گارڈین نے اتوار کو رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کو تجویز پیش کی ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی اونروا ختم کر دی جائے اور غزہ میں خوراک کی مزید ترسیل کی اجازت کے بدلے اسرائیل اپنی ذمہ داریوں اور عملے کو ایک نئے ادارے میں منتقل کر دے۔
یہ تجویز اسرائیل کے چیف آف دی جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہالیوی نے مارچ کے شروع میں اسرائیل میں اقوامِ متحدہ کے حکام کے ساتھ بات چیت کے دوران پیش کی تھی۔ اس بات چیت سے واقف ذرائع نے گارڈین کو بتایا کہ اس کے بعد ان حکام نے ہفتے کے روز اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کو یہ تجویز پیش کی۔
فلسطینی علاقوں میں 1950 سے کام کرنے والی اہم انسانی تنظیم اونروا مذاکرات میں شامل نہیں تھی کیونکہ اسرائیل کی دفاعی افواج نے اس سے معاملہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ بات چیت غیر تصدیق شدہ دعووں کی بنیاد پر ہے کہ ایجنسی کے کچھ عملے نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملوں میں حصہ لیا تھا۔
اسرائیلی دفاعی افواج کا ان دعووں کو ثابت کرنا تاحال باقی ہے جس کی وجہ سے 16 بڑے عطیہ دہندگان کی جانب سے 450 ملین ڈالر کی فنڈنگ معطل کردی گئی ہے۔ اعانت کا یہ تعطل ایک نازک وقت میں سامنے آیا ہے کیونکہ اسرائیل کی ناکہ بندی غزہ کے 2.3 ملین باشندوں کو قحط کے دہانے پر لے جا رہی ہے۔
اس تجویز میں تفصیلات دی گئی ہیں کہ 300 سے 400 کے اونروا عملے کی اقوامِ متحدہ کی کسی موجودہ ایجنسی جیسے عالمی غذائی پروگرام یعنی ڈبلیو ایف پی یا غزہ میں خوراک کی تقسیم پر توجہ مرکوز کرنے والی نئی قائم کردہ تنظیم میں منتقلی کر دیا جائے۔اس منصوبے میں اونروا کے مزید ملازمین اور اثاثہ جات کی حتمی منتقلی شامل ہے حالانکہ یہ تاحال واضح نہیں ہے کہ نئے ادارے کا انتظام کون کرے گا یا اس کی کارروائیوں کی حفاظت کو یقینی بنائے گا۔اونروا ایجنسی کی ڈائریکٹر برائے بیرونی تعلقات تمارا الریفائی نے اونروا کے وسیع انفراسٹرکچر اور انسانی وسائل کی صلاحیتوں پر زور دیتے ہوئے ان خدشات کو نمایاں کیا کہ مجوزہ نئے ادارے کے محدود پیمانے پر کام سے غزہ میں امداد کی مؤثر تقسیم کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے گارڈین کو بتایا، "یہ ڈبلیو ایف پی پر کوئی تنقید نہیں ہے لیکن منطقی طور پر اگر وہ کل سے غزہ میں خوراک کی تقسیم شروع کر دیں تو وہ اونروا کے ٹرکوں کا استعمال کریں گے، خوراک کو اونروا کے گوداموں میں لائیں گے اور پھر اونروا کی پناہ گاہوں میں یا اس کے آس پاس کھانا تقسیم کریں گے۔”
اس لیے انہیں کم از کم اسی بنیادی ڈھانچے بشمول انسانی وسائل کی ضرورت ہوگی جو ہمارے پاس ہے۔”
اونروا غزہ کی اب تک کی سب سے بڑی امدادی تنظیم ہے جس نے جنگ شروع ہونے کے وقت 13,000 افراد کو ملازمت دی جن میں سے 3000 اب بھی کام کر رہے ہیں۔ خوراک کی تقسیم کے علاوہ ایجنسی غزہ میں ایک بڑا آجر ہے جو تعلیم اور اہم طبی خدمات فراہم کرتی ہے کیونکہ انکلیو کا صحت کی نگہداشت کا نظام تباہ ہو گیا ہے۔
