بہار اسمبلی انتخابات کی سیاسی بساط بچھ چکی ہے اور ہر مہرہ اپنی چالیں چلنے کو تیار ہے۔ ایک طرف این ڈی اے ہے، جو مرکز کی طاقت اور ریاستی سطح پر نتیش کمار کی قیادت پر بھروسہ کر رہا ہے، تو دوسری طرف مہاگٹھ بندھن ہے، جو سماجی انصاف، سیکولر اقدار اور اقلیتوں کی نمائندگی کو اپنی طاقت بتا رہا ہے۔ لیکن ان دونوں کے بیچ ایک تیسری طاقت بھی تیزی سے ابھر رہی ہے اور وہ ہے اسد الدین اویسی کی مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM)۔
بہت سے سیاسی مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اویسی کی پارٹی مہاگٹھ بندھن کے ووٹ بینک، خاص طور پر اقلیتوں کے درمیان، دراڑ ڈال کر فائدہ بی جے پی یا این ڈی اے کو پہنچائے گی؟ اس سوال کا جواب سادہ نہیں، لیکن زمینی حقائق اور گزشتہ انتخابات کی روشنی میں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے۔
اویسی کی سیاست بنیادی طور پر مسلمانوں کی شناخت، نمائندگی اور ان کے مسائل پر مرکوز ہے۔ ان کی پارٹی نے بہار کے سیمانچل علاقے میں ماضی میں کچھ سیٹیں جیت کر اپنی موجودگی کا ثبوت دیا بھی ہے۔ یہ علاقے مسلم اکثریتی ہیں اور یہاں کی پسماندگی کو اویسی نے سیاسی ہتھیار بنایا ہے۔ ان کی تقاریر میں یہ بات اکثر ابھرتی ہے کہ مہاگٹھ بندھن ہو یا این ڈی اے، کسی نے بھی مسلمانوں کو ان کا جائز حق نہیں دیا۔اور چونکہ یہ ایک چبھتا ہوا سچ ہے اس لئے وہ تمام پارٹیاں جو ماضی یا حال میں بہار کے اقتدار پر قابض رہی ہیں انہیں کافی
مہاگٹھ بندھن، جس میں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)، کانگریس اور بایاں بازو کی جماعتیں شامل ہیں، کا ووٹ بینک مسلم-یادو اتحاد پر منحصر رہا ہے۔ اگر اویسی مسلمانوں کے درمیان سے قابلِ لحاظ ووٹ کھینچ لیتے ہیں، تو اس سے مہاگٹھ بندھن کو خاص طور پر ان سیٹوں پر نقصان پہنچ سکتا ہے جہاں جیت کا فرق معمولی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں براہِ راست فائدہ بی جے پی یا جے ڈی یو کو ہو سکتا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ اویسی کی پارٹی اس وقت اتنی طاقتور نہیں کہ حکومت سازی کا کوئی بڑا خواب دیکھ سکے، لیکن اتنی ضرور مضبوط ہو چکی ہے کہ کمزور حلقوں میں دوسرے امیدواروں کو نقصان پہنچا سکے۔ اگر ان کے امیدوار صرف پانچ سے دس ہزار ووٹ بھی حاصل کرتے ہیں تو کئی حلقوں میں مہاگٹھ بندھن کے امیدواروں کی ہار کا سبب بن سکتے ہیں۔ اور یہی ایک بڑی تشویش ہے، جس پر گٹھ بندھن کو حکمت عملی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔
مہاگٹھ بندھن کے لیڈران بارہا اویسی پر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ بی جے پی کی ’بی ٹیم‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں، لیکن اویسی اس الزام کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کی حقیقی آواز بن کر ابھرنا چاہتے ہیں، اور سیکولر کہلانے والی جماعتوں نے صرف مسلمانوں کا ووٹ لیا، ان کے مسائل نہیں سنے۔
بہار میں اویسی کی موجودگی بلاشبہ ایک حقیقت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی پارٹی مہاگٹھ بندھن کو نقصان پہنچا سکتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں مسلم آبادی زیادہ ہے اور لوگ خود کو مسلسل نظرانداز محسوس کر رہے ہیں۔ تاہم، یہ بھی سچ ہے کہ اگر مہاگٹھ بندھن نے اپنی صفوں کو مضبوط کیا، نوجوانوں اور اقلیتوں کے حقیقی مسائل پر توجہ دلانے والوں کو ٹکٹ دیا ، اور مسلمانوں کو یہ یقین دلا دیا کہ وہ مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو اویسی کا اثر محدود ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اویسی کی ضرورت بہار کے مسلمانوں کو اسی لئے ہے کہ ان کے مسائل کو اٹھانے کے لئے انہیں اپنا نمائندہ چاہئے ۔وہ حقیقی نمائندہ جو ان کے محلوں اور گلیوں کے بجبجاتے ہوئے مسائل سے واقف ہو ۔عام طور پر بظاہر سیکولر نظر آنے والی پارٹیاں انتخابی میدان میں جب کسی مسلمان کو اتارتی بھی ہیں تو اس وقت جب اس حلقہ میں مسلمانوں کی آبادی ساٹھ فیصد سے اوپر ہوتی ہے ۔کیونکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ مسلم اکثریتی حلقہ غیر مسلم امیدوار کے لئے محفوظ ہوتا ہے اور مسلمانوں کو غیر مسلم امیدوار کو ووٹ دینے میں کبھی قباحت نہیں ہوتی ۔بہ شرط یہ کہ اس کا تعلق کسی فرقہ پرست جماعت سے نہ ہو ۔لیکن عام طور پر اگر کسی حلقہ سے مسلم امیدوار کھڑا ہو گیا تو پھر سیکولر مہر کا کا کام کرنے والی ذات کے ووٹر بھی ٹیکٹکل ووٹ دینے کو مجبور ہو جاتے ہیں اور وہ مسلم امیدوار کو ووٹ نہ دے کر اس پارٹی کو ووٹ دے دیتے ہیں جو اس مسلم امیدوار کو شکست دے ۔اور بعض دفعہ یہ دیکھا گیا ہے کہ خود پارٹی سربراہ یہ سب کرتے اور کرواتے نظر آتے ہیں ۔اور یہی وہ دوغلی سیاست ہے جہاں سے اسد الدین اویسی کی ساکھ میں ،ان کی تقریروں میں جان اور چمک پیدا ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بہار اسمبلی انتخابات میں اویسی ایک "کنگ میکر” تو نہیں، لیکن "کنگ بریکر” ضرور بن سکتے ہیں۔