انقلاب ہمیشہ نوجوان ہی لاتے ہیں ،بشرطیکہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون نہ ہو ۔کیونکہ پھر وہ بیکار نہیں رہتے ،مسلسل مصروفیت کی وجہ سے انہیں فرصت ہی نہیں رہتی کہ وہ سیاست ویاست کے سلسلہ میں کسی دھرنا پر درشن میں حصہ لے سکیں ۔دوسری سب سے بڑی قباحت یہ بھی ہے کہ موجودہ سیاسی منظر نامہ کو بھی نوجوان دیکھ رہے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ ابھی جو لوگ برسر اقتدار جماعت کی مخالفت میں محاذ کا حصہ ہیں ان میں سے بیشتر ماضی میں کانگریس مخالف محاذ کے حصہ رہے ہیں اور خود سونیا گاندھی کو غیر ملکی شہری ہونے کا سرٹیفیکٹ دیتے رہے ہیں لیکن آج کانگریس کے ساتھ اس لئے ہیں کہ ممکن ہے بلی کی قسمت سے چھینکا ٹوٹ جائے اور ان کے وارے نیارے ہو جائیں۔اس محاذ کے ساتھ بہار کے نوجوان اس لئے بھی نہیں جڑ رہے ہیں کہ بہار میں محاذ جس شخص کے کنٹرول میں ہے اس کے خاندان میں ہی ابھی بہت سارے سیاسی بیروزگار قطار در قطار کھڑے ہیں ،اور ان کی بیروزگاری دور ہونے تک اگر انتظار کرنے کی نوبت آ جائے تو یہ سارے بیروزگار نوجوان بوڑھے ہو جائیں ۔ابھی بہت مشکل سے انہوں نے اپنی دوسری بیٹی کی بیروزگاری دور کرنے کی سمت پہلا قدم بڑھایا ہے ۔ان کی فیملی میں سے ابھی تک دو بیٹوں ،بیوی اور دو بیٹیوں کے علاوہ ایک سالے کو سیاسی نوکری مل تو گئی ہے لیکن سالے صاحب کی اپنی کوئی اوقات نہ ہونے کے باوجود بھی بہنوئی سے تنا تنی چل رہی ہے ۔ممکن ہے کہ یہ دکھاوا بھی ہو لیکن اس کا ذکر بھی برسبیل تذکرہ آ گیا ورنہ کہنا یہ تھا کہ بہار کے نوجوانوں کی یہ سمجھ بن چکی ہے کہ موصوف کی زندگی میں تو بہار میں بہار آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ کانگریس پر بھی پوری طرح قبضہ جمایا ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے بہار کے کانگریس ادھیکچھ بھی ان کے ہی پے رول پر کام کرتے ہیں ۔راہل گاندھی سے اس کی امید کی جا رہی تھی کہ وہ بہار میں کانگریس کو آزاد کرا لینگے لیکن گرو گھنٹال نے پچھلے برس ان کی مٹن پارٹی کیا کرائی راہل جی خود ان کے سحر میں مبتلا ہو گئے ۔اس کی تازہ مثال پپو یادو ہیں جو بڑے طمطراق سے اپنی پارٹی کو کانگریس میں شامل کر کے یعنی اپنی کشتی جلا کر بہار میں کانگریس کی قوت بننے آئے تھے لیکن سنگا پور سے کڈنی تبدیل کروا کر آنے کے بعد گرو جی کو ایک بار پھر بہار پر قبضہ کرنے کی دھن ایسی سوار ہوئی ہے کہ وہ پپو یادو کیا کنہیا کمار کو بھی برداشت کرنے کی حالت میں نہیں ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جیسے ہی بہار میں کانگریس کو کوئی زمینی لیڈر ملا کانگریس اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائیگی اور پھر ان کے خاندان کی سیاست خاندان تک ہی محدود ہو کر رہ جائیگی ۔بہار کے نوجوان بہار میں کا نگریس کی بے بسی دیکھ رہے ہیں کہ بیچارے راہل گاندھی اپنے حصہ کی سیٹوں پر اپنی پسند کا کنڈیڈیٹ بھی کھڑا کرنے سے قاصر ہیں ۔ایسے میں کانگریس یا اس کے محاذ کے ساتھ کھڑے ہونے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے موبائل کی طرف دھیان مرکوز کریں ،موبائل کی ایک بڑی خوبی یہ تو ہے کہ چاہے کچھ مالی منفعت ہو یا نہ ہو انسان کو اپنے بیروزگار ہونے کا احساس نہیں ہوتا ۔اور یہ چھوٹی موٹی بات نہیں ۔