مذہب اسلام کی سب سے بڑی خوبی اعتدال ہے۔زندگی کو اعتدال کے ساتھ گذارنا ہی اسلام کی تعلیمات کا خاصہ ہے۔مثال کے طور پر روزہ رکھنا فرض ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہےجس کا دنیا میں کوئی بدل نہیں۔ جس کے بارے میںحدیث قدسی میں رب کریم کا ارشاد ہے ”الصوم لی وانا اجزی بہ۔ اس کا بدلہ میں خود دوں گا “ یعنی بہت ساری عبادتوں کے صلے کی تفصیل قرآن و حدیث میں پہلے ہی بتا دی گئی ہے جیسے مدینے میںایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز پڑھنے کے برابر ہے ، اسی طرح جیسے یہ بیان کر دیا گیا کہ قربان کیے جانے والے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوں گے اتنی ہی نیکیاں ملیں گی۔ یا مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب گھر میں پڑھنے سے ستائیس گنا زیادہ ہے۔ ایسے بہت سے نیک اعمال ہیں جن کے ثواب کی تفصیل بتا دی گئی ہے لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے اجر کی پوری تفصیل کسی کتاب میں درج نہیں۔ یہ اتنا بڑا کارِ ثواب ہے کہ جس کے ثواب اور اجر کا ادراک انسانی شعور و خرد کے بس کی بات نہیں۔ ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ ایک ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بدلے ہمیں آخرت میں کس کس نعمت سے نوازا جائے گا۔ تو اتنی بڑی اور اہم عبادت ہے روزہ۔لیکن !اسلامی تعلیمات کا حسن دیکھیے آپ !اتنی اہم چیز ہوتے ہوئے بھی ایک مومن رمضان کے علاوہ روزانہ پابند صوم نہیں رہ سکتا۔کوئی شخص یہ سوچے کہ اگر میں ایک سال تک روزہ رکھوں گا تو اللہ پاک خوش ہو جائیں گے اور میرے تمام گناہ معاف کر دیں گے ، یا مجھ سے راضی ہو جائیں گے ، یا مجھے نیک و متقی مان لیں گے ، یا دنیا میں مجھے عزت و توقیر بخش دیں گے تو یہ سب تصورات غلط ہیں۔ایک سال تو دور کی بات ہے رمضان کے علاوہ مسلسل ایک ماہ کے روزے رکھنا بھی اللہ یا رسول کی نظر میں پسندیدہ نہیں۔ رسول اللہ نے آکر صومِ داؤدی کی روایت کو ختم کرکے ایک ماہ میں وقفے وقفے سے کچھ روزے رکھنے کو مستحب قرار دیا۔
یہی حد بندی اعتدال کہلاتی ہے۔ اسلام نے ہر چیز کی ایک حد مقرر کی ہے۔ زندگی گذارنے کے لیے آپ حد سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ اگر کریںگے تو عمل کی نسبت سے تنبیہ و سزا کے حقدار بھی ہو ںگے۔اور بہت سے وہ اعمال جن پر کوئی سزا اِس لیے نہیں دی جاتی کہ ان کی حیثیت شرعی اعتبار سے کسی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی لیکن ان کا اظہار حد سے زیادہ تقوے کا مظاہرہ کرنا ہو تو وہ بھی کوئی پسند نہیں کرتا۔ جیسے ٹخنوں سے اوپر پائجامہ پہنا ضروری ہے لیکن اگر کوئی اتنا اونچا پائجامہ پہننے لگے جو ٹخنوں سے اوپر نہیں بلکہ گھٹنوںسے ذرا نیچے کہلائے جانے کا مستحق ہو تو یہ سنت پر عمل نہیں بلکہ سنت پر بڑھ چڑھ کر عمل کرنے کا مظاہرہ ہے۔ ریاکاری کا نمونہ ہے۔خود نمائی کامظہر ہے۔ جس کی اللہ کے یہاں کوئی حیثیت و وقعت نہیں۔ دکھاوا کرنے کی نیت سے کی جانے والی عبادتیں یومِ آخرت منہ پر مار دی جائیں گی اور تب خودنمائی کے اسیروں کو احساس ہوگا کہ ہم عبادتیں کرنے کے باوجود بھی کتنے خسارے میں رہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے ، عنوان کیا دیا ہے اور لکھ کیا رہا ہے ، شادی کارڈ کا روزہ اور عبادات سے کیا تعلق !فکر مت کیجئے بات کوواضح کرنے کے لیے یہ تمہید ضروری تھی۔ آئیے اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔یقینا آپ کے پاس بھی ایسے شادی کارڈ ضرور آئیں ہوں گے جن میں دولہا کا نام تو ہوتا ہے لیکن دلہن کا نام نہیں ہوتا اور اس کی جگہ بنت فلاں لکھا ہوتا ہے۔یہ بھی واضح کردوں کہ دلہن کا نام لکھے بغیر شادی کارڈ چھپوانے والایہ ایک ہی طبقہ ہے ، دنیا میں کسی اور تعلیم یافتہ کو اِس اعلیٰ ترین علم کی بھنک بھی نہیں لگی جو اہل مدارس کے ”چند “ سند یافتہ لوگوں نے اپنے فہم و ادراک کے طفیل محسو س کر لیا ہے۔جی مدارس سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد چند فقط چند ہی ایسے باکمال علم والے دنیا میں اپنی قابلیت کا نمونہ پیش کرتے ہیں اور پھر ان کی دیکھا دیکھی سادہ لوح عوام بھی اس عمل بے سود کی تقلید میں لگ جاتے ہیں جس کے بعد یہ بے کار اور بے فیض عمل ایک خوبی تصور کیا جانے لگتا ہے۔ حالانکہ یہ عمل صرف نا سمجھی و نادانی ہی کا مظہر نہیں بلکہ ازواج الانبیا ءکی پوشیدہ تضحیک کا سبب بھی محسوس ہوتا ہے۔شادی کی خبر میں لڑکی کا نام ظاہر نہ کرنے کی اس وبا میں کسی ایک مدرسے کے فارغین ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ قاسمی ، ندوی ، مظاہری ، فلاحی ، مصباحی ، مفتاحی سبھی اداروں سے نکلے ہوئے وہ لوگ شامل ہیں جو خود کو نبیوں اور صحابہ سے زیادہ متقی و پرہیزگار باور کرانے کے خواہش مند ہیں۔اور وجہ پوچھو تو انھیں خود نہیں معلوم۔ ایک ندوی صاحب نے مجھے اپنی بیٹی کی شادی کا کارڈ بنانے کے لیے کہا جس میں بیٹی کا نام نہیں لکھا تھا۔ میں نے پوچھا محترم اِس میں بیٹی کا نام کیوں نہیں لکھا تو جواب دیا :بس ایسے ہی! میں نے پوچھا میں اپنی معلومات بڑھانے کے لیے پوچھ رہا ہوں آپ ماشاءاللہ عالم ہیں ندوی ہیں میں تو بے علم و بے عمل ہوں ، آپ وجہ بتائیں گے تو ہم جیسوں کے بھی علم میں اضافہ ہوگا۔اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ بس ہمارے بڑے کرتے آئے ہیں اور کوئی وجہ ہمیں نہیں معلوم۔ان کے اِس جواب پر مجھے یک لخت مکہ کے وہ مشرکین یاد آگئے جو کہتے تھے کہ ہم اپنے اجداد کے طریقے نہیں چھوڑ سکتے۔حالانکہ وقت نے دکھا دیا کہ وہ تمام طریقے جہالت پر مبنی تھے نہ کہ حق کے علمبردار۔
