ہلدوانی میں اگر چہ کل پانچ جنوری کو سپریم کورٹ میں سنوائی ہونا ہے اور کسی مثبت فیصلہ کا انتظار کیا جارہا ہے ۔و ہیں اس سے قطع نظر ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد تقریبا 50ہزار لوگ سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں اوراحتجاج و مظاہرے کا سلسلہ جاری ہے ۔لوگ کہیں پلے کارڈ ہاتھوں میں لئے ہیں توکہیں کینڈل مارچ نکالا جارہا ہے ۔پلے کارڈ پر تحریر جملے کچھ اس طرح ہیں،’’ ہمیں مت اجاڑو ‘‘،’’ہمارے گھر میں بوڑھے بیمار اور کمزورماں باپ ہیں اور ہمارے بچے ہیں‘‘ ۔’’اس ٹھنڈ میں ہم کہاں جائیں گے ‘‘!وغیرہ ۔دلوں کو جھنجوڑنے والے پلے کارڈز کا سر د مہری رکھنے والی ہلدوانی انتظامیہ پر کیا اثرہوگا یہ توآنے والا وقت بتائیگا ،لیکن فی الحال جس طرح کے حالات ہیں وہ کافی نازک ہیں ۔ایک جانب لوگوں کا مستقبل دائو پر لگاہوا ہے ۔تو وہیں وہ حکومت کے سامنے رحم کی اپیل کررہے ہیں،ایسے میں کچھ میڈیا گھرانے اور اخبارات نے اپنا متعصب رنگ دکھانا شروع کردیاہے ۔بد قسمتی ہے کہ اب ہلدوانی کے احتجاج کو دہلی کے ’شاہین باغ‘ کے احتجاج سے تشبیہ دے کر اسے مزید پیچیدہ بنانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ۔ موقع پرست اور جانبدار میڈیا کو اپنی روٹیاں سینکنے کا موقع ہونہی نہیں مل گیابلکہ دیا گیا ہے، کہنا غلط نہیں ہوگا۔جب قوم کے نام نہاد اوردردمند لیڈر ایسے حساس مقام پر پہنچ کر اپنی جذباتی تقریریں کرینگے تو حالات ایسے ہی ہونگے!۔غلط نہیں کہ ہلدوانی میں دو دن قبل ’گراں قدر یقین دہانیوں‘ سے سیاسی روٹیاں سینکی گئیں بلکہ لوگوں کو یہ کہہ کرگمراہ کیا گیا کہ ’ انہیں بھروسہ ہے کہ عدالت ان کے حق میں ہی فیصلہ کرے گی! ‘۔شاید وہ نہیں جانتے کہ ان کی مداخلت اور بے جا جذباتی بیان بازی کی وجہ سے ایک حل ہوجانے والا معاملہ کس طرح پیچیدہ ہوجاتا ہے اورکیارخ لے لیتاہے ! جبکہ ہمارے سامنے شاہین باغ کی مثال موجود ہے۔ ۔اس لئے سوال اٹھ رہا ہے کہ کیاہلدوانی میں ریلوے کی زمین پر تعمیر شدہ مکانات کو منہدم کرنے کے فیصلے پر بیان بازی درست تھی؟۔ اور اس معاملے کو ایک طبقہ سے جوڑ کر دیکھنا کتنا درست تھا ؟۔ اگر اس کا موقع نہیں دیا جاتا تو شاید ہندی اخبارات کو بھی اس پر جانبدار انہ صحافت کرنے کا موقع نہ ملتا! ۔الغرض ،ہلدوانی میں انہدامی کارروائی سے قبل عدالت عظمیٰ پر سبھی کی نگاہیں ٹکی ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ کوئی سبیل نکلے گی اور عوام کے حق میں مثبت فیصلہ آئیگا!۔اس میں شک نہیں کہ ہلدوانی میں ساڑھے چار ہزار گھروںکے علاوہ ،اسپتال ، عبادت گاہوں سمیت اسکولوں اور درگاہ و دیگر اہم عمارتوں کو بھی منہدم کیا جانا ہے ،یہ مسئلہ کئی مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ہے کسی ایک طبقہ سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہئے،اگر کسی دیگر مذہب کے ماننے والے کو اجاڑا جائے گا تو اس پر بھی اتنا ہی دکھ ہوگا ، یہی انسانیت کا تقاضاہے۔ چونکہ ہم متعصبانہ سیاست کے غلام بنے ہئے ہیں اس لئے مجبور ہیں ۔ اب چونکہ ہلدوانی میں بڑی آبادی اقلیت قوم کی ہے اس لئے بی جے پی انتطامیہ نشانے پر ہے۔قابل غور ہے کہ یہ صورتحال صرف اترا کھنڈ میں نہیں ہے بلکہ آسام،اتر پردیش ،مدھیہ پردیش میں بھی بنی ہوئی ہے جہاں ایک طبقہ کے خلاف کارروائی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔کہیں مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو کہیں پارکنگ کے نام پر بستیوں کو اجاڑنے کا منصوبہ بنالیا گیا ہے۔یہ بے حد تشویش کی بات ہے ۔ ایسا بی جے پی حکومت کی ریاستوں میں کیوں ہورہا ہے ،یہ بڑا سوال ہے !۔اس میں شک کی گنجائش نہیںکہ بلڈوزرکی پالیسی ایک طبقہ کے خلاف شروع کی جانے والی متعصبانہ کوشش کا نتیجہ ہے جو کہ اتر پردیش کی بی جے پی حکومت کی دین ہے ۔اتر پردیش کے بعد اس کی جھلک دہلی کے جہانگیر پوری میں بھی دیکھی گئی ۔لیکن عدالت عظمیٰ کے سخت رخ کے بعدیہ سلسلہ کمزور پڑگیا ۔لیکن کچھ توقف کے بعد اب یہ سلسلہ دوسری بی جے پی حکومت کے زیر اثر ریاستوں میں نمایاں طور سے دیکھا جاسکتا ہے۔بہر حال ،ہلدوانی میں لوگوں کو اجاڑنے سے پہلے ان کیلئے متبادل جگہ کا انتظام کیا جانا چاہئے اس میں سیاست کرنا لوگوں کی مجبوریوں سے کھلواڑ کرنا اور انکا مذاق اڑانے جیسا ہوگا۔اس طرح کی موقع پرستانہ سیاست اور صحافت بند ہونی چاہئے۔