیں کچھ اور نئے ڈیزائن کا بنوا لوں گا۔
اصلاح معاشرہ کانفرنس میں حاضر ہوا۔ اناؤنسر۔ اب آپ کے سامنے باہر سے تشریف لائے مہمان مقرر دیوا ر ملت، ستون ملت، سائبان ملت، ایوان ملت، غبار ملت، دھواں دھار ملت ، عندلیب ملت ، حضرت زلزلہ سنترہ آبادی آپ کے سامنے مائیک پر ۔
حضرات ! آپ لوگ اصلاح معاشرہ کانفرنس میں حاضر ہیں۔ آپ سے زیادہ ہماری خوش نصیبی ہے
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
اباؤںاماؤںبھائیوبہنو چاچاؤچچانیوپھوپھاؤپھوپھیوماماؤںمامانیوںخالوؤںخالاؤںبے پردہ اور پردہ نشیں خواتین۔اور نوجوان دوستو!
وقت برباد کیے بغیر میں اصل موضوع پر آتا ہوں ۔
نشہ پلاکے گراناتوسب کو آتا ہے
مزہ تو جب ہے کہ گرتو ں کو تھام لے ساقی
سماج کے لوگوشراب پینے والوسگریٹ پینے والوبیڑی پینے والوگانجہ پینے والوافیم چرس پینے والوغصہ پینے والوشربت پینے والوجوس پینے والو پیپسی کوکا کولا پینے والو فروٹی مازا پینے والوسیرپ پینے والوچائے کافی پینے والوسود کھانے والوچغلی کھانے والوبریانی کھانے والوگل لگانے والو گوڑاکو لگانے والوسٹہ لگانے والوجلے پر نمک لگانے والواسنو پاؤڈر لگانے والوموبائل دیکھنے والوٹی وی دیکھنے والودوسرے کی بیوی کو دیکھنے والو(ہوا میں ہاتھ لہرا لہرا کر انگلیوں سے اشارہ کرکے بولیے سبحان اللہ ….)
ایک آدمی۔ تقریر شباب پر ہے ۔ زوردار نعرہ ۔ نعرۂ تکبیر۔ پورا مجمع اللہ اکبر ۔ دیوارِ ملت زندہ باد۔ مولانا صاحب بولے ۔ ہاتھ لہراکر فوٹو فوٹو فوٹو۔ جہیز لینے والو جہیز دینے والو دوسرے کے دروازے پر کوڑا ڈالنے والونالی جام کرنے والو ٹریفک قانون کو توڑنے والوبیگم کو پارک گھمانے والو(کیمرہ مین تصویر لیتے ہوئے )کرکٹ کھیلنے والو گیند کھلنے والو لوڈو کھیلنے والوکیرم کھیلنے والو کسی کی عزت سے کھیلنے والو (ایک آواز اب آپ بیٹھ جایئے) زمین پر بیٹھنے والو کرسیوں پر بیٹھنے والوآنکھوں پر بیٹھنے والوپلکوں پر بیٹھنے والوبزرگوں کے سامنے بیٹھنے والوکار میں بیٹھنے والو جہاز میں بیٹھنے والوچوک چوراہوں پر بیٹھنے والومیکدے میں بیٹھنے والو ، رات کے تین بج رہے ہیں زندگی نے وفا کی تو پھر اگلی کانفرنس میں۔ آپ لوگ پورے طور پر بیدار ہوجائیں۔ وقت کا تقاضہ ہے۔ مسلسل رات میں جاگنے کی وجہ سے نیند کا غلبہ ہے ۔ جو کچھ بیان ہوا وہ آغاز باب تھا ۔
غالب کہتے ہیں
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیان کے لیے
وآخر دعونا…………
کچھ لوگ کاناپھوسی کررہے تھے ، باپ رے ایسا مولانا کی تقریر تو ہم آج تک نہیں سنے تھے ۔ جب پینے پر بول رہے ہین تو پینے ہی پر ، جب کھانے پر بول رہے ہیں تو کھانے ہی پر ۔ لگانے پر بول رہے ہیں تو لگانے ہی پر ۔بولے جارہے ہیں۔ رکنے کانام نہیں، دیکھنے پر بول رہے ہیں تو دیکھنے ہی پر۔ بغیر سانس لیے اتنی روانی سے بول رہے ہیں۔ پہلو بدل بدل کرکے ، ہاتھوں کو ہوا میں لہرا لہرا کے ایک دم مولانا صاحب لوگوں کے دلوں میں اترتے چلے گئے۔ ہم لوگ تو اتنی روانی سے ایک سے سو تک گنتی بھی نہیں گِن سکتے ۔ اس میں بھی گڑبڑا جائیں گے۔ جانتے ہو دوست ۔ یہ رٹی ہوئی تقریر نہیں ہے بلکہ مولانا صاحب بہت کتاب پڑھے ہیں۔ ہر موضوع پر دھڑلے سے بولنے لگتے ہیں۔ ایک آدمی ذرا سابولاکہ ”آپ بیٹھ جایئے تو بیٹھنے پر ہی دس منٹ تک بولتے رہے ۔ ہم تو ایسا مولانا کی تقریر پہلی بار سن رہے ہین۔ ہم بھی ایسی تقریر نہیں سنے تھے یار ۔ ان کا پروگرام جہاں بھی ہوگا ، ہم تو جائیں گے ، مزہ آگیا۔ اور تم ؟ ہم بھی چلیں گے یا ر۔“
صبح ابا ہاتھ میں اخبار لیے غیض و غضب کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔ گرج کر بولے ۔ کہاں ہے رے جلجلوہ ۔ ! ابھی آیا ابا ۔ کیا ہے ابا ؟ سن رہے ہیں تو ر پھوٹو اخبار میں چھپل ہو۔ (یعنی تمہاری تصویر اخبار میں چھپی ہے) کہاں ابا؟ کہاں ہے ابا دیکھیں ابا ۔ ارے ابا کے بچے آؤ آؤ ۔ادھر آؤ، اور قریب آؤ ،ابا کا تیور دیکھ کر ہم گھر سے باہر گلی میں ، گلی سے سڑک پر ، سڑک سے شاہراہ پر بھاگے جارہے ہیں۔ آگے میں پیچھے ہاتھ میں چھڑی لیے ابادوڑاتے جارہے ہیں۔ ابا تصویر کشی کے سخت خلاف تھے۔ مین آگے آگے ابا پیچھے پیچھے بھاگے جارہے ہیں۔ صبح میں سیر و تفریح پر نکلے لوگوں نے دیکھا۔ ایک بوڑھا ایک جوان کو دوڑا رہا ہے۔ لوگ سیلفی لیتے رہے۔ ان ہی لوگوں میں کچھ میڈیا والے بھی تھے ۔
صبح اخبار میں مع تصویر خبر چھپی۔ ”ایک بوڑھا ایک جوان کو دوڑا رہا ہے۔جیسا کہ آپ تصویر میں دیکھ رہے ہیں۔ بوڑھا جوان کو کیوں دوڑا رہا ہے اس کا انکشاف ابھی نہیں ہوا ہے ۔ تحقیق جاری ہے ۔ “