وکیل عثمانی
آج یوم جمہوریہ ہے اور سارا ملک خوشیاں منا رہا ہے سبہوں کا دل خوشی و مسرت سے باغ باغ ہے بچے بچے کے ہاتھوں میں ہندوستان کا ترنگا ہے پورا دیش رنگوں سے رنگ برنگ ہے جس گلی اور کوچے میں چلے جائیں خواہ وہ شہر ہو یا دیہات گاؤں ہو یا قصبہ ہر جگہ اور ہر سمت 26 جنوری یوم جمہوریہ کے نغمے سنائی دیں گے کہیں سے شہیدان وطن کے داد و تحسین کی آوازیں آئیں گی تو کہیں سے جمہوریت کی خصوصیات کے نغمے سنائی دیں گے تو کسی سمت سے جمہوریت کے فوائد و قواعد اور مدہوش کر دینے والے پراثر نغموں کی گنگناہٹ سنائی دے گی۔
ہندوستان کی آزادی کو تقریبا 75 سال گزر چکے ہیں اور یہاں پر جمہوریت کے قائم ہوئے تقریبا 73 سال کا عرصہ گزر چکا ہے 1600 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے اس ملک میں اپنے پنجے گاڑنے اور ظلم و استبداد کو پھیلانے کے لیے انگریزوں نے جو چالیں چلی تھیں اور 1600 کے بعد جس انداز سے ان کا ظلم و جور بڑھتا چلا گیا 15 اگست 1947 میں وطن عزیز کو اللہ رب العالمین نے انگریزوں کی ناانصافیوں اور ان کے ظلم و جور سے نجات دے دی اور تقریباً 200 سال کی مسلسل قربانیوں کے بعد آزادی کا یہ دن دیکھنا نصیب ہوا ہندوستان کے آزاد ہو جانے کے بعد دستورسازاسمبلی کا اعلان ہوا اور اس نے اپنا کام 9 دسمبر 1947 سے شروع کر دیا دستور ساز اسمبلی نے 2 سال گیارہ مہینے 18 دن میں ہندوستانی آئین کو مرتب کیا اور اس دستور ساز اسمبلی کے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کو 26 نومبر 1949 کو ہندوستان کا آئین سپرد کر دیا گیا اس لئے 26 نومبر کے دن کو ہندوستان میں یوم آئین کے طور پر ہرسال منایا جاتا ہے،اور 26 جنوری کو جشن کے طور پر کیوں مناتے ہیں تو آئیے تاریخ کے اوراق کا مشاہدہ کرتے ہیں جشن کا یہ دن ہندوستان کو یونہی نہیں ملا اس کے لیے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور محب وطن کو بڑی سے بڑی قربانیاں دینی پڑیں لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑے تب جاکر 26 جنوری کو جشن منانے کا یہ زرین موقع ہندوستان کو نصیب ہوا ہے لیکن افسوس آج جس قوم کو برا بھلا کہا جاتا ہے اگر جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں الگ کر دی جائیں تو ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کبھی مکمل نہ ہوگی یہی وہ قوم ہے جس نے جذبۂ آزادی سے سرشار اور سر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب و تمدن کی بقا کے لیے بے خوف و خطر آتش فرنگی میں کود پڑی اور انگریزوں کے خلاف جنگ کا محاذ بلند کرنے میں پیش پیش تھی۔
