منی پور میں کوکی عیسائیوں کے ساتھ وہاں کے اکثریتی میتئی قبیلے کی بہیمیت جاری ہے ۔سرکاری بیانات بھی اب جاری ہونے لگے ہیں،ملک کی گرتی ساکھ پر بیان بازیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔چینلوں پر مباحثے بھی ہو رہے ہیں ۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ تاثر دیا جا رہا ہو کہ ملک میں اس طرح کا معاملہ پہلی بار ہو رہا ہے اور اس کو دیکھ یا سن کر لوگوں کی آنکھیں چوڑی ہوئی جا رہی ہیں ۔ان نوجوانوں کے لئے تو ضرور جن کی عمر ابھی بیس پچیس برس ہے ۔لیکن چالیس برس سے اوپر کے لوگ بھلے اس کا ذکر نہ کریں لیکن یہ جانتے ضرور ہیں کہ ازادی کے بعد سے اب تک اس ملک میں اکثریتی شر پسندوں کا کیسا کیسا ننگا ناچ ہوا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ ملک کا مسلمان ان سارے ہنگاموں سے دور کھڑا یہ سوچ رہا ہے کہ کیا آزادی کے بعد سے اب تک کے فسادات میں ایسے دل دہلا دینے والے واقعات اس سے پہلے نہیں ہوئے ؟کیامرادآباد کے عید گاہ میں ساڑھے تین سو نمازیوں کو عید کے دن گولیوں سے صرف اس لئے نہیں بھون دیا گیا تھا کہ وہ مسلمان تھے ۔گجرات فساد کی نظیر تو ہٹلر اور مسولینی کے ظلم کی تاریخ میں بھی نہیں مل سکتی ۔لیکن اس وقت یہ واویلا کیوں نہیں مچا تھا ؟آج جو لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ منی پور میں انٹر نیٹ بند کر کے ریاستی حکومت وہاں ایک مخصوص کمیونیٹی کے ساتھ زیادتی کی انتہا کو خاموشی سے دیکھ رہی ہے انہیں کشمیر میں بار بار انٹر نیٹ کا معطل ہونا نظر نہیں آتا کہ اسے معطل کر کے وہاں کی انتظامیہ کیا کیا کھیل رچاتی ہے ۔یہ خبر تو سب کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ منی پور میں چھ ہزار سے زیادہ فوجی ہتھیار شدت پسندوں نے لوٹے ہیں اور کم و بیش ایک لاکھ گولیوں کی بھی لوٹ ہوئی ہیں ۔وہاں سے آنے والی خبروں میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ شرپسند میتئی کمیونیٹی کے پاس جدید آٹو میٹک ہتھیار ہیں ۔اور یہ سارے ہتھیار وہاں موجود سیکیوریٹی کے جوانوں سے چھینے گئے ہیں ۔لیکن ان ہنگاموں کے دوران کسی پینل ڈسکشن میں یہ سوالات کسی نے بھی نہیں اٹھائے کہ ایسے جدید ہتھیار تو وہاں کی پولیس کےپاس بھی نہیں ہیں تو پھر ان شدت پسندوں کے پاس کہاں سے آ گئے ؟
ویسے جہاں تک سوال ان خواتین پر ڈھائے جانے والے ظلم کی بات ہو رہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ اس سے ہمارا ملک بدنام ہو رہا ہے ،اس کی روایت پامال ہو رہی ہے تو معاف کیجئے کہ اسی ملک میں چند برس پہلے راجدھانی سے متصل ریاست میں ایک بھگوا د ھاری جوگی نے عوامی خطاب میں کہا تھا کہ ہم اگر اقتفار میں آئے تو مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر ان کا ریپ کرینگے ۔اور پھر ہماری آنکھوں کے سامنے اس کو نہ صرف اس ریاست کے لوگوں نے اقتدار میں پہنچایا بلکہ پورے ملک کے لوگوں نے اس کی پارٹی کو پورے ملک کا اقتدار سونپ دیا ۔
مجھے بھی دکھ ہے منی پور کے سانحے پر اور سچ پوچھئے تو زیادہ دکھ ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ منافرت کتنی بھیانک ہوتی ہے اور اس طرح کے فسادات میں لکڑیاں کم جلتی ہیں انسانی جسم کو ایندھن زیادہ بنایا جاتا ہے ۔اور اس کے بعد شروع ہوتا ہے ان خاندانوں کے افراد کی دربدری کا سلسلہ ،کورٹ کے چکر ،پولیس کی لاپروائی،اور ان کے طنزیہ جملے اور یہ سب وقتی نہیں ہوتا ۔منی پور میں بیرن سنگھ کی سرپرستی میں جو یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔گجرات میں پہلے یہ کھیل کھیلا جا چکا ہے ۔اس وقت بھی گجرات کے وزیر اعلی کو مرکز سے راج دھرم نبھانے کی تلقین کی گئی تھی ۔آج بھی دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔
فرق یہ ہوا ہے جو کبھی ریاست کا وزیر اعلی تھا اب اسے پروموشن مل گیا ہے اور وزیر اعظم بن چکا ہے اور منی پور میں بیٹھا اس کا نائب ہردئے سمراٹ بننے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ایک فرق یہ بھی ہے کہ مظلوم کمیونیٹی گجرات میں مسلم تھے اور منی پور میں عیسائی ہیں ۔
اس سے زیادہ کچھ بدلیگا بھی نہیں ۔عین ممکن ہے کہ ایک دو روز میں بیرن سنگھ کو کونفیڈنس میں لے کر استعفی لے لیا جائے اس سے زیادہ کی کوئی توقع اس لئے بھی نہیں ہے کہ گجرات کا پورا منظر نامہ بھی ہمارے سامنے ہے اور پھر عدالتی کارروائیوں کا انجام بھی ملک نے دیکھ لیا ہے ۔بلقیس بانو کے ساتھ جو کچھ ہوا اور پھر اس کے مجرموں کو جس طرح خود حکومت جیل سے باہر لائی یہ سب تازہ معاملہ ہے ۔کیا منی پور میں ہو رہی خواتین کے ساتھ زیادتی گجرات کی اس زیادتی سے زیادہ بھیانک اور دل دہلا دینے والی ہے جس میں ایک حاملہ عورت کے پیٹ کو چاک کر کے اس میں سے برامد ہونے والے بچے کو ترشول پر ٹانگ کر جشن منایا گیا تھا ۔
اکثریتی طبقہ جب نفرت کی آگ میں جھلسنے لگتا ہے اور اس طبقہ کو حکومت کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے اور یہ عمل بار بار دہرایا جاتا ہے ۔
شعیب رضا فاطمی