آئیے بات کو مزید وضاحت سے سمجھتے ہیں۔ بے شک ایسا شادی کارڈ آپ نے ضرور دیکھا ہوگا جس میں کچھ اس طرح کی عبارت ہوگی۔الحمدللہ میرے بیٹے زید کا نکاح مولانا عبدالحمید فلاحی صاحب کی بیٹی کے ہمراہ ہونا طے پایا ہے….یا اگر بیٹی کی شادی کا خبرنامہ ہے تو اس میں کچھ یوں تحریر ہوتی ہے : الحمدللہ نہایت مسرت کے ساتھ آپ سے عرض ہے کہ ہماری دختر نیک اختر کا نکاح مولانا عبدالحمید فلاحی صاحب کےفرزند نور چشم محمد زیدکے ہمراہ ہونا طے پایا ہے۔
آپ کسی سے بھی معلوم کر لیجیے شادی کارڈ پر لڑکی کا نام ظاہر نہ کرنے کی اول تو کوئی وجہ بیان نہیں کر پائیں گے اور اگر کوئی تھوڑا سا چرب زبانی کا شوقین ہوگا تو جھٹ سے اپنی تقوی شعاری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے عفت و عصمت کی سرفرازی کا دم بھر کے کہے گا کہ :میاں عورت کو پردے میں رکھنے کا حکم ہے اس لیے ہمارے یہاں بیٹیوں کا نام ظاہر نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے مفہوم کا جواب نہ تو کوئی دے سکتا اور نہ کسی کے پاس ہے۔آئیے جانتے ہیں کہ کار ڈ پر نام کیوں چھاپنا چاہیے۔ ایک دن ایک صاحب اسی طرح کی فکر کے ساتھ اپنا شادی کارڈ بنوانے آئے جو فکر لڑکیوں کے نام کو شادی کارڈ پر چھاپنا گناہِ عظیم سمجھتی ہے۔ ان سے بھی راقم نے وہی سوال کیا جو ندوی صاحب سے کیا تھا۔ آج جو آئے تھے وہ قاسمی صاحب تھے۔ انھوں نے بھی بس یہی جواب دیا کہ ہمارے یہاں چھاپتے نہیں۔کبھی لوگ کہیں کہ مولوی صاحب نے شادی کارڈ پر اپنی بیوی کا نام چھاپا ہے۔ احقر نے کہا: تو اِس میں کیا خرابی ہے۔ کوئی کہتا ہے تو کہتا رہے اور یہ ذہن بھی تو آپ جیسوں ہی نے بنایا ہے کہ اب انھیں کسی مولوی کی بیوی کانام شادی کارڈ پر دیکھنا عجیب لگ رہا ہے۔ بہر حال پھر جو باتیں انھیں بتائیں وہی یہاں تحریر کر رہا ہوں۔ وہ قاسمی صاحب صاف دل کے مالک تھے ، ان کے دل پر شخصیت پرستی کی گرد نہیں تھی نہ ہی ان کا ذہن کسی اندھی تقلید میں گرفتا ر تھا۔ اس لیے بات ان کے سمجھ میں آگئی اور پھر انھوں نے کارڈ پر اپنی اہلیہ کا نام بھی پرنٹ کروایا۔دیکھیے آپ صرف اسی وجہ سے تو نام نہیں چھاپ رہے کہ کسی کو خبر نہ ہو میری بیوی کا نام کیا ہے۔
جی یہی بات ہے۔ تو بھائی اس سے حاصل کیا ہے۔ صرف نام معلوم ہو جانے سے کیا ہو جائے گا۔ میں آپ کو بتاتا ہوں میری اہلیہ کا نام عصمت بنت عاصم ہے ، بتائیے اب کیا کر لیا آپ نے ، کیا نام سے آپ کو یہ علم ہو گیا کہ میری بیوی کالی ہے یا گوری ، خوبصورت ہے یا بد صورت ، موٹی ہے یا پتلی ، لمبی ہے یا چھوٹی۔ بتائیے نام جان لینے سے آپ کو اور کیا پتہ چل گیا؟ ظاہر ہے کچھ نہیں۔اور سنیے ! کسی پر بھی اپنی بیوی کا نام ظاہر نہ کرنے والے کیا نکاح کے وقت قاضی سے بھی یہ کہیں گے کہ قاضی صاحب نکاح پڑھاتے وقت لڑکی کا نام بس دولہا کے کان میں بتائیے گا بہ آوازِ بلند مت پکاریے گا۔ ایسا نہیں ہے نا!۔ اور یقینا ایسا نہیں ہوتا۔ تو پھر وہاں کیوں سب کے سامنے لڑکی کا نام پکارا جاتا ہے ، اگر نام کو پوشیدہ رکھنے کی بات ہے تو پھر ہر جگہ اس پر عمل ہونا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اپنے بچوں کا نام اچھا رکھا کرو کہ نام کا اثر اولاد کی زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ تو میرے بھائی وہ لوگ جو لڑکی کا نام سب سے چھپانا چاہتے ہیں ان کو تو چاہیے لڑکی کا کوئی نام ہی نہ رکھیں ، کیونکہ جب انھیں نام ظاہر ہی نہیں کرنا ہے ، دنیا والوں کو اپنی بیٹی یا بیوی کا نام بتانا ہی نہیں ہے تو پھر بس نام رکھنے کے بجائے منی ، گلو، شونا، جانو ، مانو ایسا کچھ رکھ لیں ، کیوں بیٹی کے پیدا ہونے کے بعد نام تلاش کرتے ہیں ، پڑھے لکھے لوگوں سے معلوم کرتے ہیں ، کوئی اچھا سا نام بتا دیجیے۔ کیوں آدھار کارڈ ، پین کارڈ اور اسکول یا مدرسہ میں بیٹی کا نام لکھواتے ہیں ، وہاں بھی یہی لکھوا دیا کریں : بنت عبدالحمید۔ کیا وہاں نام ظاہر کرنا تقویٰ کی بلندی ہے۔ جب کہ شناختی کارڈ وغیرہ تو شرعی حیثیت سے کوئی اہمیت بھی نہیں رکھتے اور نکاح باقاعدہ انبیاءکی سنت ہے۔
اسلام کا شعار ہے۔ مومن کا امتیاز ہے۔ جسے عام کرنے کا بھی حکم ہے اور اعلانیہ کرنے کا بھی۔کسی بھی انسان کا نام اس کی سب سے پہلی پہچان ہوتا ہے ، نام ہی سے اس کو دنیا پکارتی ہے اور یاد رکھتی ہے۔ تاج محل کس نے بنوایا تھا یہ سب کو معلوم ہے کیونکہ اس کے نام سے دنیا واقف ہے ” شاہ جہاں “۔لیکن تاج محل کس نے بنایا تھا یہ کسی کو نہیں معلوم۔ کیونکہ مزدوروں کے نام کوئی نہیں پوچھتا نہ ہی کہیں تاریخ میں لکھے جاتے۔ دھیان رکھیے جس کا نام نہیں لیا جاتا اس کی کوئی حیثیت بھی نہیں رہتی۔ آپ ایک باپ کی لخت جگر، نورِ نظر، کو اپنے گھر میں لارہے ہیں اور گھر میں لانے سے قبل ہی آپ نے اس کا سب سے پہلا حق جو اس کے ماں باپ کی طرف سے تحفہ کے طور پر ملا تھا اس کا نام ، وہ چھین لیا۔ آپ نے شادی کرنے سے پہلے ہی کارڈ پر اس کا نام نا چھاپ کے اسے یہ احساس دلا دیا کہ تیری کوئی حیثیت نہیں ہے ، کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ، یہ کوئی ضروری نہیں کہ دنیا تجھے جانے یا پہچانے۔ کیوں کہ نام معلوم ہوگا تو لوگ جانیں گے نا! جب نام ہی کسی کو نہیں پتہ تو کون جانے کہ زید کی بیوی کو ن ہے۔ آپ نے اس سے شادی کرکے اس کا وقار نہیں بڑھایا ہے بلکہ اس کو بغیر نام کے گھر میں لاکر بے حیثیت کر دیا ہے۔ اس کے وجود کا اعتماد کمزور کر دیا ہے۔ اس کی خودی اس کی شناخت کو مٹا دیا ہے۔
ایسے لوگ جو بیٹی یا بیوی کا نام شادی کارڈ پر نہیں چھاپتے ، جو عزت و عفت اور پردہ داری کی دہائی دیتے ہیں وہ بتائیں ذرا کہ ان کی بہو، بیٹیاں کیا نبیوں کی ازواج و اولاد سے بھی بڑھ کر پاک دامن اور عزت دار ہیں؟آج تک کسی پیغمبر نے تو اپنی بیوی اور بیٹی کا نام نہیں چھپایا۔ آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی کی تمام ازواجِ مطہرات اور صاحبزادیوں کے نام سیرت و تاریخ کی کتب میں موجود ہیں۔در حقیقت دنیا میں سب سے زیادہ پاک دامن اور عزت و احترام کے لائق کوئی خواتین ہو سکتی ہیں تو وہ امت مسلمہ کی مائیں ازواجِ مطہرات ہیں۔ اگر رسولِ پاک بھی نکاح کرتے وقت اپنی زوجہ کا نام پوشیدہ رکھتے اور صحابہؓ کو تاکید کر دیتے کہ کوئی بھی نبی کی اہلیہ کا نام ظاہر مت کرنا تو بتائیے کیا تاریخ میں کسی بھی زوجۂ مطہرہ کا نام محفوظ ہو پاتا؟
