کانپور،14؍اگست،::،ہماراسماج: شہر کے معروف ادارے حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نائب صدر جمعیۃ علماء اترپردیش کی نگرانی میں یوم آزادی کی مناسبت سے جاری دو روزہ ورکشاپ کی تیسری، چوتھی اور پانچویں نشست میں معروف صاحب نسبت بزرگ مولانا سید محمد طلحہ قاسمی نقشبندی، معروف مؤرخ سید عبیدالرحمن نئی دہلی، دارالعلوم دیوبند کے شعبہ انٹرنیٹ کے مولانا محمداللہ خلیلی، ریسرچ اسکالر مولانا اجمل فاروق نئی دہلی کے قیمتی خطابات ہوئے۔
مولانا طلحہ قاسمی نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ جس طرح جسم پر دوا تبھی کارگر ہو سکتی ہے جب جسم سے روح کا رشتہ ہو، اسی طرح امت کی فلاح و بہبود کی کوئی کوشش تبھی مفید ہو سکتی ہے جب امت کا رشتہ اللہ کے ساتھ مضبوط ہو۔ مولانا نے تاکید سے فرمایا کہ جب خواص کا اللہ سے رشتہ انتہائی مضبوط ہو گا تب عوام کا ایمان محفوظ ہو گا، اگر خواص محض فرائض تک محدود رہیں گے تو عوام فرائض کی بھی پابندی نہیں کریں گے۔دارالعلوم دیوبند کے مولانا محمداللہ خلیلی نے پریزنٹیشن کے ذریعے مرتب انداز میں یورپ کے تاریک دور، استعمار اور اس کے محرکات، ہندوستان میں یورپین اقوام کی آمد اور رفتہ رفتہ ان کے قبضے کی تاریخ کو جامع انداز میں بیان کیا۔ آپ نے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی اصلاحی تحریک، شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے فتویٰ جہاد، نواب سراج الدولہ و ٹیپو سلطان کی انگریزوں کے خلاف جنگ، سید احمد شہیدؒ کی تحریک، ۱۸۵۷ء میں مختلف محاذوں پر علماء کی تحریک، دارالعلوم دیوبند کا قیام اور ریشمی رومال تحریک، تحریکِ خلافت، ستیہ گرہ، جمعیت علمائے ہند، سولِ نافرمانی تحریک اور بھارت چھوڑو تحریک کا ترتیب وار تعارف کراتے ہوئے مسلم علماء و عوام کے قائدانہ و سرفروشانہ کردار کو اجاگر کِیا۔معروف مؤرخ سید عبیدالرحمن نے تحریکِ آزادی کے مختلف ادوار میں مسلم علماء و عوام کے کردار کا تفصیلی تعارف کرانے کے بعد کہا کہ تحریکِ آزادی کے اخیر دور میں بھی تحریکِ آزادی میں اہم رول ادا کرنے والی انڈین نیشنل کانگریس کے 9 صدور مسلمان تھے۔ تقسیمِ ہند کے تناظر میں انہوں نے فرمایا کہ مسلمانوں نے ہی اس کی سب سے مضبوط مخالفت کی، خصوصاً جمعیت علماء نے اس کی مخالفت علمی و عملی دونوں محاذوں پر کی۔ انہوں نے کہا کہ چیلنجز ہر کسی کے سامنے آتے ہیں مگر ان چیلنجز کا سامنا ہم اسی قوت سے کر سکتے ہیں جس قوت سے ہم نے ماضی میں سخت حالات کا سامنا کیا ہے۔
اور ہمارامستقبل اس ملک میں تابناک ہے۔ریسرچ اسکالر مولانا اجمل فاروق ندوی نے سیرت نبویﷺ کے واقعات سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ انسانوں کے لیے آزادی کا حق اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے چھٹی صدی ہجری سے بارہویں صدی ہجری تک جس قدر آزادی کا ماحول دنیا کو دیا، اس کی برابری آج بھی کوئی نہیں کر سکتا۔ مولانا نے مزید فرمایا کہ آزادی کے عنوان پر جدید دور میں عجیب و غریب غیراخلاقی اور مجنونانہ باتیں پیش کی جا رہی ہیں، دراصل ان چیزوں کو آزادی کہنا ہی غلط ہے۔
نوجوان محقق مولانا محمد الماس نے کہا کہ اس ملک میں دو فکروں کا تصادم ہے، ایک فکر یہ ہے ملک میں کچھ حملہ آوروں نے آ کر یہاں کی تہذیب کو پامال کر دیا، اس فکر والوں نے ایک مخصوص نظریے کو ہندوستانی تہذیب کا نام دے کر ملک پر تھوپنا چاہا، یہ چیز پورے ملک کے لیے نقصاندہ ہے۔دوسری فکر یہ ہے کہ صدیوں سے یہ ملک آپسی اختلاف کے باوجود حسنِ اخلاق سے چل رہا ہے، اس فکر میں ملک میں بسنے والوں کے امتیازات کے ہوتے ہوئے پرامن بقائے باہم کا پیغام ہے۔ مولانا نے نوجوانوں کو تعمیری عزائم کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر نوجوان خدمتِ خلق، بچوں کی تعلیم اور عوامی فلاحی خدمات کے لیے عملاً کوشش کر سکتا ہے، اور عوامی بہبود کے لیے حکومتی اسکیموں سے استفادے کی منظم ترتیب بنا سکتا ہے، اپنے روحانی کردار کی ایسی ترقی کہ لوگوں کو آپ کی شخصیت میں ایک ان دیکھی برتری محسوس ہو سکے، نوجوان طبقے کی دینی و فکری تربیت، مستقل مزاجی کے ساتھ غریبوں کی مدد، غیرضروری تنقید کے مزاج سے گریز اور شادی وغیرہ کی تقریبات میں فضول خرچی سے گریز ہمارے عزائم میں شامل ہونے چاہئیں.