جنگ شروع کرنے سے پہلے ہی اگر کسی فریق کو یہ معلام ہو کہ اس جنگ میں جیت ہمارا مقدر ہے تو پھر جو جنگ ہوگی اس میں ایک فریق نہایت لاپرواہ اور مغرور ہوگا ۔چونکہ اسے معلوم ہے کہ جیتنا اسے ہی ہے لہٰذا وہ نہ تو کوئی حکمت عملی بنائے گا اور نہ ہی اس کی فوج ڈسپلن میں رہیگی ۔پارلیامنٹ میں سرمائی اجلاس کے آغاز سے اب تک ایوان بالا اور ایوان زیریں میں جو کچھ ہوا اور ہو رہاہے اس سے جو اہم بات نکل کر آئی ہے وہ یہی ہے کہ برسر اقتدار بی جے پی سرکار کے پردھان سیوک سے لے کر ان کے سپہ سالار اور پیدل فوج تک سب غرور کے ایورسٹ پر بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے ملک کی عوام ہو یا اپوزیشن ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔
پارلیمانی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے جب وہاں اپوزیشن کے ذریعہ لائے گئے عدم اعتماد کے بل پر جب بحث ہو رہی ہے تو اس سرکار کے پردھان یعنی وزیر اعظم ایوان میں موجود نہیں ہیں ۔ایسا نہ پہلے کسی نے دیکھا اور نہ سنا ۔اس وقت بھی نہیں جب سرکار کے پردھان کو پتہ تھا کہ ان کی سرکار گر جائے گی اور انہیں استعفی دینا ہوگا۔لیکن آج حالات پوری طرح بدل چکے ہیں ۔اب وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کے ان اجلاسوں سے کوئی مطلب نہیں ہے ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ دہلی میں موجود نہیں ہیں ۔وہ باضابطہ پارلیمنٹ میں بھی دیکھے جا رہے ہیں ۔وہ ہر روز اپنے ممبران پارلیامنٹ کی میٹنگ بھی لے رہے ہیں لیکن ایوان کے ہال میں آنے میں انہیں قباحت ہے۔یہ قباحت کیوں ہے اس کی الگ الگ طرح سے تشریح بھی کی جا رہی ہے اور تبصرے بھی ہو رہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی پر ان تبصروں کا کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے کیونکہ انہوں نے جس پناہ گاہ میں خود کو محصور کر لیا ہے وہ پنا گاہ کارپوریٹ سیکٹر نے انہیں دی ہے ۔اس پناہ گاہ کے چاروں طرف حصار بنا کر کارپوریٹ کی میڈیا کھڑی ہے جو ان کے اشارے پر ملک کے مختلف حصوں میں منافرت کی آگ کو بھڑکانے میں مصروف ہے ۔ایک مخصوص کمیونیٹی کو نشانہ بنا کر جلوس بھی نکالے جا رہے ہیں اور بیانات بھی جاری کئے جارہے ہیں ۔اور بیانات کو کارپوریٹ میڈیا نہایت چالاکی سے پبلک ڈومین میں ڈال کر عوامی سطح پر ہیجان میں اضافہ کر رہی ہے ۔ایسے میں مودی جی کو پارلیامنٹ میں آکر منی پور میں اپنے وزیر اعلی کے ذریعہ برپا کئے گئے نفرت کے طوفان کی کہانی سننے کی کیا ضرورت ہے ۔منی پور میں عیسائی کمیونیٹی کے قبائلی لوگوں پر جو ظلم گذشتہ تین ماہ اور اس کے پہلے سے ہو رہا ہے وہ گجرات فساد 2002کے پیٹرن پر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ایسے میں اس ایشو پر وزیر اعظم تقریریں سننے پارلیامنٹ میں کیوں آئینگے ۔جبکہ انہیں یہ معلوم ہے کہ اس عدم اعتماد کی تحریک سے ان کی سرکار کا کچھ بننے بگڑنے والا نہیں ہے ۔
آج عدم اعتماد کی تحریک پر راہل گاندھی نے جس پیرائے میں نریندر مودی اور ان کی پارٹی کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ منی پور اور نوح سمیت پورے ملک میں بی جے پی نفرت کا پٹرول چھڑک کر اس کو آگ لگا رہی ہے اس میں بھارت جل رہا ہے ،یا پھر ان کا یہ کہنا کہ منی پور میں جن عورتوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کی جا رہی ہے وہ ہماری ماں ہیں ،اور وہی بھارت بھی ہے تو اسے سمجھنے کی صلاحیت نریندر مودی میں نہیں ہے ۔آج راہل گاندھی نے اپنے طور پر بڑے خوبصورت پیرائے میں بھارت جوڑو یاترا کے اپنے تجربات کوشئیر کرتے ہوئے کہا کہ اس یاترا کے بعد ان کا غرور ختم ہو گیا اور انہوں نے نے یہ جانا کہ دراصل ہمارا ملک اور اس میں رہنے بسنے والے کروڑوں شہریوں کی آواز ہی بھارت ہے جسے منی پور سمیت پورے ملک میں ختم کیا جا رہا ہے ۔لیکن اس حقیقت تو سب پر منکشف ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر کی مدد سے ملک کے تمام نیشنل چینل اور اخبارات کو خرید کر ہی نریندر مودی کامیاب ہوئے ہیں ۔ایسے میں آوازوں کے قتل پر ماتم کرنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ۔نریندر مودی نے جب یہ دیکھا کہ دہلی میں ان کی پارٹی سرکار نہیں بنا سکتی تو انہوں نے یہ بھی طئے کر لیا کہ وہ یہاں کے وزیر اعلی سے سارے پاور چھین لینگے اور پھر وہی ہوا ۔
یہ وہ حالات ہیں جن میں 2024کا عام انتخاب ہونا ہے ۔اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ جمہوریت کے نام پر کس کس طریقہ سے نریندر مودی اسعام انتخاب میں کامیاب ہوتے ہیں ۔کیونکہ ان کی عوام میں تو اب مقبولیت رہی نہیں ۔اور یہ دیکھا جارہا ہے کہ راہل گاندھی آج ملک کے عام لوگوں میں سب سے مقبول لیڈر ہیں ۔لیکن یہ دعوی نریندر مودی کا ہے کہ وہ 2024میں پھر وزیر اعظم بنینگے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ عوامی مقبولیت کھونے کے بعد بھی ان کے پاس کوئی ایسی قوت ضرور ہے جس کے بل پر وہ سرکار بنانے کا دعوی کر رہے ہیں اور وہ طاقت کارپوریٹ سے بڑی طاقت کون سی ہو سکتی ہے ۔
(شعیب رضا فاطمی )