حضرت آدمؑ کی اہلیہ حضرت حواؑ حضرت ابراہیم کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ ، حضرت یعقوب ؑ کی بیوی حضرت لیاؑ، حضرت موسیؑ کی شریک حیات حضرت صفورہ ؓ اور حضرت محمدکی تمام ازواجِ مطہرات کے نام دنیا کو معلوم ہیں۔ کیا آج کل نیک ہونے کا مظاہر ہ کرنے والے نبیوں سے زیادہ دین کے پیروکار ہیں جو امت کو بتاتے ہیں کہ دیکھو اصل تقوی ٰ ہم سے سیکھو، پاک دامنی ، پردہ داری اور تقوے کا دِکھاوا کرنے کا جو طریقہ ہم اختیار کرتے ہیں اس کا احساس کسی نبی تک کو نہیںہوا۔ (نعوذ باللہ من ذالک)
پھر یہ بھی تو بتائیے کہ بنت عبدالحمید لکھ دینے سے یہ کہاں معلوم ہو رہا ہے کون سی بیٹی کی شادی ہے۔ ظاہر سی بات ہے ہر شخص کے فقط ایک ہی بیٹی تو ہوتی نہیں ہے کسی کے دو ہیں کسی کے چار ہیں۔ تو صرف ولدیت لکھ دینے سے یہ کس طرح معلوم ہوگا کہ کون سی بیٹی کا نکاح ہے ، اگر کسی عبدالحمید کے تین لڑکیاں ہیں۔ عذرا ، عظمی ، عطیہ۔ نکاح عظمی کا ہو رہا ہے زید کے ساتھ۔ اور شادی کارڈ پر لڑکی کا نام نہ لکھ کر بنت عبدالحمید لکھ دیا جائے تو کیسے علم ہو شادی عذرا کی ہے ، عطیہ کی ہے یا عظمی کی ؟ظاہر ہے جو لوگ گھر کے نہیں ہیں ، یعنی وہ متعلقین جنہیں بیٹیوں کی تفصیل نہیں معلوم ، ان کے پاس جب شادی کارڈ جائے گا تو وہ کیا جانیں گے ،کون سی بیٹی کا نکاح ہو رہا ہے۔اسلام کہتا ہے کہ نکاح کو عام کرو اور نکاح مسجد میں کرو ، نکاح کا اعلان کرو۔ اِس اعلان کرنے کا مقصد یہی تو بتانا ہے کہ عبدالحمید کی بیٹی عظمی کا نکاح زید کے ساتھ ہو گیا ہے۔ اگر کل کو عظمی کے بارے میں کوئی خبر ملتی ہے جیسے اس کے ماں بننے کی خبر ہو یا زید کے ساتھ کہیں باہر گھومنے کی تو لوگوں کو کسی قسم کی بد گمانی کرنے کا موقع نہ ملے۔ سب کو علم ہونا چاہیے کہ عظمی زید کی شریک حیات ہے ، یہ اگر زید کے ساتھ گھوم رہی ہے تو بیوی کی حیثیت سے گھوم رہی ہے۔ زید اس کا شوہر ہے کوئی غیر مرد نہیں۔واقعی اسلام سے بہتر کوئی مذہب ہو ہی نہیں سکتا اور تعلیمات نبوی سے بڑھ کر کوئی معیارِ حیات ممکن نہیں۔ یہی نبوی تعلیمات انسان کو اعتدال کے ساتھ ایک خوش حال زندگی گذارنے کی ضمانت دیتی ہیں۔وہ زندگی جس میں عجز ہے غرور نہیں ، انکسار ہے کبر نہیں ، پذیرائی ہے خود نمائی نہیں، شکر ہے دِکھاوا نہیں، میانہ روی ہے حد سے تجاوز نہیں، خوفِ آخرت ہے فکر دنیا نہیں۔ اسی لیے شادی کارڈ پر لڑکی کا نام چھاپنے جیسی معمولی چیزوں پر تقوے کی بازیگری نہیں کرنی چاہیے۔اعمال کا مدار نیتوں پر ہے ، مظاہرے پر نہیں۔ اور بیٹیوں کوایسی اعلی تعلیم و تربیت دیجیے کہ ان کا نام آپ فخر سے بتا سکیں ، ان کے نام کے ساتھ آپ کی کنیت بھی لوگوں میں عزت و احترام کا ذریعہ بنے۔ نہ یہ کہ ان کا نام چھپاکر انھیںدنیا میں بے حیثیت کر دیں۔