الریفائی نے کہا، "یہ صرف کھانے کا معاملہ نہیں ہے۔ غزہ میں اب ہمارے صحت کی نگہداشت کے سات مراکز کام کر رہے ہیں، ہم روزانہ 23,000 مشورے دیتے ہیں اور جنگ شروع ہونے کے بعد سے ہم نے 53,000 ویکسین لگائی ہیں۔ تو یہ بذاتِ خود ایک مکمل شعبہ ہے جسے فی الوقت کوئی دوسری ایجنسی پیش نہیں کر سکتی۔”
یہ بہت اچھا ہے کہ ہم قحط کی وجہ سے خوراک پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں اور ہم غذائی قلت کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں لیکن اونروا کا معاملہ خوراک کی تقسیم سے کہیں زیادہ ہے۔”
اقوامِ متحدہ کے بعض اہلکاروں کے نزدیک اسرائیلی منصوبہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش ہے کہ غزہ میں قحط آنے کی صورت میں اقوامِ متحدہ تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں جس کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی دیگر ایجنسیاں، کئی امدادی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سمجھتی ہیں کہ اسرائیلی تجویز اونروا کو ختم کرنے کے لیے ایک طویل عرصے سے جاری مہم کا نتیجہ ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے گارڈین کو بتایا، اگر ہم اس کی اجازت دے دیں تو ہمارا مکمل طور پر اسرائیلیوں کے زیرِ انتظام ہونا اور اقوامِ متحدہ کا اونروا کو کمزور کرنے میں براہِ راست شریک ہونا ہمارے لیے گویا ایک پھسلواں ڈھلوان ہے۔ اونروا نہ صرف سب سے بڑا امداد فراہم کرنے والا ادارہ ہے بلکہ غزہ میں انتہا پسندی کے خلاف سب سے بڑا قلعہ بھی ہے۔ اگر ہم نے ایسا ہونے دیا تو ہم کئی سیاسی ایجنڈوں میں کھیل رہے ہوں گے۔”
امریکہ نے نجی طور پر اسرائیل کی اس تجویز کی توثیق کی ہے کہ اونروا کے کام کو اقوامِ متحدہ کے دیگر اداروں میں ضم کر دیا جائے۔ تاہم اس اقدام کو مختلف عطیہ دہندگان اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے جنہوں نے مسلسل اونروا کی حمایت کی ہے۔
گذشتہ ہفتے اردن میں پناہ گزین کیمپ کے دورے کے دوران گوٹیرس نے اونروا کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ فلسطینیوں کے لیے اس کی خدمات کو روکنا "ظالمانہ اور ناقابلِ فہم” ہوگا۔
اونروا کے اختیار اور تسلسل کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا ہے جو واحد ادارہ ہے جس کے پاس ایجنسی کی تقدیر کا تعین کرنے کا اختیار ہے۔
اقوامِ متحدہ کے کئی امدادی اہلکار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ غزہ تک خوراک کی امداد پہنچانے کے لیے صرف اونروا ہی کے پاس عام فلسطینیوں کے وسائل اور اعتماد ہے۔ اور یہ کہ غزہ پر اسرائیل کی مسلسل بمباری کے درمیان اس کے مطالبات کے جواب میں سیاسی وجوہات کی بنا پر ایک نئی امدادی تنظیم بنانے کی کوشش تباہ کن ہوگی۔
اونروا کے سابق ترجمان کرس گنیس نے گارڈین کو بتایا، "یہ اشتعال انگیز بات ہے کہ اقوامِ متحدہ کی ایجنسیاں جیسے ڈبلیو ایف پی اور اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ حکام اونروا کو ختم کرنے کے بارے میں بات چیت میں مصروف ہیں۔ جنرل اسمبلی اونروا کو اختیار دیتی ہے اور صرف جنرل اسمبلی ہی اسے تبدیل کر سکتی ہے، سیکرٹری جنرل نہیں اور یقیناً کوئی ایک رکن ریاست نہیں۔”