فاروق تانترے
سرینگر،سماج نیوز سروس:جموں و کشمیر کے عوام کو تقسیمی عناصر سے ہوشیار کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اپیل کی ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں سوچ سمجھ کر ووٹ کا استعمال کریں کیونکہ یہاں آپ کے ووٹوں کو تقسیم کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر کوششیں ہورہی ہیں، موقعہ پرست سیاسی جماعتیں ایک جگہ ایک بات کرتی ہیں اور دوسری جگہ دوسری باتیں کرتی ہیں، یہ سب کچھ عوام کو گمراہ کرنے کیلئے کیا جارہاہے۔ کل ملک کے وزیر دفاع نے بانہال میں تقریر کی ہم پاکستان سے بات چیت کیلئے تیار ہیں لیکن جب نیشنل کانفرنس نے اپنے منشور میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت کی کوششوں کا حوالہ دیا تو وزیر داخلہ امیت شاہ صاحب کو وہ راس نہیں آیا اور انہوں نے جموں میں اسی بات پر ہمیں نشانہ بنایا۔ اب ہوم منسٹر صاحب ٹھیک ہیں یا وزیر دفاع صحیح بول رہے ہیں؟یہ لوگ بانہال میں ایک بات کرتے ہیں اور جموں میں دوسری بات کرتے ہیں۔بانہال میں چنائو ی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے عمر عبد اللہ نے کہا کہ وزیر داخلہ جموں میں کہتے ہیں کہ ہم حریت کیساتھ نہیں بلکہ نوجوانوں کیساتھ بات کریں گے جبکہ دفاع بانہال میں کہتے ہیں کہ ہم نے 2016میں اپوزیشن اراکین پارلیمان کے ذریعے حریت کیساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اب خدارا بتایئے کہ بی جے پی کی اصل پالیسی کیا ہے؟ کیا بانہال کیلئے ان کی پالیسی ایک اور جموں کیلئے الگ ہے؟ دونوں چیزیں نہیں ہوسکتی ہیںاور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ باتیں جذبات کیساتھ کھیلنے کیلئے کی جارہی ہیں۔ عمر عبداللہ حلقہ انتخاب بانہال میں نیل اور گول میں چنائوی جلسوں سے خطاب کررہے تھے، جس کا انعقاد پارٹی اُمیدوار سجاد شاہین نے کیا تھا۔ پی ڈی پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی کی طرح قلم دوات جماعت کی پالیسی بھی سمجھ نہیں آتی ہے، وہ لوگ آج دوبارہ عوام سے بی جے پی کیخلاف ووٹ مانگ رہے ہیں، کیا یہ وہی نعرہ نہیں ہے جو محبوبہ مفتی کی پارٹی نے2014میں استعمال کیا تھا اور لوگوں سے بی جے پی کو باہر رکھنے کیلئے ووٹ لیکر انتخابی نتائج آنے کے ساتھ ہی ایک بار نہیں بلکہ دو بار بی جے پی کیساتھ حکومت بنائی۔ اور پی ڈی پی نے ہماری غیر مشروط حمایت کے باوجود بی جے پی کیساتھ ہاتھ ملایا جبکہ ہم نے 6سال مکمل طو پر حکومت چلانے کیلئے پی ڈی پی کو پیشکش کی تھی تاکہ بھاجپا کو باہر رکھا جائے۔ اگر آج ہمارا اپناجھنڈا، ہمارا اپنا آئین نہیں ہے، اگر آج ہماری زمینوں پر ہمارا حق نہیں ہے، اگر آج ہمارے دریائوں پر ہمارا حق نہیں رہا، اگر آج اس ریاست کے دو ٹکڑے ہوئے ہیں ، تو وہ پی ڈی پی کے اُسی فیصلے کی بدولت ہوئے ہیں۔پی ڈی پی اور بھاجپا یارانے پر بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ 2019کے بعد بی جے پی نے ہی جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن چھینی، ریاست کے دو ٹکڑے ہیں، اس ریاست کو بے چینی کی نظر کردیا اور لوگوں کو غیر یقینیت کے بھنور میں دھکیل دیا لیکن اس کے باوجود محبوبہ مفتی اور پی ڈی پی والوں کی تقریروں میں 90فیصد مخالف نیشنل کانفرنس کی ہوتی ہے اور بی جے پی کا برائے نام ذکر ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تار کہیں نہ کہیں آج بھی جڑے ہوئے ہیں۔کانگریس کے بانہال کی نیشنل کانفرنس کیخلاف تقریر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ دو ماہ قبل جب میں نے بانہال میں کانگریس کے پارلیمانی اُمیدوار کیلئے مہم چلائی تب تو مذکورہ اُمیدوار نے میری اور نیشنل کانفرنس کی تعریفوں کے پُل باندھے اور آج مخالفت کررہے ہیں، وہ تب سچ کہہ رہے تھے یا اب سچ کہہ رہے ہیں۔ جو کام مذکورہ اُمیدوار بانہال میں گن رہا ہے وہ ہماری مہربانی ہے کہ ہم نے اُسے ان کاموں پر اپنا پتھر لگانے کی اجازت دی نہیں تو بحیثیت وزیر اعلیٰ میں ہر ایک کام کی اپنے ہاتھوں سے شروعات کرتا۔ آج بھی اُن کاموں کی فائلوں میں میرے دستخط موجود ہونگے، میں نے بحیثیت وزیر اعلیٰ وہ کام کسی اُمیدوار یا کسی جماعت کیلئے نہیں کرائے ، بلکہ یہاں کے عوام کیلئے کئے۔ مجھے اس اُمیدوار کی مخالفت کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن جو اُس نے کل ہمارے خلاف مورچہ کھولا ہے اُس کا جواب تو ہمیں ضرور دینا پڑیگا، اس شخص کو پارٹی نے الیکشن بگل بجتے ہی پی سی سی صدر کے عہدے کے لائق نہیں سمجھا اور عہدے سے ہٹا دیا تو بانہال کے عوام کو اس ووٹ کیوں دے۔