انگریزوں کے خلاف جنگ کا باقاعدہ آغاز 1856 میں ہوا لیکن اس سے قبل بھی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی برطانوی حکومت کے خلاف برابر برسرپیکار رہے اور ہندوستانی عوام کی رہنمائی کرتے رہے اور 1764 میں داعی اجل کو لبیک کہا ان کے بعد ان کے جانشین ارجمند شاہ بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 1824 عیسوی میں مالک حقیقی سے جاملے ان کے بھتیجے شاہ اسماعیل 1818 سے 1831 تک اپنے جانباز مجاہدین کے ساتھ سرحد پر دشمنوں سے زور آزمائی کرتے رہے اور پورے ملک کا دورہ کرکے لوگوں کو جگایا اور ان میں حریت کا جذبہ پیدا کرکے آزادی کی آگ لگا دی اور 1831میں بالا کوٹ کی پہاڑی پر لڑ کر جام شہادت نوش کیا دھیرے دھیرے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی چنگاریاں سلگنے لگی پھر 1857 کی جنگ میں نا کام ہونے کے بعد انگریزوں نے ظلم و ستم کی ایسی بجلیاں گرائیں کہ جن کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے اس جنگ آزادی میں مسلمان پیش پیش تھے اس لیے بدلہ بھی چن چن کر سب سے زیادہ انہیں سے لیا گیا دہلی سے لاہور تک کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر علماء کی لاشیں لٹکی ہوئی نہیں تھی چالیس ہزار سے زائد علمائے کرام کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا تھا اس کے بعد پورے ملک میں سناٹا چھایا ہوا تھا 1863سے1870 تک برابر مقدمے چلائے گئے انبالہ سازش کیس 1863 اور پٹنہ سازش کیس 1865 بہت ہی بڑا اہم ہیں جس میں رؤساۓ علماء کو کالے پانی اور حبس دوام اور طرح طرح کی مصیبت جھیلنی پڑیں ان بہادروں کا وہ عظیم الشان کارنامہ تھا جس وجہ سے پنڈ جوہر لال نہرو نے صادق پور کے مولانا عبدالخبیر کی خدمت میں پہنچ کر کہا تھا کہ "جہاں آزادی اور ایثار و قربانی کی راہ میں علماء صادق پور کی قربانیاں ایک طرف اور دیگر لوگوں کی قربانیاں دوسری طرف رکھیں پھر بھی علمائے صادق پور کا پلڑا بھاری ہوگا ”
ڈاکٹر ولیم ولسن کا قول ہے "صادقپور کے علماء اپنے آپ میں بے پروا ، بے داغ زندگی بسر کرنے والے اور انگریزوں کی حکومتوں کو تباہ کرنے والے تھے انہیں کا کام تھا کہ انہوں نے اپنے ہزاروں ہم وطنوں کو بہترین زندگی بسر کرنے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق بہترین تصور پیدا کرنے کی ترغیب دی، علماء صادقپور نے حصول آزادی کی خاطر جن صعوبتوں اور مصیبتوں کو برادشت کیا تلواروں ، بندوقوں اور توپ کے گولوں کو اپنے سینے میں جگہ دی صرف اسوجہ سے کہ ہمارا ملک ہندوستان آزاد ہو جائے” 1919/میں ہی امرتسر کےجلیاں والاباغ کےایک جلسےمیں انگریزوں کی فائرنگ سے ان گنت ہندومسلم کاخون بہا ۔1922/میں ہندومسلم اتحاد ختم کرنےکےلئےانگریزوں نےشدهی سنگهٹن تحریکیں شروع کیں جسکی وجہ سےفرقہ وارانہ فسادات کے چشمے پهوٹ پڑے ۔1929/اور30/میں گاندهی جی نے”ڈانڈی مارچ اورنمک ستیہ گره (نمک سازی تحریک)”چلائ۔1935/میں حکومت ہند کا ایک دستوربنایا گیا۔
1942 میں انگریزو! ہندوستان چهوڑو تحریک چلی
بالآخر برٹش سرکار جھکی اور 15اگست 1947کوملک آزاد هوگیا
اخیر میں یوم جمہوریہ کی مناسبت سے میں تمام محب وطن کو اور مسلم قوم کو خصوصاً یہ پیغام دوں گا کہ
اب لاؤ مسلمانوں تعلیم میں بیداری
اپنوں سے بھی غیروں سے دکھلاؤ وفاداری
ہندو ہو یا مسلم ہو یا عیسائی یا سکھ ہو
اسلام سکھاتا ہے ان سب سے رواداری